بھارتی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں ’’ انڈین
آرمی کیپ ‘‘پہن کر میچ کھیلا اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ پلوامہ میں مارے
جانے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے ، حالانکہ پلوامہ واقعہ
کے بعد وہ دو میچ پہلے بھی کھیل چکے تھے ، یہ میچ پاک فضائیہ کی موثر
کارروائی اور انڈین آرمی کی پسپائی کے بعد کھیلا گیا گویا ، یہ صرف محض
تعصب اور جنگی اشتعال کی علامت بن گیا جو آئی سی سی کے صدر جو کہ بھارتی
سینا اور نریندر مودی کے دُلا رے ہیں ، ان کی اجازت اور ایما سے کھیل کے
میدانوں کو بھی سیاست اور تعصب کی نذر کر دینے کی ایک مکرہ چال ہے ،
پاکستان نے آئی سی سی کے صدر کو پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں مہمان خصوصی
کے طور پر دعوت دی تھی جس کو آئی سی سی کے صدر جن کا تعلق بھارت سے ھے ، نے
ٹھکرا دیا بات یہاں تک ہی نہیں رکتی بھارتی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور متعصب
طبقے نے پورا زور لگا یا کہ غیر ملکی کھلاڑی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں
پاکستان سپر لیگ میں شریک نہ ہوں مگر ان کو ششوں کے باوجود 30سے زائد غیر
ملکی کھلاڑی کراچی میں اترے تو بھارتی لابی کی تلملاہٹ دیکھنے کے قابل تھی
پاکستانی اداروں اور سیکیورٹی اداروں کو ان حربوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے
!کرکٹ سے کھیل ختم ہو کر کمرشل ازم نے جگہ بنا ننےکی کوشش کی جس کو شائقین
نے بڑی مشکل سے برداشت کر لیا تھا مگر کیا کمرشل ازم سپورٹس، مین شپ اور
فینٹ ازم کی جنگ میں کسی چوتھے فریق کی جیت ہو سکتی ہے اور کیا وہ انسانیت
کا کوئی نیا جنم ہو گا یا وہ فطری فارمولا جس میں ایک قوم،اور تہذیب مٹ
جاتی ہے اور کسی نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ،نیا معاشرہ تخلیق پاتا ہے پھر
پروان چڑھتا اور محبت و روداری کو فروغ دیتا ہے ،؟ بھارت اس منظر کی آبیاری
کر رہا ہے تو نسل انسانی کی یہ تباہی اسے فطری انتقام کا باعث بنائے گی
انسانوں کا کام معاشرے کو باہمی رواداری اور اخلاق کے اصولوں پر کار بند
کرنا ہے ، یہ نفرتیں کر کٹ کے میدانوں تک پہنچیں گی تو نئی نسل کو کیا
پیغام ملے گا؟ ان جنگی حالات میں بھی پاکستانی قوم سلیوٹ کی حقدار ہے جس
میں اس قدر نفرت کی آگ نہیں ہے جو حکومت اور فوج کے پر امن بیانیئے کو نہ
صرف مان لیتی ہے بلکہ اس کی قدر کرتی ہے بھارتی معاشرے میں بائیں بازو کے
افکار کی کثرت ، جمہوریت کے تسلسل اور سیکولر ازم کے دعوے کے باوجود اتنا
تعصب کس کی پیداور ہے کیا سر سید احمد خان جیسا لبرل شخص بھی جب یہ سوچتا
ہے کہ ہندو ، مسلم اتحاد ممکن نہیں ہے تو کیاآ ج کی جدید دنیا وہیں کھڑی ھے؟
دوسری طرف یہ تعصب اور نفرت ٹی 20کر کٹ ورلڈ کپ میں بھی قدم رکھ چکی ہے ،
جاوید میانداد کے چھکے کا بدلہ لینے کیلئے چتن شرما نے یہاں تک کہہ دیا کہ
اگر ورلڈ کرکٹ کپ کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تو بھارت کو
نہیں کھیلنا چاہیے بھارتی نفرت اور تعصب کھیل کے خوشگوار میدانوں میں کس
معاشرے کی علامت ہے ؟ آئی سی سی اور بین القوامی دنیا کے لئے ایک چیلنج ہے
مودی اپنے الیکشن اور پسپائی کے بعد اعصابی ، نفسیاتی طاقت کھو بیٹھے
ہیں،تو آ ئی سی سی اپنے رویے پر نظر ثانی کرے ورنہ اپنی حیثیت کھو بیٹھے
گی۔دوسری طرف بھارت نے کرتار پور راہداری پر ہونے والےمذاکرات کو بھی واہگہ
بارڈر منتقل کر دیا ان کا دیس مسلمان کے سائے سے بھی ’’ بھرشٹ‘‘ ہونے لگا
ہے دنیا سیکولر بھارت ،عظیم جمہوریت، قابل اعتماد بھارت کی توجیحات میں
کہیں انسانوں کے لئے سانس لینا بھی بند نہ کرا دے ایک عرصے سے پاکستان کرکٹ
بورڈ بھارت سے سیریز کھیلنے کا خواہشمند اور قواعدو ضوابط پر کوششیں کر رہا
تھا جس کی ناکامی پر بھی آئی سی سی نے طے شدہ قوانین کا بھارت پر اطلاق
نہیں کیا یہ جانبداری ، تعصب اور نفرت کھیل کے میدانوں کا رنگ پھیکا کر دے
گا ! تو پھر دو قومی نظریے کو نہ ماننے والے کیا دلیل پیش کریں گے، ایک
عرصہ سے بی جے بی کے اقتدار نے انتہا پسند ہندوں کو کھلی چھٹی دیکر بھارتی
معاشرے کی شکل ہی بدل دی ہے پاک بھارت کر کٹ ڈپلو میسی سے نفرت و تعصب کی
آگ کوکم کیا جا تاتھا ،آج بدلتی ہوئی اس دنیا میں نظریہ قومیت کا تصور تک
ماند پڑ رہا ہے لیکن بھارتی حکومت کس پتھر کے زمانے کو ہوا دے رہی ہے ؟جہاں
انسان ، انسان کے خون کا پیاسہ ہو جائے٬ حقوق کو غصب کر کے نظریہ آزادی کی
سوچ اور نئی نسل کے بڑھتے رجحانات پر قبضہ کیا جائے یہ فکر اور روایت دیر
پا نہیں ہوتی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے بھارت کبھی مستحکم نہیں ہو گا
کیونکہ مذہب کے نام پر اٹھنے والا ہجوم بھارت کو بھی کئی ٹکروں میں تقسیم
کر دے گا بھارتی دانشوروں کو یہ سوچنا چاہیے، کھیل کو کھیل رہنے دیں اور اس
میں نفرت کو ہوا دے کر آپ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے اپنی فوج اور اپنے ملک
سے محبت ضرور کریں مگر جنون ، تعصب اور نفرتوں کی دیواریں مٹا کر آگے
بڑھیں۔ |