ڈاکٹر ہارون رشید ایک عظیم مسیحا

زندگی اور موت کا سلسلہ از ل سے ابد تک جاری و ساری رہے گا لیکن پیدا ہونے والے انسان نے اس دنیا میں کتنا رہنا ہے ‘ کیا کرنا ہے اور کس شعبے میں کب تک کارہائے نمایاں انجام دینے ہیں یہ راز انسان سے ہمیشہ مخفی رہتا ہے لیکن خالق کی حیثیت سے رب العزت ان تمام رازوں کو بخوبی جانتا ہے بلکہ ان راستوں کا تعین کردیتا ہے جن پر گامزن ہوکر کوئی بھی کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر چوہدری محمد رشید کا انتقال ہو تو ہر شخص کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اب شاید فاؤنٹین ہاوس جیسا کثیر المقاصد ادارہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ لیکن ڈاکٹر چوہدری محمد رشید کے فرزند ڈاکٹر ہارون رشید نے والد سے بڑھ کر نہ صرف اس ادارے کو نئی توانا ئی بخشی بلکہ ذہنی اور دماغی مریضوں کے لئے ایک درد مند مسیحا کا مرتبہ بھی حاصل کرلیا۔ میرے قابل احترام دوست پروفیسر سعد اﷲ شاہ کے بقول وہ ہر بدھ کے روز احباب ہسپتال میں بیٹھ کر مفت ذہنی اور دماغی مریضوں کا چیک اپ اور علاج کیا کرتے تھے۔ سینکڑوں لوگ بدھ کے روز ان کا بے تابی سے انتظار کیا کرتے ۔ ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ امریکہ سے واپسی پر فلائٹ کلوز ہونے کی وجہ سے ان کی پاکستان واپسی ممکن نہ تھی لیکن پھر ایک معجزہ رونما ہوا اور وہ پاکستان آکر احباب ہسپتال میں مریضوں کو چیک کررہے تھے کہ افغانستان سے آنے والے ایک مریض نے کہا ڈاکٹر صاحب مجھے یقین تھا کہ آپ بدھ کے روز ضرور اس ہسپتال میں ملیں گے ڈاکٹر ہارون نے تعجب آمیز لہجے میں پوچھا کہ اگر میں امریکہ سے نہ آ سکتا تو ۔ افغانی مریض نے پر اعتماد لہجے میں کہا مجھے یقین تھا کہ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں بدھ کے دن ضرور ہسپتال میں آئیں گے اور اگر آپ نہ آتے تو میں سمجھ لیتا کہ آپ اس دنیا میں نہیں رہے ۔یہ اعتماد اور بھروسہ قائم کرنے والا شخص لاکھوں دکھی انسانوں کے دلوں پر راج کرتا تھا ۔

میں سمجھتا ہوں مریضوں کو اپنے عزیزوں کی طرح پیار کرنے والے شخص کو صرف ڈاکٹر کہہ دینا اس کی عظمت کے منافی ہے وہ تو مسیحا تھا اور ایسا عظیم مسیحا جس نے اپنی زندگی ‘ سکھ چین ‘ فنی اور تعلیمی صلاحیتیں حتی کہ اپنا سب کچھ ذہنی اور دماغی مریضوں کے علاج اور حصول شفا کے لئے وقف کررکھا تھا ۔جب سے میڈیکل شعبے میں ڈاکٹروں کے روپ میں بزنس مین شامل ہوئے ہیں علاج معالجہ تو دور کی بات ہے انسانیت بھی چیخ چیخ کر ان سے پناہ مانگتی ہے ایسے معالجین کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ وہ مریض ان کے علاج اور تشخیص سے زندہ بھی رہتا ہے یا قبر میں جا اترتا ہے ان کو صرف اپنی فیس وصول کرنے سے سروکارہوتا ہے ۔ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جس دن ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے پر مذاکرہ ہورہا تھا وہاں ہر شخص ڈاکٹر ہارون رشید کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کاش وہ آج زندہ ہوتے ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پورا نہ ہوسکے وہاں موجود ایک شخص نے کہا کہ اگر ڈاکٹر ہارون بہ عجلت ای سی جی کرانے کے خیال سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی والوں کے ہتھے نہ چڑھتے تو شاید آج خوش و خرم اور زندہ حیات ہوتے ان کو کبھی دل کا عارضہ نہیں ہوا تھا لیکن پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے جن معالجین نے ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ کیا وہ ڈاکٹر ہارون رشید کی زندگی نہ لوٹا سکے ۔ڈاکٹر ہارون رشید تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی رحلت کے بعد بے شمار کہانیاں سننے میں آرہی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اگر صحت مند شخص بھی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی چیک کے لئے جاتا ہے تو اس کے زندہ واپس آنے کے لئے دعا تو کی جاسکتی ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا حریص اور پیسوں کے حریص معالجین ہر انسان میں کچھ نہ کچھ تلاش کرکے یا تو وہیں لیٹا لیتے ہیں یا پھر اسے لاکھوں روپے کا تخمینہ بنا کر ڈاکٹر ہسپتال کا ایڈریس بتا دیتے ہیں انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کے پاس آنے والا غریب ہے یا امیر واقعی ‘ بیمار ہے یا تندرست انہیں تو صرف اور صرف پیسہ کمانے اور بائی پاس آپریشن کرنے سے ہی غرض ہوتی ہے ۔ انسانی جسم کو چیر پھاڑ کرنے کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والے ایسے ڈاکٹر وں کو مسیحا کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جہاں دیگر معاشرتی قدریں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں وہاں انسانیت بھی دم توڑتی جارہی ہے لیکن قحط الرجال کے اس ماحول میں ڈاکٹر ہارون رشید جیسے فرشتہ صفت انسان کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت کو ابھی کائنات عزیز ہے اور اسے برقرار رکھنا اس کی ضرورت ہے ۔پروفیسر سعداﷲ شاہ کے بقول ڈاکٹر ہاورن گزشتہ 25 سال سے بلا ناغہ بدھ کے روز غریب مریضوں کا مفت چیک اپ کرتے تھے تین لاکھ سے زائد مریض مکمل طور پر شفا پاچکے تھے اور اتنی ہی بڑی تعداد میں ان کے زیر علاج تھے سلور جوبلی کے بعد یہ کارخیر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لئے تجویز کیا گیا تھا ۔ ان مصروفیات کے علاوہ ڈاکٹر ہارون رشید گنگارام ہسپتال کے ہیڈ آف سکائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ اور فاؤنٹین ہاوس کے چیف آرگنائزر بھی تھے ان کے نام اور کام سے لاکھوں دل دھڑکتے تھے اور ڈاکٹر ہارون کا دل لاکھوں دکھی انسانوں کو صحت یاب کرنے کے لئے دھڑکتا تھا ۔ پروفیسر سعداﷲ شاہ کے بقول
بتا گیا ہے مسیحائی کس کو کہتے ہیں
وہ اک شخص کہ لوگوں میں خود کو بانٹ گیا

