دُنیاکومہلک ہتھیاروں سے کہیں زیادہ خطرہ منفی سوچ سے
ہے۔کیونکہ انسان کی منفی سوچ اجتماعیت ، اتفاق واتحاد ختم کرکے نفاق نفرت
اور شدت پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر معاشرے کی تباہی کاسبب بنتی ہے۔
یہی سوچ خواص میں پیدا ہوجائے تو پھرتباہی بربادی کا دائرہ کار بھی اسی
اعتبار سے وسیع اورزیادہ نقصان دہ ہوجاتاہے، جو معاشرے سے بڑھتا ہوا ملکوں
اورقوموں کی تقدیرکے بگاڑاورتباہی تک جاپہنچتاہے۔
اِسلام سراسرامن،مساوات،محبت واخوت کا دین ہے،جواپنے پیروکاروں اورماننے
والوں کو عبادت، ریاضت، کھانے پینے،اُٹھنے بیٹھنے،ملنے جلنے،سونے جاگنے
جیسے معمولات سے لے کر عام معاملات زندگی میں میانہ روی حتی کہ اختلاف کی
صورت میں بھی توازن کے ساتھ احتیاط کا دامن تھامے رکھنے اور راہ ِاعتدال سے
نہ ہٹنے کا درس دیتاہے۔
اسلام اس عارضی دُنیاوی زندگی کو دارالاعمل ،مختصروقفہ اور دارالامتحان
قراردیتا ہے ۔جس کا نتیجہ جمع کئے جانے والے دن نکلے گا،جس دن حضرت آدم
علیہ السلام سے لے کر دُنیامیں آنے والے آخری انسان تک سب کو جمع کیا
جائیگا۔اس لئے انسان اس مختصرعرصہ ،عارضی زندگی میں جو بھی کرے گا، خواہ اﷲ
اوراﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اُس کے احکامات
وتعلیمات اورنبی آخرالزمان حضرت مصطفی ﷺکے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارے
یا پھردوسری صورت یہ ہے کہ اس کے بالکل برعکس من چاہی زندگی،شیطان
اورشیطانی قوتوں کے ایجنڈے پرعمل کرے۔ہرصورت میں اُسے اﷲ کے سامنے جواب دہ
ہوناہے۔
اسلام اپنی تعلیمات میں باربارانسان کوباورکراتا ہے ،کہ یاد رہے ،آخرت میں
ایک دن تمہیں اکٹھا کیا جائیگا ۔وہ دن اس لحاظ سے منفردہوگا کہ من چاہی
زندگی گزارنے،شیطان اورشیطانی قوتوں کے ایجنڈے پرعمل کرنے والوں کے لئے وہ
دن خسارے کادن ہوگا۔قرآن ِمقدس میں آتاہے ترجمہ"جس دن تمہیں(یعنی قیامت) کے
دن اکٹھا کرے گا،وہ نقصان اُٹھانے کادن ہے۔"(سورۃ التغابن(9
اس دُنیا سے توہرایک کورُخصت ہونا ہی ہے۔جمعہ کے مبارک دن، اﷲ کے گھرمیں
موجودلوگوں میں سے کوئی قیام میں ہوگا،توکوئی رکوع وسجوداورکوئی کلام اﷲ کی
تلاوت میں مشغول ہوگا۔ان مسلمانوں کو اﷲ کے حکم کی تعمیل کے دوران انتہائی
سفاکانہ اندازاوربے رحمی سے فائرنگ کرکے شہیدکردیا گیا۔اس واقعہ میں معصوم
بچے،مردو عورت جوبھی شہیدہوئے ان کے لواحقین کے ساتھ ساتھ ساری دُنیا خصوصاََ
مسلم اُمت کا ہر فرد صدمے اورافسوس کی حالت میں ہے۔جہاں تمام مسلمان شہداء
کے درجات کی بلندی کے لئے دُعاگو اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کا
اظہارکرتے نظرآئے،وہیں نیوزی لینڈکی وزیراعظم اوروہاں کے دیگرمقامی لوگ
اپنے عمل کے ذریعہ مسلمانوں کے غم میں برابرکے شریک دکھائی دیئے۔جواس بات
کا ثبوت ہے کہ سفید وسیاہ فام کی جنگ نہیں بلکہ منفی سوچ کی شرانگیزی ہے۔
موجودہ حالات میں دُنیا بھرکے امن وسلامتی کو خطرہ اورپریشانی کاسبب یہی
منفی سوچ بنتی جارہی ہے۔ایک طرف جس کاسبب ایسے شخص کااہم عہدہ پر فائز
ہوناجورنگ ونسل کی بنا پرحقارت،تعصب پرمبنی سوچ رکھنے کے علاوہ دین ِ اسلام
