میرا لخت جگر ( محمد زاہد لودھی)

سورج گھنے بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے ٗ درختوں کی چوٹیوں سے وجود میں آنے والے گہرے سبزسمندر میں ڈوبنے سے پہلے کائنات کو اپنی سرخ آنکھوں سے گھور رہاتھا ۔ رفتہ رفتہ سورج نے اپنا دھوپ کا بچھا یا ہوا جال پہلے زمین سے سمیٹا پھر اسے درختوں کی چوٹیوں سے گھسیٹتا ہوا افق کے پیچھے جا چھپا ۔ کچھ دیر تک کنارہ افق پر سوگوار سرخی چھائی رہی۔ پھر رات نے اپنے سیاہ پر پورے ماحول پر پھیلا دیئے ۔

23 مارچ 1985 ء کی یہ سرد شام اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ گھر میں کسی نئے مہمان کی آمد متوقع تھی چار وں طرف اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس چھوٹے سے گھر میں لالٹین ہی روشنی کا مینار مینار ثابت ہورہی تھی جہاں تک اس کی کرنیں پہنچتیں کسی قدر اجالے کا سماں پیدا ہوجاتا لیکن لالیٹن سے نکلنے والی روشنی کی کمزور کرنیں کچھ ہی فاصلے پر جا کر اپنا وجود کھو بیٹھتیں اور ماحول پر ایک بار پھر اندھیرا چھا جاتا ۔سردیوں کی اس مہیب شا م ہمارے گھر میں دو معزز مہمان بھی صبح سے ہی موجود تھے ان مہمانوں میں ایک میری ساس ( رمضانو بیگم) جبکہ دوسری ان کی سہیلی خالہ رحم تھیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مشکل اور پریشانی کی اس گھڑی میں ہمارے گھر میں ان کی موجودگی حوصلے کا باعث تھی ۔

بیٹی تسلیم پانچ سال جبکہ بیٹا شاہد ابھی تیسرے سال میں تھا ‘ اس لمحے جبکہ گھر میں نہ تو بجلی تھی ٗ نہ سوئی گیس اور نہ ٹیلی ویژن کی سہولت میسرتھی ۔اس کھنڈر نما گھر میں ہم سرشام ہی بستروں میں دب کر سو جایا کرتے تھے ۔ یہ شام اس اعتبار سے منفرد تھی کہ میری اہلیہ زچگی کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ اس لئے میں ان مشکل ترین لمحات کی شدت کو بخوبی محسوس کررہاتھا بلکہ اﷲ تعالی کے حضور دعاگو تھا کہ یہ مرحلہ بخیر و عافیت سے انجام پاجائے ۔ یہ درست ہے کہ اولاد میٹھا میوہ ہے لیکن جس درخت سے اولاد کامیو ہ لگتا ہے اس کی اہمیت بھی کسی سے کم نہیں ہوتی ۔ مجھے آنے والے مہمان سے زیادہ اپنی اہلیہ کی فکر تھی ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں بہت کم لوگ زچگی کے لئے ہسپتالوں کا رخ کرتے تھے۔ محلے میں ہی پیشہ ور اور ماہرتولد داعیہ میسر آجاتیں اور معاملات نہایت آسانی سے انجام پا جاتے ۔

یہ وہ دور تھا جب میرے گھر میں ہر طرف غربت دکھائی دے رہی تھیں‘ والدین سے علیحدگی کے بعد جن کٹھن حالات کا مجھے اور میری اہلیہ کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ ہمیں اس کھنڈرنما گھر میں آئے ہوئے صرف اڑھائی ماہ ہی ہوئے تھے۔ صحن میں جابجا بلڈنگ میٹریل ہی بکھرا ہوا تھا ‘ دو نامکمل کمرے تو موجود تھے لیکن نہ ان میں کھڑکیاں نصب تھیں اور نہ ہی دروازے اپنی جگہ موجود تھے ۔ اس خلا کو فی الوقت اینٹوں اور پلاسٹک شیٹ سے بند کیا گیا تھا تاکہ سرد ی سے کچھ تو بچاؤ ہوسکے ۔ اس شام سردی بھی عروج پر تھی کہ سوائے بستروں کے ہمیں کہیں بھی سکون میسر نہ تھا ۔ سوئی گیس مکہ کالونی میں صرف چند گھروں میں موجود تھی جبکہ پورا محلہ اس نعمت سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شام کا کھانا پکانے کے لئے یا تو ہمیں مٹی کے تیل کا چولہا جلانا پڑتا ۔یا لکڑیوں سے آگ سلگانی پڑتی ‘ جو ایک مشکل کام تھا ۔

