مارکیٹ کے ساتھ والے شادی ہال کے گیٹ پر رش لگا ہوا تھا۔
سڑک سے گزرنے والے کافی دیر سے پھنسے ہوئے تھے۔ میں بھی وہیں تھا۔
موٹرسائیکل کا پیٹرول بھی ختم ہونے کو تھا۔ جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں
تھا۔ اس پریشانی میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جائے۔ دل ہی دل میں سڑک
کنارے شادی ہال بنانے والوں کو برا بھلا میرے علاوہ بھی کئی لوگ کہہ رہے
تھے۔ اتنے میں آواز سنائی دی ’’دیکھ یار کیا پیس جارہے ہیں؟‘‘ پیس! میں نے
فورا دیکھا ۔ ’’لیگ پیس‘‘ ہوگا مطلب کھانے کا کوئی ایٹم ۔ مگر وہاں کچھ
نہیں تھا۔ میں نے لڑکوں کی نظر کا تعقب کیا۔ نوجوان لڑکیوں کا جھرمٹ شادی
ہال کی جانب بڑھ رہا تھا۔
اوہ! مطلب ان لڑکیوں کو پیس کہا جارہا تھا۔ بات توان کی بھی درست تھی۔
خوبصورتی کمال تھی۔ اب قدرتی تھی یا مصنوعی مگر تھی ضرور۔ خیر سے شادی ہال
کا گیٹ بند ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں سے رش بھی ختم ہونے لگا اور ہمارے
جیسوں کوبھی راستہ مل گیا۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ یہ رش بھی مصنوعی خوبصورتی
کی طرح مصنوعی تھا۔ مطلب زمینی حسیناؤں نے ہی ان بے چلوں کو وہاں بریک
لگانے اور رش پیدا کرنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔
بھنورے ہوا ہوچکے تھے، رش ختم ہوچکا، میں بھی آگے بڑھ گیا مگر دماغ ’’پیس‘‘
والے لفظ اور ان خوب صورت لڑکیوں میں اٹکا رہ گیا۔ یہ سب کچھ نیا نہیں بلکہ
عام سی بات تھی۔ پبلک مقامات جیسے کے ساحل، پارکس، قدرتی یا مصنوعی تفریح
گاہیں اور اب تو بازار جہاں بھی کلیاں نظر آئیں وہاں بھنورے منڈلاتے دکھائی
دیتے ہیں اور ان بھنوروں سے رش میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
اس میں قصور کس کا تھا، تاڑو لڑکوں کایا میک اپ زدہ چہروں کا۔ لڑکے اور مرد
ہی قصور وار ہیں، آخر کو تربیت بھی کسی چیز کا نام ہوتی ہے۔ اگر ان کو گھر
سے تربیت ملی ہوتی تو وہ کبھی ایسے ان معصوم بھولی بھالی آنٹی نما لڑکیوں
کو کیوں دیکھتے۔ ان لڑکوں کو شرم آنی چاہیے کسی کی بہن بیٹی کو یوں سر عام
تاڑتے ہوئے۔ مان لو وہ فل میک اپ کر کے خود کو بنا سنوار کے مہنگی ترین
خوشبو لگا کے اور دوپٹا گلے میں لٹکا کے گھر سے نکل ہی آئی ہیں تو اس کا
ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب انہیں یوں تنگ کیا جائے یا گھورا جائے۔
خوب صورتی اور خوشبو جتنی بھی چھپائی جائے کہاں چھپتی ہے۔ اب وہ معصوم
آنٹیاں اپنی خوب صورتی کیسے چھپائیں۔ ان کو مجبورا اپنا آپ دکھانا ہی پڑ
جاتا ہے۔ پھر کیا ساری تربیت ان کے کھاتے میں ہے۔ مردوں کا بھی حق بنتا ہے