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ڈاکٹر ہارون رشید صبح 9 بجے اپنی علاج گاہ میں بیٹھتے اور کسی وقفے کے بغیر 2 بجے تک مسلسل مریضوں کو دیکھتے انہیں اس بات کا احساس تھا کہ لوگ کس قدر تکلفیں اٹھا کر دور دراز سے شفا کی خاطر ان کے پاس آتے ہیں وہ حقیقت میں کسی بھی انسان کو ناامید اور مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک انجمن ‘ ایک ادارہ اور ایک سکول آف تھاٹ ہی نہیں بلکہ ایسے قابل تقلید انسان اور مسیحا تھے جن کی زندگی اور سوچوں کے تمام تر دھارے انسانی خدمت اور شفا کی جانب بہتے تھے ۔ ہارون کے لفظی معنی سالار کے ہوتے ہیں واقعی وہ اپنے فن اور شعبے کے سپہ سالار تھے انہوں نے جس طرح اپنی زندگی کو خدمت انسانی کے لئے وقف کرتے زندگی کی رنگینوں سے خود کو دور کررکھا تھا اسی کو دیکھتے ہوئے پروفیسر سعد اﷲ شاہ کہتے ہیں
سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہم رکاب ہوا
جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا

یہ شعرچونکہ بطور خاص ان کے روبرو کہا گیا تھا اس لئے انہوں نے اس شعر کو بے حد پسند کیا بلکہ فریم کروا کے اپنے دفتر میں آویزاں بھی کرلیا ۔ وہ سادگی اور عاجزی کانمونہ تھے خدا کو بھی ان کی یہی سادگی اور عاجزی پسند تھی ۔ وہ حقیقت میں سراپا خلوص ‘ دیانت ‘ شرافت ‘ ایثار اور پیکر محبت تھے یہ صالحیت انہیں اپنے عظیم والد چوہدری محمد رشید سے ورثے میں ملی تھی جو فاؤنٹین ہاوس کے بانی تھے اور عمر بھر ذہنی اور دماغی مریضوں کے علاج اور شفا کے مشن پر گامزن رہے ۔ ڈاکٹر ہارون بھی اپنے والد کی طرح ہر لمحہ انسانی خدمت اور عبادت میں مصروف رہتے بیماری کا حملہ بھی اس وقت ہوا جب وہ مریضوں کو دیکھ رہے تھے ۔ کمال مسکراہٹ ‘ آنکھوں میں چمک اور چہرے پر گلابی رنگت ایسے جھلکتا کہ وہ ابھی اسی وقت محبت میں ڈھل جائیں گے یا پھول کی طرح بکھر جائیں گے ۔ ان کی ناگہانی موت پر سعداﷲ شاہ کا ہی ایک شعر ہے
وہ ایک شخص جو دل کے قریب رہتا تھا
کسے خبر تھی کہ دل ہی سی ہار جائے گا
وہ ایک پھول کی صورت جہاں میں آیا تھا چلا گیا ہے وہ پل میں بکھیر کر
***********

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.