اس لمحے میری ساس نے قریب آکر کہا بیٹا تمہیں مبارک ہو ٗ ایک چاند سا بیٹا اﷲ تعالی نے تمہیں عطا فرمایا ہے۔ خیر سے بیٹوں کی جوڑی مکمل ہوگئی ہے ۔میں نے بیگم کا حال پوچھا توانہوں نے بتایا کہ وہ بھی الحمد اﷲ خیریت سے ہے ۔ جونہی یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے تومیں نے ایک لمبا سانس لے کر اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا کیونکہ تخلیق اور انسان کی حفاظت اﷲ تعالی ہی کے ذمے ہے‘ انسان تو اپنی حد سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ مشکل کی اس گھڑی میں اﷲ تعالی نے اولاد نرینہ سے نواز کر مجھ پر احسان عظیم کیا تھا جس پر میں خدائے بزرگ و برتر کا بے حدمشکور تھا ۔

دوسرے بیٹے کی پیدائش ہم سب کے لئے یقینا خوشی و مسرت کا باعث تھی اس نومولود کا نام بڑے بیٹے محمد شاہد کی مناسبت سے محمد زاہد رکھا گیا لیکن بچپن ہی سے میں اسے سونو کے لقب سے پکارنے لگا۔ یہ لفظ میں نے خود اختیار نہیں کیا بلکہ یہ میرے دل کی آواز تھی ۔ حالانکہ یہ بڑے بیٹے کی نسبت کمزور سا بچہ تھا لیکن بچپن ہی میں اس کے چہرے کی کشش کو ہر دیکھنے والا محسوس کئے بغیر نہیں رہتا جب بھی کوئی اس کی تعریف کرتا تو ماں ایک ماہر تخلیق کار کی طرح خوشی سے پھولے نہ سماتی اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہتی ۔ میرا بیٹا ساری دنیا سے خوبصورت ہے ۔

میں سمجھتا ہوں یہ ماں کا اپنے بیٹے کو بہترین خراج تھا۔ ویسے بچہ جیسا بھی ہو ماں کو وہ ساری دنیا سے خوبصورت ہی دکھائی دیتا ہے ۔حسن اتفاق سے زاہد عرف سونو کا شمار ایسے بچوں میں ہرگز نہیں تھا جو زمین پر بیٹھتے ہی رونے لگتے یا ماں کی آغوش سے اترتے ہی آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں‘ وہ عام بچوں کے برعکس نہایت صابر و شکر تھا۔ ماں ا سے زمین پر بیٹھا کر گھنٹوں اپنا کام کرتی رہتی وہ اردگرد چلتی پھرتی ماں کی کشش کو محسوس کرکے اپنی ننھی منی پیاری پیاری دنیا میں سرجھکائے بیٹھا کھیلتا رہتا ۔ جب اسے بھوک لگتی تو وہ رو کر ماں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ۔ماں کو اﷲ تعالی نے یہ قوت بخشی ہے کہ دور ہو یا نزدیک بچے کی ہر مشکل اور ضرورت اس کی نظر میں ہوتی ہے جونہی زاہد کو بھوک لگتی تو ماں سب کچھ چھوڑ کر اس کو اپنے آغوش میں لے کر اس وقت تک دودھ پلاتی رہتی جب تک اسے پینے کی حاجت ہوتی۔یہ فریضہ انجام دینے کے بعد ایک بار پھر اس کی ماں اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتی اور میرا زاہد زمین پر بیٹھا گھر کے کچے صحن میں پڑی ہوئی مٹی اور کھلونوں سے ہی کھیلتا رہتا۔

میں نے یہ بات نہایت شدت سے محسوس کی کہ زاہد کی ماں کبھی اپنے بیٹے کی جانب پیٹھ کرکے نہیں سوئی ۔ ہر شام وہ اپنے دامن میں سمیٹ کر اپنی ممتا بھری آغوش میں لے کراس بیٹے کو پرسکون رکھتی ۔ دن مہینے اور سال یونہی گزرتے رہے حتی کہ زاہد زمین پر رینگنے لگاپھر کسی سہارے کے بغیر اٹھ کر چلنے بھی لگا ۔ سانولا سلونا سا یہ بچہ اپنی ننھی منی شرارتوں سے اپنی ماں اور مجھے مصروف رکھتا ۔ تسلیم چونکہ بڑی تھی اس لئے وہ اس سے خوب کھیلتی اور اسے بہلاتی۔ بہن بھائیوں میں والہانہ محبت آج بھی اسی طرح قائم ہے حالانکہ تسلیم شادی کے بعد اب اپنے گھر جاچکی ہے لیکن جب بھی وہ میکے آتی ہے تو زاہد سرسوں کے تیل کی شیشی ہاتھ میں تھما کر اس کی آغوش میں بیٹھ جاتا ہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بہن ایک ہی جیسی توجہ سے اپنے چھوٹے بھائی کے سر کی مالش کرتی ہے نہ مالش کرنے والی بہن تھکتی ہے اور مالش کروانے والا زاہد اکتاتا ہے ۔محبت کا جواب محبت سے دینے کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا جارہاہے ۔ زائد بھی اپنی بہن کی جانب سے ملنے والی ہر ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے اور بہن بھی اپنی جان اس بھائی نچھاور کرتی ہے ۔