کہ وہ اپنی نظریں نیچے رکھیں۔ جہاں چار لڑکیاں دیکھیں رش لگ گیا۔ کم کپڑے
پہن کر اگر کوئی آبھی گئی ہے تو ہوسکتا ہے ان کے پاس کپڑے نہ ہوں، سلائی کے
وقت چھوٹے پڑ گئے۔ ایک طرف غربت اور مہنگائی نے کپڑے تک کے پیسے نہیں بچائے
اوپر سے ان پرمردوں کی گندی گندی نظریں کبھی سوچا وہ بیچاریاں منوں مٹی میں
دھنس جاتی ہوں گی۔ ویسے بھی ایسی آنٹیاں بیچاری بہت ہی غیرت مند ہوتی ہیں۔
سب کو لگتا ہے یہ فیشن ہے حقیقت میں ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ کئی بار تو
دیکھا گیا کہ ان کے گھٹنے کے پاس پینٹ پھٹی ہوئی ہوتی ہے مگر وہ پھر بھی
پہن لیتی ہیں۔ کئی بار بازو پھٹے ہوتے ہیں مگر وہ کیسے پہنتی ہیں یہ کون
سمجھے۔ ایسے مردوں کی اس لولی لنگڑی سوچ پر دو حرف بھیج کر آگے نکلتے ہیں۔
چائے کے ہوٹل پر بیٹھتے ہی میرے ایک دوست نے کہا پردے پر اتنا بحث کی ضرورت
نہیں ہے۔ جو کرتی ہیں وہ کریں کس نے روکا اور جو نہیں کرتے وہ ان کی مرضی
ہے اور عورت مارچ والی آنٹیاں؟ میں نے اس کی طرف گھورتے ہوئے کہا تو وہ ایک
دم سے گھبرا گیا، وہ بھی ان کا ذاتی فعل ہے۔ ہمیں اس میں کچھ کہنے یا کرنے
کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سب عورتیں آزاد ہیں۔ وہ جو چاہیں، جہاں چاہیں، جیسا
چاہیں کریں۔ کوئی ان سے کیوں پوچھے، کوئی ان کے معاملات میں کیوں مداخلت
کرے۔ میرے دوست کے دلائل جاری تھے۔ اتنے میں وہ ایک لمحے کو رکا اور پھر
مجھ سے راز دارنہ انداز میں مخاطب ہوکر بولا۔ مولوی صاحب نہ بنو کیوں ہماری
تفریح بند کروانے پر تلے ہو۔
اس کے جملے پر میں چونکا، مطلب تفریح؟ ارے ہاں نا۔۔ یہ سب ہماری تفریح کا
سامان ہی تو ہیں۔ تم اتنا دور کی سوچ رہے ہو میں ایک چھوٹی سی مثال دے کر
سمجھاتا ہوں امید ہے سمجھ آجائے گی۔ موٹر سائیکل پر جب ہم صدر سے گزرتے ہیں،
کتنا رش ہوتا ہے۔ بہت زیادہ، اوپر سے گرمی، نیچے سے گاڑیوں کا دھواں۔۔ دماغ
ابل رہا ہوتا ہے۔ اس موقع پر ایک بھی بے پردہ خوبصورت سی گرل کسی بائیک پر
بیٹھی یا گاڑی سے دکھائی دیتی ہے تو تمہیں معلوم ہے وہ گرمی و شدت سب ایک
لمحے کو حسین اور ٹھنڈک میں بدل جاتی ہے۔ دل کرتا ہے نہ وہ جائیں، نہ ہم
جائیں اور نہ یہ وقت ٹلے۔
او بھائی صاحب! یہ لڑکیاں تو ہمارے تمہارے جیسے گھرانوں کی ہوتی ہیں۔ یہ نہ
تو بہت زیادہ لبرلرز ہوتی ہیں اور نہ ہی اوپن مائنڈ کی۔۔ پر جو بھی ہوتی
ہیں ہمیں تو ان کو دیکھ کر اچھا فیل ہوتا ہے۔ بس جانے دیں ان باتوں کو سب
ٹھیک ہے۔ تمہیں شاید معلوم نہیں وہ ہمارے لیے ہی تو بن سنور کر نکلتی ہیں۔
لڑکے کی باتوں نے میرا دماغ گھما دیا تھا۔ کچھ حدتک بات درست بھی تھی۔ کہاں
