قرآن مجید ہمارے لئے مشعل راہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
قرآن مجید نے زندگی کے ہر پہلو اور گوشے سے متعلق رہنمائی عطا کی ہے ۔ جن
قوموں نے قرآن پاک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا وہی عروج اور ترقی سے
ہمکنار ہوئیں اور جن قوموں نے قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کیا وہ ذلیل و خوار
ہو گئیں۔قرآنی احکام زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر حاوی ہیں ۔ معاشرت ،
تجارت ، سیاست ، تعلیم غرضیکہ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں کلام الہٰی ہماری
رہبری نہیں کرتا ۔ قرآن کریم ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کے لائے ہوئے
ضابطہ حیات میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔
افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے، اجتماعی زندگی کی درستگی
وخوبی اور اس کے پرسکون وخوشگوار بنانے کے لیے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہے،
خصوصاً نوجوان نسل کو ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہے، اگر معاشرے
میں ان صفات کا خیال نہ رکھاجائے تو اجتماعی زندگی پریشانی الجھن اور
مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے، پھر معاشرے کا وہی حشر ہوتا ہے آج مغرب جس
سے دوچار ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی وہ ساری خامیاں آہستہ آہستہ داخل
ہورہی ہیں۔
چونکہ جوان جس طرح گھر خاندان کا ایک فرد ہے اور گھریلوں وخاندانی ماحول کے
پرسکون بنانے کے لیے نوجوان کی ذمہ داریاں اس کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح گھر
خاندان کے دائرے سے آگے نوجوان اپنے گرد وپیش معاشرے کا بھی ایک فرد ہے؛
بلکہ صحت مند اور اسلامی معاشرے کے تشکیلی عناصر کا جزو لا ینفک ہے اور
معاشرے کی اصلاح اور اسلامی وخوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ
داری سب سے اہم ہے اس کے اسلامی کردار وگفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ کے
بغیر معاشرے کی اصلاح اور اسلامی معاشرے کا وجود ناکام وناتمام رہتا ہے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کو اچھے اخلاق وکردار کا خوگر بنانا
چاہتی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! انسان کو جو کچھ
عطا ہوا ہے، اس میں سب سے بہتر کیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب
میں فرمایا اچھے اخلاق!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں، جو اخلاق کے
اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں، بلاشبہ اخلاق کا مقام بہت بلند مقام ہے اور
انسان کی سعادت ونیک بختی، فلاح وکامرانی کے معراج میں اخلاق کابڑا اہم اور
خاص دخل ہے، کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔
اخلاق کی دولت سے بھرا ہے میرا دامن
گو پاس میرے درہم ودینار نہیں ہیں
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں، بزرگوں
کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، محتاجوں اور بے کسوں
کی دادرسی ہم عمروں کے ساتھ محبت والفت اور جذبہٴ ایثار وہمدردی کا سبق
دیتی ہے، معلم اخلاق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مَنْ لَمْ یَرْحَمْ
صَغِیْرَنَا وَلم یُوقِّرْ کَبِیْرَنَا لَیسَ مِنَّا“ (جو شخص چھوٹوں کے
ساتھ رحم اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں) بہ ظاہر یہ ایک
مختصرسی حدیث ہے؛ لیکن اپنے اندر ایسی وسعت وگہرائی رکھتی ہے کہ اگر ساری
کائنات اس حدیث پر عمل کرلے تو دنیا کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ظاہر ہے کہ
اگر ہر شخص اپنے چھوٹوں سے پیارو محبت، شفقت ورحم کا معاملہ اور نرمی کا
برتاؤ کرے اور ہر چھوٹا اپنے بڑوں کی عزت واحترام کو ملحوظ رکھے، ان کی