شاہد بھی اکثر اوقات زاہد کو گودمیں اٹھا کر باہر کھیلنے چلا جاتا لیکن مضبوط اور توانا جسم کے حامل اس بچے کو زاہد کی شکل میں ایک کھلونا ضرور مل گیا تھا کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ اگر کسی کھلونے کے ساتھ زاہد زمین پر بیٹھا کھیل رہا ہوتا تو شاہد اس سے وہ کھلونا چھین لیتا ۔ اس پر رونے کی بجائے زاہد حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہتا اور احتجاج اپنی ذات تک ہی محدود رکھتا۔

بہرکیف جوں جوں زاہد بڑا ہوتا گیا تو اس کے پاؤں زمین پر ایک جگہ نہ ٹھہرتے ۔ چلنے پھرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی توتلی زبان میں باتیں بھی کرنا شروع کردی تھیں جب بچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر چلنے لگتا ہے تو ماں باپ کے لئے یہ لمحہ سب سے زیادہ خوش کن تصور ہوتا ہے ۔بہت مدت تک وہ میرے ساتھ ہی سوتا رہا اس طرح وہ مجھ سے بہت مانوس ہوچکا تھا ۔ یہ بات بھی اس کے حق میں جاتی ہے کہ اوائل عمر ی میں اس نے کبھی بستر پر پیشاب نہیں کیا بلکہ نہایت صابر و شاکر بچے کی حیثیت سے اس کی زندگی زمانے کی کسوٹی پر پوری اترتے ہوئے آگے بڑھتی رہی ۔جس زمانے کی میں بات کررہاہوں اس دور میں سردیوں کی دوپہر اور گرمیوں کی شامیں پتنگ بازی کے لئے پسندیدہ تصور کی جاتی چونکہ شاہداس عمر کو پہنچ چکا تھا کہ وہ گھر سے ملنے والے پیسوں سے پتنگ خرید کر اڑا سکتا بلکہ اس کے دوست (جن میں ریحان ٗ نوید اورر ضوان شامل تھے ) اکثر تینوں مل کر گھر کی چھت پر پتنگ بازی سے لطف اندوز ہوتے ۔ انہیں دیکھ کر زاہد کو بھی پتنگ اڑانے کا شوق ہوگیا حالانکہ میں اور اس کی ماں ہر لمحے زاہد کی نگہداشت اور تعاقب میں لگے رہتے اور اسے نظروں سے اوجھل نہ کرتے لیکن ایک دن جب میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعدگھر پہنچا تو یہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ زاہد ماں سے آنکھ بچاکر چھت پر جا پہنچا اور وہاں لکڑی کی سیڑھی پر چڑھنے کی جستجو کررہا تھا کہ اچانک پاؤں پھسلا اور زمین پر آگر ا ۔اس طرح بازو کا جوڑ اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔درد کی شدت سے زاہد کا برا حال تھا ماں اس کے صدقے اور واری جارہی تھی لیکن ماں کا دلاسہ زاہدکی تکلیف کو کم نہیں کرپا رہا تھا ۔ باپ ہونے کے ناطے اس کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہ جارہی تھی ۔ چنانچہ فوری طور پر اسے موٹرسائیکل پر بٹھا کر بیگم سمیت لاہور کینٹ کے صدر بازار پہنچا ۔سارے راستے اسی کی پریشانی میں کھویا رہا ۔ جب کرماں والا پہلوان کی دوکان پر جا کر سونو کو موٹرسائیکل سے اتارا تو پہلوان نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ بازو کا جوڑ تو بالکل ٹھیک ہے وہ کام جو پہلوان نے تکلیف دہ عمل سے گزار کر کرنا تھا ‘ وہی کام موٹرسائیکل کے اس ہینڈل نے کردیا جسے پکڑ کر زاہد بائیک کی ٹینکی پر بیٹھا تھا ۔ اس طرح سونو کا حیرت انگیز طور پر ٹھیک ہوجانا ہمارے لئے باعث مسرت تھا۔ پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب گلی نمبر 8 میں ہی ڈاکٹر ضیا الدین کے انگلش میڈیم الفیصل سکول میں اسے داخل کروا دیا گیا جہاں وہ صبح سویرے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتا‘ پھر ناشتہ کرکے سکول پہنچ جاتا‘ حالانکہ پڑھائی کے معاملے میں بچپن ہی سے لاپروا اقع ہواتھالیکن نتیجے کے دن وہ حیرت انگیز طور پر پاس ہوجاتا ہے۔بعدا زاں بلوچ آئیڈیل سکول اور گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول میں بھی زیر تعلیم رہا۔یہیں سے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے پاس کیا ۔

