پورے پاکستان میں اس وقت خوشی کا سماں ہے۔ خوشی کی وجہ
بھارت کو اس کے حملوں کا دلیرانہ جواب بھی ہے اور پی ایس ایل کے میچز کا
پاکستان میں منعقد ہونا بھی۔ ہر کوئی اپنے مزاج کے مطابق اس خوشی کو منا
رہا ہے۔یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ اس مرتبہ پی ایس ایل کے 8 میچ پاکستان
میں کرائے جا رہے ہیں اور وہ بھی کراچی میں۔ اس موقع پر سندھ حکومت
مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا ایک مثبت چہرہ
پیش کرنے میں کوشاں کوشاں ہیں۔ ابھی تک کراچی میں پی ایس ایل کے پانچ میچز
کھیلے جاچکے ہیں جس میں عوام کا بھرپور جوش و جزبہ سامنے آیا۔ عوام نے نہ
صرف ان میٹرک کا لطف اٹھایا بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت اور سیکورٹی
نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ اس طرح تو ہوگیا کراچی
کوشش۔لیکن دوسری جانب دوسرا شہر ہوگیا ناراض۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں
پنجاب کے دل لاہور کی۔ پی ایس ایل کے آدھے میچز لاہور میں منعقد ہونے تھے
لیکن آخری لمحات میں تمام میچز کو کراچی منتقل کردیا گیا۔تمام میچز کراچی
منتقل کرنے کی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ معاملات تھے۔ گذشتہ
کچھ عرصے میں پاکستان بھارت کے درمیان معاملات کافی سنجیدہ رہے جس کے نتیجہ
میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے کا جواب دیا گیا۔ بھارت نے ہٹ دھرمی کی کوئی
کسر نہ چھوڑی، پاکستان نے بار بار اسے مذاکرات کی دعوت دی جس پر بھارت کا
ردعمل افسوسناک تھا۔ ایئر فورس ہو یا نیوی، لائن اف کنٹرول ہویا مقبوضہ
کشمیر، بھارت نے ہر طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ
ناکام رہا۔ اسے شاید معلوم نہیں تھا پاکستان کے فوجی جوان حرف سرحد پر اس
کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ انہیں فوجی جوانوں کی بدولت آج پاکستان
میں خوشیاں واپس لوٹ کر آئے ہیں۔ انہیں جوانوں کی بدولت آج ہمارے میدان
دوبارہ آباد ہوئے ہیں۔پی ایس ایل کے تمام میچز جب کراچی منتقل کر دیے گئے
تو لاہوریوں کی جانب سے خط ردعمل سامنے آیا۔ ان میں ایک غصہ اور ناراضگی
تھی کیونکہ انہوں نے یہ میچز اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ دیکھنے کا پلان
بنا لیا تھا۔ ان کا غصہ بھی جائز تھا اور ان کی ناراضگی بھی۔ کیونکہ
پاکستان کرکٹ کا گھر لاہور کوہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا
مرکزی دفتر لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں موجود ہے۔ یہ کافی افسوس ناک بات تھی
کہ پاکستان کرکٹ کا گھر اس مرتبہ پاکستان کی سب سے بڑی لیگ پاکستان سوپرلیگ
کی میزبانی نہ کرسکا، لیکن اس میں پاکستان ہی کی بھلائی تھی۔ان تمام وجوہات
کے علاوہ پاکستانی جس بات پر خوش ہیں وہ ہے پی ایس ایل کا کامیابی اور
پرامن طریقے سے ہو جانا۔اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کھلاڑیوں کا بھی
پاکستان آنا اور یہاں کی عوام کے سامنے کھیلنا ایک خوش آئند بات ہے۔ تو کہ
پوری دنیا میں پاکستانیوں کا تاثر ایک ایسی قوم کا ہے جو کہ کرکٹ سے بے
پناہ محبت کرتی ہے۔اس معاملے میں نہ صرف کرکٹ بورڈ بلکہ تمام فرنچائز کے
مالکان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پی ایس ایل کو پاکستان لانے
میں اپنا اہم کردار ادا کیا اور اس کو ایک کامیاب لیگ بنایا۔مرتبہ پچھلے
سال سے زیادہ بین الاقوامی کھلاڑیوں میں پاکستان کا دورہ کیا جس پر انہیں
بھرپور عزت سے نوازا گیا۔ وہ ڈیرن سمی ہو یا ڈی جے براوو، وہ شین واٹسن ہو
یا کوئی اور بین الاقوامی کھلاڑی، سب کو پاکستانی عوام نے بھرپور عزت سے
نوازا اور ان کو ایک امن کا پیغام دیا۔بلاشبہ پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان
میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے جو اقدامات کر رہا ہے اس کا کوئی جواب
نہیں اور اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے قومی کرکٹ بہت جلد پاکستان میں واپس
آجائے گی اور آنی بھی چاہیے۔پاکستانی تو ہوں گے خوش لیکن اب دیکھنا ہے کہ
کونسی ایک ٹیم ہوگی جی ہاں دیکھنا اب یہ ہے کہ کون سی ٹیم پی ایس ایل کے
چوتھے ایڈیشن کی ٹرافی اپنے نام کرے گی اور ایک سال کے لیے اس پر اپنی مہر
لگا دے گی۔ وہ دیکھنے کے لیے تو پھر ہمیں بھی ایسی دیکھنا ہوگا جس کا فائنل
میچ 17 مارچ کو کراچی نیشنل سٹیڈیم میں ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کون بازی
لے کر جاتا ہے. اترتے ہیں کہ پی ایس ایل کے بقیہ میچز بھی اسی طرح کامیابی
کے ساتھ منعقد ہو جائیں گے اور بہت جلد بین الاقوامی ٹیمیں پاکستان کی دورہ
کرنا شروع کردی گئی. اسی دعا کے ساتھ میں اپنی بات مکمل کرتا ہوں اور دعا
کرتا ہوں کہ بہت جلد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ہو. پاکستان
زندہ باد.بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل
|