تعظیم وتکریم کرے تو جذبہٴ ایثار وہمدردی پروان چڑھے گا اور اس طرح معاشرہ
الفت ومحبت کا گہوارہ بن جائے گا۔
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے جذبہٴ ایثار اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح
دینے کی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، جس کی نظیر کسی دوسری قوم
ومذہب میں نہیں ملتی۔
انسانی معاشرہ افراد کے باہمی تعلقات اور روابط کا دوسرا نام ہے جو چند
اصولوں اور ضوابط کے تحت استوار ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی
معاشرے میں ان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کون سے اصول و ضوابط ہیں جن
کے تحت وہ پروان چڑھتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بندوں پر خالق کے حقوق
کیا ہیں ؟ اس کے بغیر معاشرے میں کسی نظم و ضبط کا تصور ہی نہیں ہو سکتا ۔
نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ یہ سب بندگی کے تقاضے ہیں کیونکہ خالق و مخلوق کے
درمیان حقوق کے بارے میں جب تک انسانی ذہن واضح نہ ہو تب تک بہت سی الجھنیں
پڑ جاتی ہیں ۔ جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نماز ، قربانی ، اس کا
جینا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے اور پھر ہر کام کو اللہ
تعالیٰ کی رضا پر چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک روحانی حصار میں اللہ
تعالیٰ کے مقررکردہ نظم وضبط کا پابند بنا لیتا ہے ۔ پھر اس کے بعد حقوق
العباد قرآنی احکام کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ اللہ اور بندے کے حقوق متعین
کرنے کے بعد بندوں کے باہمی تعلقات کو حقوق العباد کی لڑی میں پرودیا گیا
کہ ان پر کاربند ہونے سے ایک صحت مند اور امن و امان کا علمبردار معاشرہ
تشکیل پاتا ہے ۔ قرآن حکیم کی روشنی میں اولاد کے حقوق پر غور کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی اولاد کی محبت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے
احکام سے روگردانی کا موجب بن جائے تو پھر وہ فتنہ بن جاتی ہے ۔ دوسری طرف
بچوں کی تربیت ، تعلیم ،پرورش اور وراثت کے بارے میں صاف احکام موجود ہیں ۔
والدین پر ذمہ داریوں کے ساتھ اولاد سے بھی توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے
والدین کی خدمت کریں ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ان سے حسن سلوک سے پیش آنے کی
تلقین کی گئی۔
والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات کے بعد میاں بیوی کے تعلقات ایک صحت مند
معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں ان کے
بارے میں متوازن اور ہمہ جہتی راہ عمل کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ میاں کو بیوی
کا لباس قرار دیا گیا اور بیوی کو میاں کا ۔ پھر ان کے درمیان تعلقات کی
نوعیت کی وضاحت کر کے ان کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے چند اصول
بھی بنا دئیے گئے جو آئندہ نسلوں کی فلاح اور بہتری کے لئے بھی خوشگوار
اثرات پیدا کرتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجیدسے پہلے عورت کا
معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا ۔ قرآن مجید نے اس کو مقام بلند عطا فرمایا
اور عورت اور مرد کے درمیان فطری مساوات پید ا کی دی ۔ ماں او ر بیوی کے
معاشرے میں مقام متعین کرنے کے بعد عورت کو دنیا کی بہترین نعمت قرار دیا ۔
جہاں مردوں کو تحصیل علم کی ہدایت فرمائی وہاں عورتوں کو بھی اس سے محروم
نہیں رکھا گیا ۔ عورت کو وراثت کا حقدار ٹھہرایا مگر افسوس کہ ہم اپنی
تعلیمات کے روحانی ورثے کو چھوڑ کر دیگر تصورات کا شکار ہو گئے ۔ عورت کو
تشہیر کا ذریعہ بنا دیا گیا اور نسوانی وقار کو نام نہاد آزادی کی بھینٹ