عورت مارچ میں اس سب کو بناکر سنوار کر لایا گیا تھا اور کہاں ہر گلی محلے
میں ہم خود ہی اپنی بہن بیٹی کو لے کر لوگوں کو دکھاتے پھر رہے ہوتے ہیں۔
عورت مارچ پر بات کرنا ہی فضول ہے۔ وہ کچھ لولی لنگڑی سوچ کے مالک سر پھروں
کا ٹولا تھا جو عورت کے حقوق میں خود ہی عورت کا استحصال کرتا پھر رہا تھا۔
ان پر بات کیا کرنی جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ جس اسلام پر وہ جملے بازی
کررہی تھیں اسی اسلام نے انہیں زندہ درگور ہونے سے بچایا۔ وہ تو یہ بھی
نہیں سمجھتی کہ جس مغرب کی وہ مثال دے رہی تھیں اسی مغرب نے عورت کے لیے
نائٹ کلب اور پوسٹر کو منتخب کیا۔ جس آزادی کی بات وہ کررہی تھیں ان کو یہ
تک نہیں معلوم کہ آزادی عورت کے باہر نکلنے، گدھوں کی طرح کام کرنے، ہر جگہ
خود بطور عورت کیش کروانے میں نہیں بلکہ عزت سے گھر میں رہنے میں ہے۔ ان کا
مقصد تو ہمارے سوشل میڈیا کے سمجھداروں نے پورا کیا۔ انہوں نے چار تصویریں
دیں انہوں نے خوب وائرل کیا۔
میرا رونا تو اپنوں کے رویے پر ہے۔ آپ کی بہن بیٹی آوارہ لڑکوں کی نظروں سے
محفوظ نہیں تو کیوں نہیں کبھی سوچا یا پھر تنقید پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔
اس لیے کہ وہ خود کو ظاہر کر کے نکلتی ہے اور پھر ان کو دیکھا جاتا ہے۔ وہ
خود ہی چاہتی ہے کہ اسے دیکھا جائے اور اس کا مقصد پورا کرتا ہے باہر والا۔
آپ کو نہیں اچھا لگتا کہ آپ کی بہن کو کوئی دوسرا دیکھے تو کتنوں کی آنکھوں
پر پٹی باندھی جائے، بہتر ہے آپ اپنی بہن بیٹی پر کپڑا ڈال لیں۔ یہ کوئی
روشن خیالی نہیں۔ یہ کوئی فیشن یا آزادی نہیں بلکہ ایک سطحی سی سوچ ہے جس
کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
اسلام نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا، بی بی پردہ کر کے نکلو تاکہ تکلیف نہ دی
جائے اور پہچانی جائیں کہ شریف زادی ہیں۔ اسلام نے تو مردوں کو بھی سمجھایا
کہ نظروں کو نیچے رکھو۔۔ عورت مارچ کی آنٹیوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے
معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں اور اپنے گھر سے شروع کردیں تو بہت کچھ ہے جو
کرنے کا ہے۔ مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی۔ گھر کی تربیت ہوگی تو غیر
ضروری طور پر گھومتی لڑکیاں بھی نہیں ہوں گی اور ان کے تنگ کرنے والے مرد
بھی۔ یاد رکھیں یہ لڑکے اسی معاشرے کے حصہ ہیں۔ انہیں بہنوں کے بھائی اور
انہیں ماؤں کے بیٹے ہیں۔ دو طرفہ تربیت کی ضرورت ہے، بہن باتہذیب ہوگی تو
بھائیوں کو بھی بہنوں کی پہچان ہوگی۔
|