برداشت دانائی کا پیش خیمہ ہے۔ جب ہم برداشت کے خیمے میں
داخل ہوتے ہیں تو ہمیں توقف اور تفکر کا موقع ملتا ہے۔ تفکر کی خوبی یہ ہے
کہ انسان سب سے پہلے اپنی خامیوں پرمتفکر ہوتاہے۔ جب تک اپنی خامیاں نظر
میں رہیں‘ اِنسان غرور کے پھندے میں نہیں پھنستا۔ اپنی کوتاہیاں پیشِ
نظرہوں تو دوسروں کو معاف کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہمیں دوسروں کے عمل سے
زیادہ اُن کی نیت پر غصہ آتا ہے حالانکہ دوسروں کی نیت اُن کے متعلق ہمارا
ایک گمان ہی تو ہوتا ہے اور ہمارا گمان ہمارے اختیار میں ہے۔گمان اچھا بھی
قائم کیا جاسکتا ہے۔ نیت کے بھید تو دلوں کے بھید جاننے والا ہی بہترجانتا
ہے۔ ایک چھوٹی سی برداشت‘ بڑی دانائی دے کر جاتی ہے۔کسی معاشرے میں قوتِ
برداشت کا ہونا اُس کے تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے اور عدم برداشت جہالت
کی نشانیوں میں سے ہے۔ انسانی تہذیب کی ساری تاریخ بس ایک قوتِ برداشت کی
بتدریج ترویج سے عبارت ہے۔ سڑک پر جائیں تو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دھن
میں بعض اوقات گاڑیوں کا تصادم ہوجاتا ہے بس پھر کیا ہے جیسے پنجرے میں قید
درندے کو آزاد کرکے اس کے سامنے بکری کھڑی جاتی ہے اور وہ بکری کا جو حال
کرتا ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے اسی طرح گاڑی سوار حضرات ایک دوسرے کو
ادھیڑنے کے درپے ہوجاتے ہیں،میرے گھر کے آگے گاڑی کیوں کھڑی کی،یہ کچرا کس
نے پھینکا،مجھے دیکھ کر ہنسے کیوں اور اس طرح کی معمولی باتیں ہمارا پارہ
ہائی کردیتی ہیں اور شروع ہوجاتی ہے لڑائی جو اکثر اوقات رائل رمبل میں
تبدیل ہوجاتی ہے۔ایک فریق اپنے حامی بلالیتا ہے تو دوسرا کیوں پیچھے رہے
آخر اس کے بھی تو چاہنے والے ہیں جبکہ باقی محلے والے مفت میں تماشا دیکھ
کر لطف اندوز ہوتے ہیں عملی اقدام کی ضرورت ہے برداشت کو عادت بنانا ہو ہر
انسان کو اپنی روز مرا کی زندگی میں صبر اور پرداشت سے کام لینا ہو گا ایک
فرد صبر کریں گا دوسرے کو صبر کا درس دے گا معاشرے میں پرداشت پیدا ہوگی سب
کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا ایک دن نفرت اور غصہ نہ ہونے کے برابر
ہوجائیں گا اسکول کالجوں کے نوجوان لڑکی لڑکوں کو بزرگوں سے پیار سے بات
کرنا ہوگی کیونکہ عمر کے ساتھ بزرگوں میں برداشت کا عمل کچھ کم ہو جاتا ہے
سرکاری دفتروں میں گھروں روڈو پر ہر جگہ اپ کو پرداشت کا عملی طریقہ اختیار
کرنا ہو گا اگر ہر انسان اپنے گھر سے شروعات کریں اور برداشت صبر کو اپنی
زندگی کا ایک ضروری عمل سمجھ کر کر یں شاید دنیا میں امن پیار پرداشت پروان
چڑ جائے اور غصہ اور نفرت پرداشت پر عالمی دن بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے-
ہمیں اپنے معاشرے سے عدم برداشت ختم کرنے کےلئے ضرورت ہے ذہن سازی کی،آگاہی
کی،اسلام کا مطالعہ کرنے کی،قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی،یہاں علما کرام
اور اساتذہ کے ساتھ والدین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ |