کل سکول میں چھٹی کیوں ہے ؟ اسلام آباد ماڈل کالج کلاس
چہارم کی ایک بچی نے سوال کیا،جواب میں اُستانی بولی،بیٹاکل سعودی شہزادہ
آرہاہے ،جوہمیں بہت سارے پیسے دے گا ۔جس سے یہ حکومت اورملک بھی چلے گا ۔آپ
اس جواب سے ہماری اجتماعی سوچ اورایک استادکے خیالات،بچوں کی تعلیم وتربیت
کاخوب اندازہ کرسکتے ہیں۔استادیقیناًعظیم ہوتے ہیں یہی عظمت انہیں چند
حدودکابھی تقاضاکرتی ہے۔استادکی ذہنی حالت،حکومت کی عدم دلچسپی اورہمارے
معاشرتی المیے کے بہت سارے عوامل اس سوچ کے پیچھے کارفرماہیں۔یااستانی
حکومت سے بغض وعنادرکھتی ہے یااس کی ذہنی ونفسیاتی تربیت ہی اتنی ہے یاوہ
کسی ذاتی وگھریلوپس منظرکی وجہ سے ذہنی توازن برقرارنہیں رکھ سکی کہ وہ
طالبات کوایساجواب دے رہی ہے ۔گزشتہ دس سال میں ہماری تعلیمی نظام ،نصاب
اورتربیت کے مراحل کوکئی چیلنجوں کاسامنا ہے ۔اسلام آبادجوہمارا دارالحکومت
ہے وہاں بھی سرکاری اداروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔گزشتہ حکومت نے
صرف بسوں کی تقسیم کے علاوہ کوئی عملی کام نہیں کیا۔جبکہ پیپلزپارٹی کے
دورحکومت میں ملازمتیں بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔اسلام آبادمیں رہی سہی
تعلیمی حالت اورسرکاری ادارے اپنی حیثیت کھوبیٹھے ہیں ۔دوسری طرف پرائیویٹ
سکول مافیاکی من مانیاں،فیسوں کی وصولی اورسپریم کورٹ کے فیصلوں کوہوا میں
اڑانا بھی ایک المیے سے کم نہیں ۔صرف درمیانے درجے کے پرائیویٹ
سکولز،کالجزہی سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمدکرتے نظرآئیں گے۔آج اسلام
آبادکے شہری بچوں کی تعلیم اورداخلے کی وجہ سے شدیدپریشان ہیں ۔جبکہ فیسوں
میں اضافہ اورداخلے کے بعدکے مسائل بھی وبال جان بن چکے ہیں۔اسلام آباد
ماڈل کالجزجوآج سے 15سال پہلے ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔آج علم اورعالم
دونوں سے محروم ہیں۔گزشتہ پندرہ سال سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ ان
اداروں کامستقل اثاثہ بننے سے قاصرہیں۔شفقت محمودصاحب کے وزیرتعلیم بننے
اورعمران خان کی تعلیمی ترقی پرمضبوط سوچ کی وجہ سے ان اساتذہ کے دل میں
امیدپیداہوئی تھی جوآہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ایک استادکی نفسیاتی
تربیت،مالیاتی آسانی تعلیمی ترقی کے لیے اہم ہوتی ہے مگرہمارے بیشتراساتذہ
تعلیم اورتربیت کوبھاری معاوضے لینے کے باوجوداہمیت نہیں دیتے ،جس سے
شدیددکھ پہنچتاہے۔ایک استادکے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کلاس روم میں جائے
تووہ ذاتی جذبات،سیاست اورغم وغصہ چھوڑکرجائے۔تب ہی وہ اپنے فرائض منصبی
بہترطریقے سے پوراکرسکتاہے۔میں نے تقریباً 23سال درس وتدریس کاکام کیاجس
میں اکثردوستوں سے کہاکرتاتھاکہ مالی فائدے کوضرورترجیح بنائیں لیکن
