ہر دور میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں مثال کے طور
پرانیس ویں صدی کی بات کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت رہن سہن ،چال
چلن ،ثقافتی سرگرمیاں اُس وقت کے مطابق تھیں لیکن آج کے دور کی بات کی جائے
تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کا رہن سہن ،چال چلن ،ثقافتی سرگرمیاں ہیں تو
وہی لیکن ان میں کافی حد تک تبدیلی آگئی ہے جو گلاس پُرانے وقتوں میں بالکل
سیدھا اور سادہ ہوا کرتا تھا اسی گلا س کو آج طرح طرح کے سانچوں میں ڈھال
کر اس کی شکل و سائز میں جدت لائی گئی ہے ۔اسی طرح جو کپڑے پہلے وقتوں میں
لوگ استعمال کرتے تھے وہ جسم کے مطابق ایک مخصوص حد تک کھلے ہوا کرتے تھے
یعنی اگر وہ والا سوٹ آج کے دو لوگوں کو پہنایا جائے تو دونوں لوگ ایک ہی
سوٹ میں آجائیں گے ۔لیکن آج اگر آپ اپنے لئے سوٹ سلواتے ہیں تو وہ اس طرح
سے سلائی کروایا جاتا ہے کہ وہی سوٹ کچھ دنوں بعد آپ کو ہی نہیں آتادو سرا
تو کیا پہنے گا۔
اسی طرح پہلے بالوں کی کٹنگ ایسی ہوتی تھی کہ لوگ بڑے بال ، بڑی کلمیں اور
بڑی مونچھیں رکھنا پسند کرتے تھے اور خواتین زیادہ تر لمبے بالوں کی شوقین
تھیں ۔لیکن آج کل چھوٹے بال چھوٹی کلمیں اور مونچھ تو کوئی رکھے تو رکھے
ورنہ رکھی ہی نہیں جاتی اور اگر کسی کی مونچھ آج کے زمانے میں بڑی ہو تو
لوگ اُسے ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ غلط جگہ آگیا ہو۔اسی طرح خواتین
آج اپنے سر پر مختلف ڈیزائنوں کے اور کم سائز کے بال رکھنا پسند کرتی ہیں
اور اگر کسی کے بال بڑے ہوں تو سب اس کو پنڈو تصور کرتے ہیں ۔
اسی طرح پرانے زمانے میں اگر کوئی بیمار ہوجاتا تو اپنے تو اپنے غیر لوگ
بھی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے بندے کی تیمار داری کے لئے چل کر آتے تھے
اور اس بندے کی تیمار داری کے ساتھ ساتھ جلد صحت یابی کی دعا بھی کرتے تھے
اگر کوئی بندہ فوت ہوجاتا تھا تو جہاں جہاں اعلان ہو ا کرتے تھے لوگ فوراً
اس شخص کی نماز جنازہ کیلئے نکل پڑتے تھے اور لواحقین سے اظہار افسوس بھی
کرتے تھے ۔
یعنی پرانے وقتوں کے لوگوں میں ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اب اس
ہمدردی کو ہم آج کل کے لوگوں پر اپلائی کریں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ
ہمدردی نام کی تو ہے پر میرے خیال سے جو جان ہمدردی میں ہونی چاہئے وہ نہیں
ہے ۔اگر ہے تو کسی کام میں نہیں آتی یا پھر جان بوجھ کر استعمال میں نہیں
لائی جاتی ۔اگر آج کے دور میں ہمارا کوئی عزیز بیمار ہوجائے تو زندگی کی
مصروفیات نے ہمیں ہمدردی سے اتنا دور کر دیاہے کہ ہم اُس کا حال پوچھنے
اسکے گھر تک نہیں جاتے ۔
ہوتا کیا ہے کہ موبائل جو کہ ہمدردی کا بہت بڑ اقاتل ہے ہم اس سے ایک کال
کرتے ہیں اور ساری ہمدردیاں موبائل کے ذریعے نبھا دیتے ہیں جیسے کے تمام
مسئلے حل ہوگئے ہوں اور ہم ہمدردی کے دعویدار بن گئے ۔کوئی بندہ فوت ہوجائے
تو اسکااعلان غور سے سُن بھی لیں تو ایک دوسرے کو کہتے پھرتے ہیں کہ یار آپ
جنازہ پر چلے جانا مجھے کام ہے ،مجھے بہت زیادہ ضروری کام ہے ۔۔
کچھ لوگ تو جنازہ پڑھنے اس لئے بھی نہیں جاتے کیونکہ ان کو نماز جنازہ نہیں
آتی۔۔۔؟؟کیونکہ دنیاوی لالچ اور شیطان کے شکنجوں میں ہم اس حد تک پھنس چکے
ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ہی اہمیت دیتے ہیں جسے دیکھو وہ ’’میں‘‘’’میں‘‘کر رہا
ہوتا ہے ۔ہمدردی جو قائد اعظم کے چاہنے والوں میں تھی اس ہمدردی کی وجہ سے
وہ ترقی کر گئے اور اپنے دشمن ہندوؤں سے آزادی حاصل کر گئے ۔ آج کی نئی نسل
کو دیکھیں تو وہ ہاتھوں پر دھاگے باندھنے ،موٹی موٹی گھڑیاں پہننے،کالا
چشمہ لگانے ،طرح طرح کے پرفیوم لگانے کو اہمیت دیتے ہیں یعنی اپنے آپ کو
پالش کرنے کے ہر حربے کو استعمال کرتے ہیں تاکہ اچھے سے اچھے نظر آسکیں ۔
ہر کوئی ظاہر کو چمکانے میں مصروف ہے لیکن وہ ہمدردی انسانیت ،بھائی چارہ
جس کو چمکانے اور پالش کرنے کی ضرورت ہے وہ کام کوئی سرانجام دینے کو تیار
نہیں ۔پہلے لوگوں میں ہمدردی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں تھا لیکن آج کل ایسی
صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ہمدردی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اگر کوئی شخص
ہمدرد ہے اور کسی سے ہمدردی کے جذبات رکھتا بھی ہے تو سامنے والا یہ سوچنے
لگ جاتا ہے ’’اﷲ خیر کرے یہ شخص مجھ پر اتنا مہربان کیو ں ہورہا ہے کوئی گڑ
بڑلگتی ہے ۔‘‘
اگر آپ کے نزدیک کسی کو آپکی ضرورت ہے تو اُسکے حقیقی معنوں میں ہمدردبنیں
اور اسکی مشکل میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل کو اگر خدانخواستہ آپ پر
کوئی مشکل یا پریشانی آن پڑتی ہے تو دوسرے افراد بھی آپ کے ساتھ کندھے سے
کندھا ملا کر کھڑے ہوں ۔اس لئے اپنے اندرموجود ہمدردی کو استعمال بھی کریں
اور اسے فعال بھی کریں تاکہ ہم اس ملک میں رہنے والوں اوراس ملک کے حقیقی
ہمدرد بن سکیں اور اس ملک کو درپیش مسائل کے حل میں صحیح معنوں میں اپنا
کردا ر اد ا کر سکیں۔ |