زاہد تو پہلے ہی دبلا پتلا کمزور سا بچہ تھا ‘ اس پر ٹانسسز نے بھی آ گھیرا ۔ مہینے میں دو تین مرتبہ اسے بخار رہنے لگا۔ ڈاکٹر نعیم کے بقول جب بھی وہ کوئی کٹھی یا ترش چیز کھاتا اسے بخار ہوجاتا ۔ علاج کروانے کے باوجود جب ٹانسسز ٹھیک نہ ہوئے تو شیخ زید ہسپتال میں آپریشن کے لئے داخل کروادیاگیا۔ دوران آپریشن اور بعد میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی گئی کہ وہ بڑا حوصلہ مند لڑکاہے وہ جس وارڈ میں داخل تھا وہاں ناک ‘کان اور گلے کے کئی اور مریض بھی داخل تھے ‘ تکلیف سب کے چہروں پر عیاں تھی اس کے برعکس میں نے زاہد کو ہسپتال کے بستر پر کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھاجب بھی میں ہسپتال پہنچا تو زاہد ہنستے کھیلتے اور شرارتیں کرتے ہوئے ہی نظر آیا ۔وہاں پر موجود لوگ زاہد کی بجائے اس کی ماں کو مریض سمجھنے لگے تھے ۔

دن مہینے سال یونہی گزرتے رہے زاہد نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیا‘ پڑھائی کے معاملے میں اس کی توجہ کسی بھی مرحلے پر قابل رشک نہ ہوئی ۔وہ سارا سال کتابوں سے بے اعتناعی برتتا جس پر مجھے غصہ بھی آتا‘ جیسے ہی امتحان سر پر آتا تو کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا ۔ ایف اے میں بھی صرف انگلش میں کمپارٹ آئی ‘ باقی تمام مضامین میں وہ پاس ہوگیا ۔ اردو سپکنگ ماں کا بیٹا پنجابی کے پرچے میں سب سے زیادہ نمبر لے گیا ۔گرایجویشن بھی اس نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کی ۔ پھر ملازمت کے لیے جستجو شروع ہوگئی ‘ پہلے کیبل کے مرکزی دفتر( جوگارڈن ٹاؤن میں تھا) ملازم ہواچند ماہ وہاں گزار کر ایک فینسی دوپٹے بنانے والی فیکٹری میں ملازم ہوگیا والدہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ زاہد بنک کا بڑا افسر بنے لیکن میری تمام تر کوششوں کے باوجود وہ بنک میں ملازم نہ ہوسکا ۔ وہ صبر مند تو تھا ہی ‘ اپنے دکھوں دوسروں کو سنانے اور بتانے کاعادی نہیں ۔ مجھے نہیں علم کہ وہ فیکٹری میں کیا کرتا تھا اورنہ ہی کبھی اس نے بتانے کی ضرورت محسوس کی ۔ پھر جب بنک آف پنجاب سے میری ریٹائرمنٹ کا وقت آ پہنچا تو بنک آف پنجاب ہیڈ آفس کے دو مہربان افسران( جن میں گروپ ہیڈجناب مغیث بخاری ‘ جنرل منیجر ریٹل بینکنگ جناب بابر ملک شامل ہیں )کی سرپرستی سے میرا زاہداسلم لودھی بنک میں گریڈ تھری افسر کی حیثیت سے بھرتی ہوگیا ۔ تعلیمی اہلیت کے اعتبارسے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس میں اعتماد کی قوت‘ اس میں اس قدر زیادہ ہے کہ وہ جب کسی سے بات کرتا ہے تولوگوں کو بے حد متا ثر کرتان ہے ۔ میرے جتنے بھی دوستوں سے زاہد کی ملاقات ہوئی وہ سب زاہد کی حاضر دماغی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔

بنک آف پنجاب میں اس کی پہلی تقرری پنجاب سوسائٹی برانچ میں ہوئی جہاں آپریشن منیجر یحیی صاحب جبکہ منیجر کا نام آصف حنیف تھا ‘ زاہدنے ان دونوں سینئر ز کا اعتماد کچھ اس طرح حاصل کیا کہ ریجن کی جانب سے جب اس کی ٹرانسفر ماڈل ٹاؤن برانچ کی گئی تو برانچ منیجر اور آپریشنز منیجر اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھے ‘ میں نے بھی بنک میں 20 سال ملازمت کی ہے اور کتنی ہی بار میری بھی ٹرانسفر ہوچکی لیکن ہر مرتبہ ٹرانسفر کینسل ہوتی رہی۔ یوں میں پورے 20سال ہیڈ آفس میں ہی گزارنے میں کامیاب رہا ۔اب وہی معاملہ میرے بیٹے زاہد کے ساتھ ہو رہاہے ۔ برانچ منیجر اور آپریشنز منیجر زاہد کی کارکردگی سے اس حد تک خوش ہیں کہ وہ انہیں چھوڑنے کو آمادہ نہیں تھے ۔ کئی ماہ تک ٹرانسفر لیٹر پینڈنگ رہا بالاخر تبادلہ منسوخ کرکے پنجاب سوسائٹی برانچ میں ہی اسے رہنے دیا گیا ۔ حتی کہ اس کو ریلیو نہ کرنے والے منیجر اور آپریشنر منیجر دونوں کی یکے بعد دیگرے ٹرانسفر ہوگئی لیکن زاہد اسی برانچ میں کام کرتا رہا ۔ ایک بار میں کیولری برانچ میں اتفاقا گیا تووہاں میری ملاقات آپریشنز منیجر یحیی صاحب سے ہوئی انہوں نے مجھ سے کہا لودھی صاحب آپ بنک آف پنجاب کے بہت پرانے ملازم رہے ہیں آپ کے تعلقات ہیڈآفس کے بڑے بڑے افسران کے ساتھ ہیں میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ زاہد کو پنجاب سوسائٹی برانچ سے میری برانچ میں تبادلہ کروا دیں‘ میں زاہد کے کام کرنے کے سٹائل اور مہارت سے بے حد متاثر ہوں وہ کام اتنی جلدی سمجھ لیتا ہے کہ اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔ میں نے جب اس بات کا تذکرہ اپنے دیرینہ دوست اور سنیئر افسر بابر ملک سے کیا تو انہوں نے کہا کہ یحیی صاحب کی تو اپنی ٹرانسفر ہونے والی ہے اگر زاہد کوکیولری گراؤنڈ برانچ میں ٹرانسفر کر بھی دیاگیاتو یحیی صاحب وہاں جاچکے ہوں گے ‘ وہی ہوا جس کا ذکر بابر ملک صاحب نے کیا تھا ۔ چند ہی دنوں بعد یحیی صاحب ٹرانسفر ہوکر ڈی ایچ اے برانچ میں چلے گئے اور زاہد پنجاب سوسائٹی برانچ میں ہی تعینات رہا ۔

وہاں نئے آنے والے برانچ منیجر انعام صاحب بھی بہت ہی شفیق انسان تھے جب بھی ان سے بات ہوئی وہ بھی زائد کی بے حد تعریف کرتے ‘ یہ انعام صاحب اور بابر ملک صاحب کی مہربانی سے زاہد کی کنفرمیشن ہوچکی ہے جو اس کی بہترین ورکنگ پوزیشن کی ایک مثال ہے ۔ گھر میں ہر کام لاپرواہی سے کرنے والا زاہد بنک میں نہایت ذمہ دار افسر ہے وہ سب سے پہلے بنک پہنچتا اور سب سے آخر میں بے شک رات کے بارہ بج جائیں ‘ بنک سے گھر واپس آتا ہے ۔ منیجراور آپریشنز منیجر اس پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے انتہائی اہم ذمہ داری اسے سونپ کر بے فکر ہوجاتے ہیں ۔ایک رات زاہد دو تین بجے وہ گھر پہنچا استفسار پر اس نے بتایا کہ اے ٹی ایم میں کچھ پرابلم آرہی تھیں اس لیے اسے ٹھیک کروا رہا تھا ۔ ذمہ داری کے اس احساس کی بدولت ہی وہ اپنے منیجر اور آپریشنز منیجر کے لیے پسندیدہ ٹھہرتا ہے ۔

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ زاہد میرا بیٹا ہے اور بنک میں میری نیک نامی میں اضافہ کررہا ہے ۔ اس کی صحت کچھ عرصے سے خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے ہم فکر مند ہیں لیکن وہ اپنی بیماری کی تشہیر کرنے کی بجائے صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے خاموش رہتا ہے ۔ جتنی بار بھی مجھے اس بیماری کا پتہ چلا اس کی والدہ نے ہی مجھے بتایاوہ خود بتانے کے زحمت نہیں کرتا ۔چپ چاپ اپنے کمرے میں جاکر لیٹ جاتاہے ۔معدے کی بیماری نے اسے اس حد تک کمزور کردیا تھا کہ میں پریشان ہوگیا ۔ حسن اتفاق سے میرے ایک دیرینہ دوست ظفر اقبال صاحب جووائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے بنک آف پنجاب سے ریٹائر ہوئے تھے ان کو بھی معدے کی خرابی کا مسئلہ درپیش تھا ‘ وہ کھانے میں احتیاط تو کرتے لیکن بیماری کااثر ان پر بہت کم دکھائی دیتا ۔ میں نے ان کو فون کرکے زاہد کی بیماری کے بارے میں بتایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کس ڈاکٹر سے علاج کروا رہے ہیں تاکہ زاہد کو بھی اسی ڈاکٹر سے کے پاس بھیجا جائے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ہسپتال میں پیٹ کے امراض کا ایک ماہر ڈاکٹر غیاث الدین نبی طیب شام کے وقت بیٹھتا ہے اگر آپ زائد کو اسے چیک کروائیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا یہ بتاتے ہوئے انہوں نے ایک اور نصیحت کی کہ اس ڈاکٹر سے ٹائم دو تین مہینے سے پہلے نہیں ملتا ۔ ظفر اقبال صاحب کا میں مشکورہوں کہ انہوں نے مجھے صحیح معالج کا پتہ بتادیا ۔میرے ایک دوست جناب سعید جاوید کسی زمانے میں ڈاکٹر ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ہوا کرتے تھے وہ آج کل فیس بک پر میرے بہت ہی اچھے دوست بن چکے ہیں ایک دو بار ان کے گھر بھی جانا ہوا وہ بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے بلکہ کینو کے موسم میں مجھے وہ اپنے فورٹ عباس والے باغ کے کینو ضرور بھجواتے ہیں جس پر میں ان کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں۔ میں نے ان سے زاہدکی بیماری کی بات کرکے غیاث الدین نبی طیب سے وقت لینے کی بات کی تو انہوں نے حامی بھرلی ان کی مہربانی سے دو تین دنوں میں ہی ملاقات کا وقت مل گیا ۔ جب میں زاہد کو لے کر ڈاکٹر ہسپتال پہنچا تو اس نے چیک کرنے کے بعد وٹامن کی دوائی تشخیص کی جو دو اڑھائی ہزار روپے میں ڈاکٹر ہسپتال کی فارمیسی سے ملتی ہے ۔ 3000روپے ڈاکٹر کی فیس ادا کی اور ہم گھر چلے آئے ۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زاہد اب بہت حد تک ٹھیک ہوچکا ہے کھانے پینے کا پرہیز تو اسے ہر حال میں کرنا پڑتا ہے لیکن صحت کے لیے زندگی کے ذائقے قربان پڑتے ہیں ۔

ان دنوں وہ پنجاب سوسائٹی برانچ سے تبدیل ہوکر کاہنہ نو برانچ میں تعینات ہوچکا ہے ‘ لمبی مسافت طے کرکے جانے کی وجہ اس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں لیکن بنک ملازمت میں ٹرانسفر کا مرحلہ تو ہر افسر اور ملازم کے نصیب کا مقدر بنتا ہے ۔میں نے اسے سمجھایا کہ ترقی کرنے کے لیے اسے ہر مشکل کو آسان بنانا ہوگا اس نے مجھے بتایا کہ کاہنہ نو کا منیجر اور آپریشنز منیجر دونوں ہی بہت اچھے انسان ہیں جن کے بہترین رویے سے گھراور برانچ کے درمیان حائل مسافت کی تھکاوٹ بہت حد تک ختم ہوجاتی ہے ۔سینئر کی عزت اور احترام زاہد کی شخصیت کا اہم جزو ہے یہی وہ خوبی ہے جو زاہد کو ہر دوسرے شخص سے ممتاز بناتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ کاہنہ نو کے سینئر بھی زاہد کی ترقی میں یقینا معاون ثابت ہوں گے اور زاہد بینکنگ کے ہر شعبے میں اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر جلد پرموشن کے زینے چڑھتاجائے گا ۔

اس کی ایک اور منفرد خوبی یہ بھی ہے کہ وہ گوشت کھانے سے اکثر پرہیز کرتا ہے لیکن بازار سے منگوائے ہوئے نان اور کوفتے نہایت شوق سے کھاتا ہے ہر اتوار کو جب گھر میں بازار سے ناشتہ منگوایا جاتا ہے تو اس کی یہ جستجوہوتی ہے کہ چنوں کے ساتھ ساتھ کوفتے اور انڈے بھی اس کی پلیٹ میں ضرور ہوں لیکن یہی کوفتے اگر ماں نے گھر میں پکائے ہوئے تو وہ کھانے سے انکار کردیتا ہے جس کی وجہ سے ماں کو بطور خاص اس کے لئے الگ سالن تیار کرنا پڑتا ہے ۔اس کے مزاج کا یہ اتار چڑھاؤ میری بھی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ماں اس کے رویے کو ہمیشہ اپنی ممتا بھری شفقت میں نہایت خوش دلی سے برداشت کرجاتی ہے ۔

مجھے وہ اس لئے بھی اچھا لگتا ہے کہ قدرت نے اس کی آواز میں ایک خاص سر تال موجودہے ‘بستر پر لیٹنے کے باوجودجب مجھے نیند نہیں آتی تو میں اسے لوری سنانے کے لئے کہتا ہوں وہ بھی نہایت محبت کے ساتھ میرے قریب بیٹھ کر لوری سناتا ہے جیسے بہار کے موسم میں بلبل کسی گلشن میں گلاب کے پودے پر بیٹھ کر بہار کے نغمے الاپتی ہے ۔جیسے ہی اس کی سریلی آواز میرے کانوں میں پہنچی تو کوسوں دور سے نیند میری آنکھوں میں اتر آتی ہے اور میں سکون سے سو جاتا ہوں۔ یہ بات مذاق میں نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقت ہے کہ قدرت نے اس کی آواز میں جادو سا پیدا کررکھا ہے ۔سرکی مالش کرنی ہو یا باپ کی حیثیت سے میرے جوتے پالش کرنے ہوں‘ موٹرسائیکل کو واش کرنا ہو یا بازار سے کوئی سودا سلف لانا ہو ۔ یہ سب کام زاہد نہایت ذمہ داری سے کرتا ہے بلکہ ماں کے ساتھ ساتھ میرا بھی ہر طرح سے خیال رکھتا ہے جب بھی بہن (تسلیم تاج ) کے گھر بیگم کوٹ شاہدرہ جانا پڑتا ہے تو وہ طویل ترین مسافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی حیل و حجت کے بغیر چل پڑتا ہے ۔ خون جما دینے والی سردی ہو یا آگ برساتی دوپہر ضرورت کے ہر موقع پر وہ والدین کو فرائض کی انجام دہی میں ہمیشہ تیار ملتا ہے ۔

وہ اپنی مرضی کا مالک ہے مرضی ہو تو مشکل سے مشکل کام کرگزرتا ہے ‘ اس کی مرضی کے خلاف زبردستی کوئی کام نہیں کروایا جاسکتا۔ حالانکہ دور حاضر میں اسے کامیاب ترین انسان تو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن فرماں برداری اور اپنی کارکردگی کے اعتبار سے وہ کسی سے پیچھے بھی نہیں ہے ۔

کبھی وہ وقت بھی تھا جب وہ ہر جمعرات کی شام دعوت اسلامی کے پاکباز نوجوانوں کے ساتھ سوڈیوال پاکیزہ محفل میں شرکت کے لئے جایا کرتا تھا نعتیں سننا ٗ نماز پڑھنا اس کے محبوب مشغولوں میں شامل تھا لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ٗ نماز کی جانب سے ایسا سرکا کہ کہنے کے باوجود نماز نہیں پڑھتا ۔ ہر صبح جب میں اسے نماز فجر کے لئے بیدار کرتا ہوں تو میرے کہنے پربستر پراٹھ کر بیٹھ تو جاتا ہے لیکن میرے گھر سے نکلتے ہی ایک بار پھر لیٹ جاتا ہے ‘ رات کو دیر تک کیمپوٹر پر گیمیں کھیلنا ٗ مزاحیہ سٹیج ڈرامے دیکھنا اس کے محبوب ترین مشاغل میں شامل ہے ۔ باپ کی حیثیت سے میری اولین خواہش ہے کہ زاہد اپنی باقی مصروفیات کے ساتھ ساتھ پنچ وقتہ نماز بھی بروقت اداکرے تاکہ دنیا داری کے ساتھ ساتھ آخرت میں بخشش کا سامان بھی جمع ہوسکے ‘ نیکی کرنے کے لیے اور کوئی زندگی نہیں ملے گی اسی زندگی میں نیک کام اگر کرلیے جائیں تو آخرت میں آسانی رہتی ہے ‘ گزارا ہوا زندگی کاہر لمحہ دوبارہ نہیں آتا اس لیے دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ دینی فرائض کی انجام دہی میں بھی وہی پھرتی اور تیزی دکھانے کی ضرورت ہے جس طرح ہم محکمانہ ترقی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور چند سو روپے کی ترقی ملنے پر پھولے نہیں سماتے لیکن یہ دنیا چار دن کی ہے آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ مٹی کا ڈھیر بن جائیگا لیکن وہ کام جو آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں وہی دائمی اور حتمی قرار پاتے ہیں‘ دنیا والے تو قبر میں دفن کرکے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں لیکن نیک اعمال قبر میں آسانیاں پیدا کرنے کے کام آتے ہیں اس لیے میری دلی خواہش ہے کہ میرا زاہد جس طرح دنیا میں کامیاب ہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرے اور اس کی ہر نیکی کاکریڈٹ والدین کی حیثیت ہمیں بھی حاصل ہو۔