مہربانی فرماکردوسری ترجیح بنائیں۔پہلی ترجیح اپنے پیشے اورکام کوبنائیں ،تب
ہی ہم تعلیمی وشعوری پسماندگی سے نکل سکتے ہیں۔مگربدقسمتی سے چند فیصدی
اساتذہ بلکہ تمام اداروں کے ملازمین میں تنخواہ کا حساب
کتاب،الاؤنسزاورروزمرہ سیاست کے علاوہ کسی بات کوترجیح حاصل نہیں ہے ۔اب
تویہ بات ایک نظریہ بنتی جارہی ہے کہ کام کریں گے توپھرہم سے ہی کام
لیاجائے گا۔اس سے بہترہے ادارے کوکام کی عادت ہی نہ ڈالیں۔
عمران خان نے اپنے منشوراورتقاریر میں تعلیم کوبنیادی اہمیت دی تھی جس کی
وجہ سے پوری قوم کے کان کھڑے ہوگئے تھے کہ اب کچھ ہونے والا ہے ۔مگرپوراملک
ایک طرف آپ صرف اسلام آبادمیں تعلیمی نظام،نصاب اورطبقاتی تقسیم کو دیکھ
لیں آپ کے ہوش اڑجائیں گے ۔اگرچہ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن مین تعینات
ہونیوالے ڈائریکٹرجنرل پروفیسرعلی احمدکھرل انتہائی محنتی ،پیشہ وارانہ
صلاحیتوں کے مالک ہیں سکول سے باہرلاکھوں بچوں کے داخلے اورتعلیمی حالت کی
بحالی کے لیے کوشاں ہیں مگریہ کام ایک ایمرجنسی نیٹ ورک،جیسے آپ ’’تعلیمی
ایمرجنسی‘‘کہہ لیں کہ بغیرممکن نہیں ہے ۔خاص کراساتذہ کی نفسیاتی اورپیشہ
وارانہ تربیت اورسال بھر میں مکمل نصاب وہم نصابی سرگرمیوں کومکمل ہوناسب
سے ضروری امر ہے ۔آپ ایک طرف تعلیمی پسماندگی بے شعوری کی پستی اورانحطاط
میں کھڑے ہیں اوراوپرسے تعلیم کی اہمیت کوہی نظراندازکرناکیسے برداشت کریں
گے ؟ ایک اندازے کے مطابق اڑھائی کروڑبچے سکول سے باہر،گلیوں،بازاروں ،مشقت
اورجرائم کاایندھن بن رہے ہیں تودوسری طرف ا س تعلیمی سیشن میں بھی کام
کاآغاز نہیں ہوا۔اگراسلام آبادمیں44ہزاربچے سکول نہیں جارہے توپھرآپ پورے
ملک کاکیانقشہ دیکھیں گے ؟ فیس مافیااورنصاب پرکسی قسم کاہم ورک نہیں
ہورہا۔پرائیویٹ تعلیم انتہائی مہنگائی کی نذرہوگئی توکب چراغ جلاؤگے کہ
اندھیرامٹ جائے؟ ان تمام پہلوؤں کومدنظررکھ کروزیراعظم صاحب،شفقت محمودصاحب
اورماہرین تعلیم،کوئی پالیسی بنانی ہوگی۔
اٹھارویں ترمیم کے فائدے اورنقصانات اپنی جگہ لیکن پورے ملک میں قومی تشخص
پرمبنی تعلیمی نصاب کاکہیں کوئی عمل دخل نہیں رہاجہاں اس ترمیم سے وفاق
کومالیاتی خسارے کاسامناہے وہاں تعلیم کی وزارت صوبوں میں جانے سے زبان
جوریاست کااہم جزوہوتی ہے اورقومی تہذیب وثقافت کابڑاذریعہ،وہ ٹکڑوں
اورگروہوں میں بٹ چکی ہے ۔مدرسہ ومکتب کوعصرجدیدکی ضرورت میں ڈھالنا کہیں
دھند میں گم ہوتاجارہاہے ،امسال اس بڑے قومی المیے کو بہتری میں بدلنے کوشش
نہ کی گئی توپھرتبدیلی کے اثرات اورثمرات سے محروم رہ جائیں گے۔سکول میں کل
چھٹی ہے اس لیے کہ سعودی شہزادہ پیسے دینے آرہاہے ’’جیسی سوچ بڑھتی جائے
گی۔خودداری کاخواب دیکھنے والے مایوس ہوں گے کیامایوسی کسی اورغیرحقیقی
انقلاب کی بنیادہوگی۔
’’تنگ آگئے ہم ’’اخترشماری‘‘سےہم‘‘ |