گزشتہ ہفتے پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقع منعقد
کیے گئے عورت مارچ میں جن پلے کارڈز اور نعروں کا استعمال کیا گیا، سوشل
میڈیا پر ان کے بارے میں گرما گرم بحث جاری ہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف
کے ایم این اے اور ٹی وی اینکر عامر لیاقت نے اس بحث میں اپنا حصہ ڈالتے
ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کردی، جس نے بحث کا رخ ہی موڑ دیا۔
|
|
عامر لیاقت نے اپنی ویڈیو پوسٹ میں عورت مارچ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے اسے ’پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا غیر ملکی ایجینڈا‘ قرار دیا ہے
اور وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات کروائیں کہ اس مارچ
کے پیچھے جن این جی اوز کا ہاتھ ہے انھیں فنڈنگ کون فراہم کر رہا ہے اور
پاکستان میں انھیں بند کیا جائے۔
|
|
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا
تھا کہ وہ ملک میں خواتین کیلئے محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے عہد
کی تجدید کرتے ہیں۔
|
|
اس دن کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق وزیر شیرین مزاری نے بھی
اپنی ٹویٹ میں کہا کہ خواتین کو بااختیار بننے کے لیے انہیں جس سب سے گزرنا
پڑتا ہے، یہ دن ان کوششوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم
حکومتی سطح پر تو اس میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ معاشرے کی ذہنیت ہے جسے
ہمیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن اگلے روز پارٹی کے ایم این اے عامر لیاقت کی طرف سے عورت مارچ کو غیر
ملکی ایجینڈا قرار دینے کے بعد انھیں کافی تنقید کا سامنا ہے۔
عامر لیاقت کی عورت مارچ پر تنقیدی ویڈیو نے اس ساری بحث کا رخ موڑ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود صارفین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیسے حکومتی پارٹی
کے ایک ایم این اے خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے کیے گئے مارچ کو غیر
ملکی ایجنڈا کہہ سکتے ہیں۔
|
|
اسی حوالے سے ایک سوشل میڈیا صارف فراز کا کہنا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم نے
حال ہی میں پاکستان کو جنسی برابری کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرا بدترین
ملک قرار دیا اور ایک ایم این اے حکومت کو عورت مارچ کے خلاف تفتیش کرنے کا
کہہ رہے ہیں۔
|
|
ظلِ الٰہی پی ٹی آئی کی خواتین کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ ’آئیں اپنے
ایم این اے کو لے جائیں۔‘
عامر لیاقت کی ویڈیو پر ایک اور سوشل میڈیا صارف نوال کا کہنا تھا کہ اسی
طرح کے مردوں کی وجہ سے ہمیں عورت مارچ کرنا چاہیں۔
پاکستان میں خواتین کے سائبر حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پروجیکٹ مینیجر شمائلہ خان نے سماجی رابطے کی ویب
سائٹ ٹوئٹر پر عامر لیاقت کی اس ویڈیو میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ایک
تھریڈ کے ذریعے دیا ہے۔
|
|
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمائلہ کا کہنا تھا کہ ’ہم بہت دنوں سے
مختلف لوگوں کی اس مارچ کے خلاف ویڈیوز دیکھ رہے تھے لیکن چونکہ عامر لیاقت
ایک مشہور شخصیت ہیں جن کے شائقین کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان کے پاس ایک
پلیٹ فارم ہے، وہ ٹی وی پر بھی آتے ہیں اور اب وہ ہماری لیڈنگ پارٹی کا حصہ
بھی ہیں اور ایک قانون ساز کی حیثیت رکھتے ہیں، تو مجھے انہیں جواب دینا
زیادہ مؤثر لگا۔ اس طرح کے ایک بندے کو جواب دے کر آپ بہت سارے لوگوں کی
غلط فہمیاں دور کر سکتے ہیں۔‘
شمائلہ کا ماننا ہے کہ اس طرح کے لوگ جو پاور میں ہیں وہ ہماری سوسائٹی کے
رویوں کی نہ صرف عکاسی کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ ایسے
لوگوں کا ذمہ داری سے بیانات دینا اور عورتوں سے یک جہتی کا اظہار کرنا
ضروری ہوتا ہے۔
’حکمران جماعت کے کسی رکن کی طرف سے عورتوں کے خلاف اس طرح کے جنسی تعصب
والے رویے اور بیانات بہت خطرناک ہیں کیوں کہ ایسے ہی یہ خیالات مین سٹریم
میں آنا شروع ہوتے ہیں۔‘
|
|
شمائلہ اس مارچ کو پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا مارچ نہیں مانتیں، ان کا
خیال ہے کہ اس مارچ سے تو دنیا کو ایک اچھا پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں
عورتیں آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہیں ’ٹھیک ہے حکومت میں موجود
لوگ شاید اس مارچ کے کچھ اصولوں کے ساتھ متفق نہ ہوں لیکن انہیں سوسائٹی کو
بہتر کرنے والی ایسی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے اور عورتوں کو اتنی آزادی
دینی چاہیے کہ کسی منفی ردِعمل یا تشدد کے خوف کے بغیر وہ پرامن طریقے سے
اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں۔‘
’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے ایک
حقیقی کہانی ہے‘
عورت مارچ میں استعمال کیے گئے پوسٹرز پر لکھے جن نعروں کو عامر لیاقت نے
تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس بارے میں شمائلہ کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے ان پلے
کارڈز پر درج نعرے مزاحیہ طریقے سے توجہ طلب انداز میں لکھے ہوسکتے ہیں
کیوں کہ وہ نئی نسل کے لوگوں نے بنائے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ہر پلے
کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے حقیقی کہانیاں اور جائز مطالبات ہیں۔ مذاق میں
کہا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سچ نہیں۔‘
|
|
ان کا مذید کہنا تھا کہ اس طرح کے مارچ اور ان کوششوں کو کمزور یا کھوکھلا
کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوںکہ یہ نوجوان لوگ ہیں اور یہی ہماری
سوسائٹی کو آگے لے کر جائیں گے۔ ’اگر ان کی آوازوں کو مذاق بنا دیں یا ان
کو ان پلے کارڈز پر ہراساں اور بدنام کیا جائے تو یہی عورتیں آگے نہیں بڑھ
سکیں گی اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکیں گی۔‘
’عامر لیاقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا
سکتا‘
اسی بارے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف
پاکستان کی سابقہ چیئرپرسن زُہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کو سنجیدگی
سے نہیں لیا جا سکتا۔ ’پہلے بھی ان کے پروگرام اور بیانات ایسے رہے ہیں جن
میں انہوں نے سوسائٹی کے کچھ کمزور طبقوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے، کئی
سال پہلے انھوں نے احمدی کمیونٹی کے بارے میں بھی ایسی باتیں کیں تھیں۔‘
|
|
’بجائے یہ کہ وہ سوسائٹی کی بہتری کی کوئی بات کریں، ان کی پرسینیلٹی ایسی
بن گئی ہے کہ وہ لوگوں کو بھڑکاتے رہیں۔ لیکن ایک ایسا طبقہ ہے جو یہ
سمجھتا ہے کہ ان کے خیالات کو نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی
پرسنیلٹی کو پروجیکٹ کرنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔‘
زہرہ کا خیال ہے کہ مشہور شخصیات کے ایسے منفی بیانات کا سوسائٹی پر بہت
برا اثر پڑتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس سب کے باوجود عورت مارچ
میں شرکا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور عورتیں اب کھل کر اپنے خیالات کا
اظہار کررہی ہیں اور اس طرح کے بیانات اب عورتوں کو روک نہیں سکتے۔
عورت مارچ کے لیے بنائے گئے پلے کارڈز اور ان پر درج نعروں کو سوشل میڈیا
پر جس تنقید کا سامنا ہے، اس بارے میں زہرہ کا ماننا ہے کہ اس مارچ میں
استعمال کیے گئے پلے کارڈز میں تمام اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔
’اصل مسائل کو پیچھے چھوڑ کر زبان پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں۔ چاہے جو بھی
زبان استعمال کی جارہی ہے ان میں وہ اپنے مسائل اور مطالبات کا اظہار کر
رہی ہیں جو بالکہ صحیح ہے کیونکہ عورتوں کو اپنے جسم پر حق حاصل ہے۔‘
|
|
زہرہ کا مزید کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی پارٹی کو اس ویڈیو کا نوٹس لینا
چاہیے کہ ان کے ایک ممبر کیسے عورتوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو
نہ صرف پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ عورتوں کو نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
یاد رہے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر
پاکستان میں خواتین کے مختلف گروپس نے عورتوں کے حقوق کے حصول اور آگاہی
پھیلانے کے سلسلے میں مختلف شہروں میں عورت مارچ کا اہتمام کیا، جس میں
مختلف طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے پرجوش انداز میں شرکت
کی۔
مارچ کے شرکا نے معاشرے میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ حکومت
اور سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل
کیا جائے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
|