باعث ذلت معاشرتی برائیاں

اک شاخ پہ الو بیٹھا ہو برباد نشیمن ہوتا ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
آج معاشرہ میں جو برائیاں سرکش عفریت کی طرح سر اٹھائے کھڑی ہیں ان کا شمار کرنا نا ممکن ہے ،ان میں سرفہرست چند اہم برائیوں بلکہ تباہ کاریوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔یہ وہ خرابیاں ہیں جن پر اگر قابو پا لیا جائے تو معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے وگرنہ ضلالت و گمراہی کے مزید شاہراہیں کھلتی چلی جائیں گی اور معاشرہ مزید تباہی و بربادی کی طرف جائے گا جوہمارے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہو گا۔یہ خرابیاں اسلامی معاشرہ کے چہرے پر بدنما دھبہ ہے اور دین و صدرِ دین ﷺ کیلئے باعث رسوائی و شرمندگی ہیں۔

باعث ذلت معاشرتی برائیاں

اک شاخ پہ الو بیٹھا ہو برباد نشیمن ہوتا ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
آج معاشرہ میں جو برائیاں سرکش عفریت کی طرح سر اٹھائے کھڑی ہیں ان کا شمار کرنا نا ممکن ہے ،ان میں سرفہرست چند اہم برائیوں بلکہ تباہ کاریوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔یہ وہ خرابیاں ہیں جن پر اگر قابو پا لیا جائے تو معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے وگرنہ ضلالت و گمراہی کے مزید شاہراہیں کھلتی چلی جائیں گی اور معاشرہ مزید تباہی و بربادی کی طرف جائے گا جوہمارے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہو گا۔یہ خرابیاں اسلامی معاشرہ کے چہرے پر بدنما دھبہ ہے اور دین و صدرِ دین ﷺ کیلئے باعث رسوائی و شرمندگی ہیں۔

اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کتنی ہی خرافات ، برائیاں اور بد اخلاقیاں ہیں جو پوری طرح معاشرہ کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر فضولیات میں وقت ضائع کرنا قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔آج ہماری قوم کے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول ﷺ کے ذکر سے نہیں باطل خرافات اور شیطانوں کی محافل سے سکون ملتا ہے۔ بت بینی، ڈرامہ و فلم سازی، موسیقی کی دھنیں پر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم میں پوری سراعت کر چکی ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی طرف کوئی سوچ، کوئی قدم اٹھتے نظر نہیں آتے نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ ان احوال میں امت پر خدا کا غضب اور قہر نازل نہیں ہونا تو کیا ہونا ہے؟

قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہو، اور سائز میں ذرہ سے بھی چھوٹی ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی بربادی کا سماں بن گیاہے ۔ اب وہ فطرت ، قانونِ قدرت کے رحم و کرم پر ہے چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے۔ بلکہ ہر شعبہ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لیے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر خداوند ی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضب خداوند ی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاح کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر قہر خداوندی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے زلزلوں، قدرتی آفتوں، یزید پلید، تاتاریوں، منگولوں، چنگیزیوں، ہلاکیوں کی صورت میں مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔

بد قسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسواء اور زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ میں جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سی وہ اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ۔ خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس ملک میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ایسے غلیظ اخلاق و اطوار والی قوم کا مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ، ہمارے اسلاف کہتے ہیں کہ ایسے میں اسلام ، اللہ و رسول ﷺ کا نام پاک بھی اپنی ناپاک زبانوں سے لینے کی جسارت نہ کرو اس لیے کہ تم ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہو۔

آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گذرے ہیں۔ ہم سے تو سکھ لوگ بہتر ہیں جو اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں، سکھ لوگ اس وقت دنیا میں جہاں بھی ہیں، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔ہمارے ہاں مجموعی افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی راہنما، دینی سکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے چہروں پر نبی کریم ﷺ کی سنت دیکھائی نہیں دیتی یہ حال ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب و ہنود زدہ ہے اسلام زدہ نہیں۔ ہمارے مجموعی اوصاف کلیساء و دیر والوں سے ملتے جلتے اور مماثل آتے ہیں۔ آپ ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، سکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ، سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر پڑیں گے، کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ سے وابستگی و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دور دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم ﷺ کا غلام ہے ۔
لعو و لعب میں جیتیں تو سر سجدے میں ہیں رکھتے
دیکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے
واضح میں مغرب کی نمو، لباس سے بھی ہیں مغربی جھلکتے
پیرو کہاں سے لگتے آپ کے یہ مغرب و ہنود کے چہکتے
دیا آپ نے درس محبت و الفت و اخوت و وفا کا
سمجھا تیری قوم نے غداری و مکاری و عیاری و دغا کا

ہم میں مجموعی طور پر اپنے آقا کریم ﷺ کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم ﷺ کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ ﷺ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ ﷺ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب ۔۔۔۔یقیناًکوئی نہیں ۔مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ہے؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقیناًہاں میں ملے گا۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان تو بہت دور کی بات ہم تو اچھے انسان بھی نہیں ہیں۔ہماری مسجدوں سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں، مسجدوں کے گندے لوٹے بھی لوگوں کی دست ریزی سے محفوظ نہیں، مسجدوں اور پبلک مقامات کی لیٹرینوں میں کیا کیا بیہودہ اخلاق سے گری باتیں لکھی ہوتی ہیں، گلی میں چلتے موبائل فون جھپٹ کر لے جاتے ہیں، ہمارے ہاں سٹرکوں پر عوام و الناس کی حفاظت کیلئے جو سپیڈ بریکر نصب ہوتے ہیں لوگ ان سے گذرتے ہوئے طرح طرح کی گالیاں بکتے ہیں کہ فلاں فلاں یہ کیا مصیبت کھڑی کر دی ہمارے لیے، ہم تو نہ روکنے والے، نہ تھمنے والے بے لگام و بے مہار جانور تھے ، ہمیں یہاں کیوں روکنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں گلی بازاروں میں واٹر کولر نصب ہوں تو گلاس کو زنجیر سے باندھ کے رکھنا پڑتا ہے، ایک منٹ کیلئے گلاس کو بے زنجیر کر دیں تو کسی کو ڈھونڈے نہیں ملے گا۔بے شعور قوم کو ذرا احساس اور فہم نہیں کہ واٹر کولر کے گلاس رکھنے کا مقصد کیا ہے؟سب اپنی اپنی غرض کے بندے ہیں کسی کو دوسرے کی پریشانی کا احساس نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارے کردار کی جھلک۔ ہمارے معاشرہ میں انسان نما جانور بستے ہیں، جنہیں نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی شعور، نہ کوئی فہم۔
منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئیں مسلماں دیگر است
در دل او آتش سو زندہ نیست
مصطفی ﷺ در سینہ او زندہ نیست

قرآن کریم کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے ، ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے، ہم کچھ اور کے طلبگار ہیں، ہم قرآن بھی رکھنا چاہتے ہیں اور باطل اطوار و روایات بھی، ہم سنت بھی رکھنا چاہتے ہیں اور غلط خرافات و کردار بھی۔ قرآن کے احکام، اصول و ضوابط کچھ اور ہے جبکہ ہمارے رسوم، ہمارے اطوار، ہماری روایات کچھ اور ہیں ۔ ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان کے دل میں جلا دینے والی وہ آگ نہیں ہے جو ہر باطل کو جلا دے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ ان کے سینوں میں زندہ نہیں ہیں، ان کے دلوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت و الفت باقی نہیں ہے۔
 

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 102 Articles with 119019 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More