عالمی یوم خواتین، کشمیر لہو لہو

ہر سال خواتین کے حقوق کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے،خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں ان کے حقوق،ان کی مشکلات، مسائل کے حل کے لیے منایا جاتا ہے۔ کالم اور فیچر لکھے جاتے ہیں،سیمینار ہوتے ہیں،جلسے جلوس ہوتے ہیں،ٹی وی پر ٹاک شو ہوتے ہیں۔عورتوں کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے اس دن عورتوں کی آزادی کے تحفظ کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں۔ یہ الزام تعصب، لاعلمی یا کم فہمی کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔ اسلام سے قبل عورتوں کا بہت برا حال تھا۔ اُنکی کوئی عزت تھی و نہ وقعت ۔ زمانہ جاہلیت کی تاریخ عورتوں پر مظالم سے بھری ہوئی ہے۔لیکن اسلام نے باضابطہ طور پر عورتوں کو عملی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کیا۔ عورتوں کے لیے مہر مقرر کیا گیا، عورتوں کے لیے قرآن کی آیات نازل فرما کے اُنکے ماں، باپ، بہن، بھائی، شوہر اور اولاد کی وراثوں میں حصے مقرر کیے گئے۔ غرضے کہ کسی بھی لحاظ سے عورتوں کو اسلام میں مردوں سے کم نہیں رکھا گیا ۔اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کیا ہے۔اسلام کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کے سکون کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔نکاح کر کے میاں،بیوی ایک دوسرے سے آسودگی حاصل کر سکتے ہیں البتہ بے مہار آزادی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت دی ہے،وہ ہر شعبہ زندگی میں کام کر سکتی ہے۔اسلام سب کے ساتھ انصاف کا قائل ہے نہ کہ برابری کا اوراسی میں سب کے لیے عافیت بھی ہے۔ بھلا کون عقل مند اس پر راضی ہو سکتا ہے کہ ماں اور بیوی کو یا بیوی اور بہن کو یکساں حقوق دیے جائیں؟ ہاں سب کو ان کے حقوق دیے جانے چاہئیں۔ اسلام کی نظر میں مرد، مرد ہے اور عورت، عورت۔ دونوں کے کچھ خصوصی امتیازات، مناصب اور ذمہ داریاں ہیں۔ہروہ شعبہ جوخیر کا ہو اس میں مناسب پردے میں رہ کر عورت کام کر سکتی ہے۔اسلام میں عورتیں جنگوں میں شرکت کرکے نرسنگ اورپانی پلانے کا کام کرتی رہیں ۔اس طرح اسلام نے کھل کر عورت کے حقوق کا پرچار کیا ہے۔ اگر ان پر مسلمان عمل نہ کریں تو اسلام کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ ہماری ان ہی کوہتاہیوں کی وجہ سے اسلام تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ دور حاضر میں بے شک عورت کو آزادی تو ملی ہے۔خواتین کو کہیں آزادی کے نام پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے اس کی حرمت و عزت کو پامال کیا جا رہا ہے توکہیں یہی عورت ماڈرن ازم کے نعرے کی وجہ سے مردوں کی حوس پوری کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ مگر اسے سکون نہیں ملا۔ اس کا جسم مردوں کے لیے تسکین حاصل کرنے کا ایک کھلونا بن کے رہ گیاہے۔ بغیر شادی کے بچے پیدا کرتی ہے۔ بچے کو چائلڈ کیئر سینٹروں کے حوالے کر کے خود زندگی کے دیگر مشاغل سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چائلڈ کیئر سینٹروں کی تربیت یافتہ اولاد بڑے ہو کر ماں باپ کو انہی کے گھروں سے بے دخل کرکے اولڈ ہومز میں منتقل کردیتی ہیں۔اگر ایک مشرقی عورت شوہر،ساس،سسر اور بچوں کے لیے کھانا پکائے،صفائی کرے تو اسے قید سمجھا جاتا ہے اوریہی عورت مساج سنٹر، ہوٹل،ماڈل گرل،سیلز گرل کے طور پر اس سے بھی گھٹیا کام غیر مردوں کے لیے کرے تو اسے’’ آزادی‘‘ کہا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جہاں قبائلی جاگیردارانہ نظام ہے وہاں کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین پر دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی جا چکی ہے لیکن ابھی تک اس کا مکمل نفاذ ممکن نہیں بنایا جا سکا مثلاََ خواتین کی قرآن سےشادی، ونی،کارو کاری قرار دینا۔نتیجہ یہ کہ آج پھر عورتوں کو وہی مقام حاصل ہے جو زمانہ جاہلیت میں تھا، آج پھر وہی وقت ہے جب عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جاتا تھا حتیٰ کہ معصوم پھولوں کو بھی حوس کا نشانہ بننے سے بچانے کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ خواتین کے عالمی دن کا بنیادی مقصد خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا اور ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا ہے لیکن افسوس کہ اس دن دنیا بھارتی فوج کے رحم و کرم پر کشمیری خواتین کوبھول جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے کشمیر ی خواتین پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے اوروہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ایک لاکھ سے زائدشہریوں کو شہید کیا جن میں ہزاروں خواتین شامل ہیں۔ جنوری 1989ء سے اب تک جاری ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 22,990, خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 10,828خواتین کی بے حرمتیاں کیں۔ کشمیری مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کی گھر واپسی کی منتظر ہیں جبکہ ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ شوہروں کی جدائی میں کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقبوضہ کشمیر خاص طور پرخواتین جس المناک صورت حالسے دوچار ہیں وہ تمام انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں خواتین کی بے حرمتیوں کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہی ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں کشمیری خواتین مسلسل خوف و ذہنی تناؤ کی حالت میں رہ رہی ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اب کشمیری بچوں کو اندھا بھی کیا جا رہا ہے، گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں پر پیلٹ گن کے فائر کئے جا رہے ہیں۔ کشمیری خواتین سات دہائیوں سے ظلم و ستم برداشت کر رہی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر ان پر نہیں پڑتی۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح سے خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے اس کی مثال ماضی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی۔صرف 1981 میں کپواڑہ کے علاقے کنن پورہ میں 100 سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھارتی فوج اور ''را'' کشمیری خواتین کی بے حرمتی اور نوجوانوں کے قتل عام کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت کشمیریوں کا قاتل اور جنگی جرائم کا مجرم ہے۔ بھارتی فوج تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئے کشمیری خواتین کو براہ راست جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں بسنے والی عورت اس وقت شاید دنیا کی سب سے زیادہ بے بسی والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک رپورٹ ’’کشمیر انڈر سیج‘‘ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز مقبوضہ وادی میں تلاشی کے بہانے گھروں میں داخل ہو جاتی ہیں اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مسلم خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 220439 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More