کلچرل فیسٹیول کے نام پر حیا کا جنازہ

ہم بھول گۓ ہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ ریاست ہے.... افسوس

جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو".
ہم نے تو اپنے بڑوں سے یہ ہی سن رکھا ھے کی انسانیت کا لباس، شرم و حیا ہے لیکن افسوس کے ساتھ گذشتہ ہفتہ میں سپیرئیر کالج , ہیری ٹیج کالج عارف والا کی زیر نگرانی ؤ انتظام کلچرل فیسٹیول اور میوزیکل شو کا اہتمام کیا گیا جس میں نوجوان لڑکے, لڑکیوں نے شرکت کی اور خوب ہلہ گلہ نظر آیا.
معذرت کے ساتھ اگر میں یہاں یہ کہوں کہ اس شو سے یہ تاثر ملتا ھے کہ تعلیمی ادارے نئی نسل کو تباہ ؤ برباد کرنے کا مراکز بنتے محسوس ہو رہے ہیں تو غلط نہ ھو گا.
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسکی بنیاد اسلام کے مضبوط نظریہ اسلام ہے لیکن افسوس کہ مغرب کی آغوش میں پلتے یہ دین اسلام سے دور لوگ ہیں.
کلچرل فیسٹیول کے نام پر ڈانس پارٹیوں کی محفلیں سجا کر نام کمایا جا رہا ہے.
تعلیمی ادارے نسل بناتے ہیں لیکن مغربی سوچ کی دلدل میں غرق لوگ ناصرف تعلیمی ادارے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ان تقریبات میں ہونے والے گانوں, سیکسی ڈانس, تنگ لباس, دین سے دوری زدہ کرداروں کو کاپی کرنے کا درس دیا جاتا ہے آزادی کے نام پر,ٹیلنٹ کے نام پر, نوجوانوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے اپنی مرضی کا قاعدہ ؤ قانون دکھایا جاتا ہے, مذہب کو اپنی مرضی کے مطابق اپنانے کا نام ہیں یہ کلچرل فیسٹیول کے نام پر ہونے والی محفلیں ,,
کیا یہ بڑے ادارے قانون ؤ اسلام سے باہر تصور کیے جائیں ؟
کیا ایسی کلچرل فیسٹیول محفلیں سجا کر نوجوانوں کو بے دینی کا سبق دینے کی آجازت دے دی جاۓ ؟
مسلمان ہونے کے ناطے میری اہل علم ؤ دانش کے معماروں سے گزارش ہے کہ خدا کے لیے کچھ خیال فرماۓ
یہ ایک اسلامی ملک ہے, اسلامی جمہوریہ ریاست ہے اس کے اندر جہاں لڑکوں, لڑکیوں کو اگر آپ اسلامی تعلیمات ؤ ثقافت سے آراستہ نہیں کر سکتے تو آپکو یہ بھی حق نہیں کہ وہاں ایسی کلچرل فیسٹیول محفلیں سجا کر پاکستان کے روشن مستقبل کو تاریک نہ کریں, اس نوجوان نسل کو مغرب کی تعلیم کا محافظ نہ بنائیں, تنگ لباس, بے شرم کردار, گندے گانوں پر سیکسی ڈانس کرنے کا موقع نہ فراہم کریں.
جس طرح گذشتہ دنوں یو ای ٹی لاہور میں لڑکیوں کے سکن ٹائٹ پاجامہ، ٹائیٹس اور جینز پہننے پر پابندی لگا دی گئی ھے اور شلوار قمیض کے ساتھ دوپٹہ یا سکارف لازمی قرار اور قمیض کی لمبائی گھٹنے سے نیچے تک ھوگی خلاف ورزی پر 5ھزار جرمانہ ھوگا اس ڈریس کا اطلاق 11 مارچ سے ھوگا والدین نے اس اقدام کو سراہا .اگر ایسے اقدام مزید طول دے کر عام اداروں تک اخلاقی قدروں کو بلند کرنے والے اور مغربی سوچ کو رد کرنے والے فیصلے صادر فرما دئیے جائیں تو نتیجہ بہتر ہو گا
بے شک دوسری جانب مغربی لنڈے کے لبرلوں کا ٹولہ ناخوش ہی ہو اس سے معاشرے کو کوئی فرق نہیں پڑتا.
لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے.وقار جھلکنا چاہیئے نہ کہ عریانیت کا اشتہار .....ایسے قوانین کا اطلاق آج کل کی ضرورت ہے.اس سیلاب کو روکنے کے لیئے میڈیا پر بھی اسکا اطلاق ضروری ہے
کیونکہ آجکل نوجوان لڑکیوں ؤ نسل میں حیاختم ہوتاجارہا ہے اس فیشن اورعریانیت کیوجہ سے ہمارا معاشرہ ایسا بیمار ہوتا جا رہا ھے جسکا علاج ہی ناممکن ہو سکتا ہے. حالانکہ ہمارے نبی ﷺنے فرمایا۔
قال الایمان بضعة وستون شعبة الحیاشعبة من الایمان
آپﷺ نے فرمایا کہ
ایمان کی سترسے زاٸدشاخیں ہیں حیابھی ایمان کی شاخ ہے۔اللہ ہدایت نصيب فرماۓ
لیکن جب تک عملاً نفاذ ممکن نہیں ہوتا....ہماری قوم ؤ نوجوان نسل سدھرنے والی نہیں..پھر بعد میں یہی لوگ لکیر پیٹنے والوں میں شامل ہوتے ہیں.
یہ قانون پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نافذ ہونا چاہئے تاکہ مکمل پابندی لگ سکے.
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جواپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے‘‘۔ایک اور صحابی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے‘‘۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم و حیا‘‘ہے
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 465338 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More