اب تو ماشاء اﷲ زاہد کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ایک نیک سیرت اور وفا شعار بیوی کا ساتھ اس کے دامن گیر ہوچکا ہے وہ صرف نیک سیرت ہی نہیں تہجد گزار خاتون بھی ہے میں اس کی پارسائی اس اعتبار سے گواہ ہوں کہ شادی کے بعدابھی اس کے ہاتھوں سے مہندی کا رنگ پھیکا نہیں پڑا تھا کہ میں نے اسے رات کے پچھلے پہر تہجد کی نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ‘ درحقیقت عورت ہی کسی خاندان کی بنیاد بنتی ہے اگر بنیاد مضبوط اور نیک سیرت ہو تو اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد بھی یقینا نیک اور صالح بنتی ہے ۔ زاہد اس اعتبار سے نہایت خوش نصیب ہے کہ جس خاندان اس کی بیوی کا تعلق ہے وفا شعاری ‘ محبت اور چاہت اس خاندان کی میراث ہے وہ اپنے شوہر کو مجازی خدا تصور کرکے اس کی خدمت میں کچھ اس طرح محو ہوجاتی ہے کہ اپنے دکھ اور وجود کا احساس ہی بھول جاتی ہے ‘ زاہد اگر تیزی سے کامیابی کے زینے عبور کرتا جارہا ہے تو اس میں والدین کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اس نیک سیرت اور وفا شعار بیوی کے سجدوں کا عمل دخل بھی شامل ہے ۔ بے شک وہی عورتیں کامیاب کہلاتی ہیں جو اپنے وجود کو مٹاکر اپنے شوہر کے رنگ میں کچھ اس طرح رنگ جاتی ہیں کہ انہیں اپنی خواہشات اور ضرورتوں کا احساس بھی نہیں رہتا ۔ اﷲ تعالی نے زاہد کو دو خوبصورت بچوں سے بھی نواز رکھاہے ‘ بیٹے کانام محمد عمر اور بیٹی فریسہ زاہد ہے۔محمد عمر تو پریپ پاس کرکے اول جماعت میں جانے والا ہے جبکہ فریسہ شہزادی بھی اس عمر کو پہنچ چکی کہ وہ بھی سکول جانے لگے گی ۔ میں اپنے رب سے زندگی کی بھیک اسی لیے مانگتا تھا کہ میں اپنی آنکھوں سے فریسہ زاہد اور موسف شاہد کو سکول میں جاتے اور واپس آتے ہوئے دیکھنا کا متمنی ہوں۔اﷲ تعالی نے مجھے زندگی کی اتنی مہلت عطا کردی ہے جس پر میں اس کا شکر گزار ہوں ۔

ڈاکٹر اسلم ڈوگرایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلشنز حکومت پنجاب کے عہدے پر فائزہونے کے علاوہ ایک شہرہ آفاق پامسٹ اور دشت شناس بھی ہیں۔ ایک مرتبہ ہم زاہد کو لے کر اس کے گھر گئے تاکہ مستقبل کے بارے میں ان کی بھی رائے حاصل کی جاسکے ۔ انہوں نے زاہد کا ہاتھ دیکھا کچھ دیر ہاتھ کی لکیروں کا مشاہدہ کرتے رہے پھر کچھ حساب کتاب لگا کر بتایا کہ یہ بہت باصلاحیت نوجوان ہے اگر کرنا چاہے تو مشکل سے مشکل کام بھی نہایت آسانی سے کرسکتا ہے۔نہ کرنا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا ۔ 23 مارچ کو پیدا ہونے والے بچے بڑے مرتبے پر پہنچتے ہیں ‘ وہ محبت بھی شدت محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگر وہ کسی سے نفرت کرتے ہیں تو تب انتہاء کی نفرت کرتے ہیں وہ زندگی کے ہر معاملے میں شدت پسند واقع ہوتے ہیں ۔

گھر میں چونکہ وہ سب سے چھوٹا ہے اس لئے والدین کی آنکھوں کا تارا ہے‘ایک شام وہ مجھے بتائے بغیر گھر سے باہر نکل گیا اس کا موبائل گھر میں ہی موجود تھا واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو مجھے سخت تشویش نے آگھیرا ۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ شاید حفیظ سنٹر گیا ہوگا جلد ہی واپس آجائے گا لیکن جب تک وہ واپس نہ آیا مجھے نیند نہیں آئی اور ہر لمحے میرے دماغ سے وسوسے جنم لیتے اور مجھے خوفزدہ کرتے رہے ۔ بڑا بیٹا محمد شاہد ہو یا محمد زاہد دونوں میرے جسم اور میری روح کے ٹکڑے ہیں ‘میں ان پر سختی پر کرتا ہوں انہیں ڈانٹتا بھی ہوں لیکن جب وہ نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو میرے جسم کا ایک ایک اعضا ان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے دعاگو ہوتاہے اور شام ڈھلے جب یہ دونوں بھائی اپنے اپنے دفاتر سے واپس گھر پہنچتے ہیں تو میں اﷲ کاشکر اداکرتا ہوں کہ میرے دو نوں بیٹے میرے آغوش میں واپس آگئے ہیں ۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ میرے دونوں بیٹوں کی زندگی میں ناکامی کالفظ کبھی شامل نہ ہوں وہ زندگی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اب جبکہ میری زندگی کا چراغ بجھنے کے لیے ٹمٹا رہا ہے تو تہجد کی نماز میں ‘میں اپنے دونوں بیٹوں اور بیٹی کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے سامنے التجا بھرے لہجے میں دعاکرتا ہوں اے اﷲ میرے اس چھوٹے سے خاندان کواپنی حفاظت میں رکھنا ۔ آمین
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.