اور مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ اورعزائم کاکھلم
کھلااظہارکرتاہے۔دنیامیں امن کے نام پربدامنی اورانتشارپھیلانے والے ملک
امریکہ کے سربراہ کی اسی منفی سوچ سے متاثرہ شخص نے جمعہ کے دن نیوزی
لینڈکی مسجدمیں فائرنگ سے بے قصورنہتے مسلمانوں کوشہیدکردیا۔
اب اس بدبخت انسان کے سفاکانہ عمل کو مختلف اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے اوراس پرہرطرح کے تبصرے کئے جارہے ہیں،یہاں تک کہ اسے ذہنی مریض
قراردے کرمنفی سوچ کی شرانگیزی پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن
جوکچھ اس بدبخت انسان کے بارے میں میڈیاپردیکھا اورسناگیااس سے اندازہ
لگاناہرگز مشکل نہیں اس کے پیچھے یہی منفی سوچ اور پروپیگنڈہ کارفرماہے
،جواسلام کے حوالہ سے ایک عرصہ درازسے کیا جارہاہے۔
دوسری طرف اسی سوچ کا حامل شخص دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک
کا وزیراعظم مودی کشمیرمیں نہتے مسلمانوں پراس لئے مظالم ڈھا رہاہے ،کہ
کشمیری حق خودارادیت سے دستبردارکیوں نہیں ہورہے۔اسی منفی سوچ کے شخص نے
کشمیریوں پرعرصہ حیات تنگ کر رکھاہے،جونہتے کشمیریوں پردن رات ظلم
وجبرروارکھے ہوئے ہے۔ اس کی سوچ کوخطہ کے لئے خطرہ قراردیا جارہاہے۔جس کے
شرسے اس کے ہمسائے تنگ ہیں،جوپاکستان کومسلسل جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے ،
ایل او سی پرمسلسل فائرنگ کے ذریعہ پاکستان کے شہریوں کوشہیدکروارہاہے۔
پاکستان اندرونی طورپربھی اسی منفی سوچ اوردہشت گردی کا ایک عرصہ سے
شکاراورجنگ کی حالت میں ہے۔اس جنگ میں پاکستان کے عام شہریوں،پولیس
اورافواج پاکستان کے جوانوں سمیت 75ہزارکے لگ بھگ لوگ شہیدہواوربے شمارزخمی
اوراپاہج ہوئے۔ان قیامت خیزحالات سے گزرنے کے باوجودپاکستان امن کا خواں
ہے،اس سے کسی ملک کوخطرہ نہیں، پاکستان کی قیادت نے بارہا امن کی خواہش کا
اظہار کیا ۔ جس کا عملی ثبوت موجودہ حکومت کا بھارت کی طرف سے مسلسل جارحیت
کے باوجودامن کوترجیح دینا،کشمیرسمیت تمام مسائل طاقت کی بجائے بات چیت کے
ذریعہ حل کرنے کے عزم کااظہارہے۔مگرجواب ہمیشہ کی طرح میں نہ مانوں، جب سوچ
ہی منفی ہوتوکیاکیاجاسکتاہے،حالانکہ اس کاحتمی نتیجہ تباہی وبربادی کے
سواکچھ نہیں۔
اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دُنیاکومہلک ہتھیاروں سے کہیں زیادہ خطرہ
منفی سوچ سے ہے۔کیونکہ انسان کی منفی سوچ اجتماعیت ، اتفاق واتحاد ختم کرکے
نفاق نفرت اور شدت پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر معاشرے کی تباہی
کاسبب بنتی ہے۔یہی سوچ خواص میں پیدا ہوجائے تو پھرتباہی بربادی کا دائرہ
کار بھی اسی اعتبار سے وسیع اورزیادہ نقصان دہ ہوجاتاہے، جو معاشرے سے
بڑھتا ہوا ملکوں اورقوموں کی تقدیرکے بگاڑاورتباہی تک جاپہنچتاہے۔
افغانستان ، شام ، عراق، یمن ،کشمیر،فلسطین کا حال ساری دُنیاکے سامنے
ہے،ڈراس بات کا ہے کہ اب یہ سوچ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک صورت اختیارکرتی
نظرآرہی ہے،جیساکہ نیوزی لینڈمیں مسلمانوں کی شہادت کاواقع۔
|