چڑھا دیا جس سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو گیا ۔ قرآن کریم نے اپنے غلاموں سے
بھی حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ۔ قرآن کریم ہمسائیوں سے بھی حسن
سلوک کی توقع کرتا ہے ۔ مہمانوں کے بارے میں حکم ہے کہ ان سے محبت اور
ایثار سے پیش آئو ۔ اسی طرح مہمانوں سے بھی توقع کی گئی کہ وہ اپنے
میزبانوں سے حسن سلوک کریں ۔ یتیموں سے نیک سلوک کی بار بار تاکید کی گئی ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے گھر رات کو مہمان
آگیا، ان کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھاسکیں،
انھوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ بچوں کو کسی طرح سلادو اور گھر کا چراغ گل
کردو پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ جاؤ کہ مہمان سمجھے کہ ہم
بھی کھارہے ہیں؛ مگر ہم نہ کھائیں؛ تاکہ مہمان پیٹ بھر کھاسکے۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے چار سو دینار ایک تھیلی میں رکھ کر
غلام کے سپرد کیا کہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ کہ ہدیہ
ہے قبول کرکے اپنی ضرورت میں صرف کرلیں اور غلام کو ہدایت کردی کہ ہدیہ
دینے کے بعد کچھ دیر گھر ٹھہرجانا اور دیکھنا کہ ابوعبیدہ اس رقم کو کیا
کرتے ہیں، غلام نے حسب ہدایت یہ تھیلی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت
میں پیش کردی اور ذرا ٹھہر گیا،ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے تھیلی لے کر کہا
کہ اللہ ان کو یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا صلہ دے اور ان پر رحمت
فرمائے اوراسی وقت اپنی کنیز کو کہا کہ لو یہ سات فلاں کو پانچ فلاں شخص کو
دے آؤ، حتیٰ کہ پورے چار سو دینار اسی وقت تقسیم کردیے، غلام نے واپس آکر
واقعہ بیان کردیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی طرح چار سو دینار کی ایک
دوسری تھیلی تیار کی ہوئی غلام کو دے کر ہدایت کی کہ معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ کو دے آؤ اور وہاں بھی دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں، یہ غلام لے گیا،
انھوں نے تھیلی لے کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حق میں دعا دی ”رَحِمَہُ
اللّٰہُ وَ وَصَلَہ“ (اللہ ان پر رحمت فرمائے اوران کو صلہ دے) یہ بھی
تھیلی لے کر فوراً تقسیم کرنے کے لیے بیٹھ گئے اوراس کے بہت سے حصے کرکے
مختلف گھروں میں بھیجتے رہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ سب ماجرا
دیکھ رہی تھیں، آخر میں بولیں کہ ہم بھی تو بخدا مسکین ہی ہیں، ہمیں کچھ
ملنا چاہیے، اس وقت تھیلی میں صرف دو دینار رہ گئے تھے، وہ ان کو دے دیے
غلام یہ دیکھنے کے بعد لوٹا اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو آپ نے
فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں۔
غور کیجیے کہ ان نفوسِ قدسیہ کے اندر فقر وفاقہ اور اپنی ضرورت واحتیاج کے
باوجود اپنے دینی بھائی کی ضرورت وحاجت کو مقدم رکھنے اوراپنی بیوی بچوں کو
بھوکا سلادینے کی یہ صفات محمودہ صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی صحبت و تربیت سے آئی۔
اسی طرح کا واقعہ حضرت حذیفہ عدوی رضی اللہ عنہ کا ہے، فرماتے ہیں کہ میں
جنگ یرموک میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش شہداء کی لاشوں میں کرنے کے لیے
نکلا اور کچھ پانی ساتھ لیا کہ اگر ان میں کچھ جان ہوئی تو پانی پلادوں گا،
ان کے پاس پہنچا تو کچھ رمق زندگی کی باقی تھی، میں نے کہا کہ کیاآپ کو
پانی پلادوں، اشارے سے کہا کہ ”ہاں“ مگر فوراً ہی قریب سے ایک دوسرے شہید
کی آواز ”آہ آہ“ کی آئی تو میرے بھائی نے کہا کہ یہ پانی ان کو دے دو، میں
ان کے پاس پہنچا اورپانی دینا چاہا تو تیسرے آدمی کی آواز ان کے کان میں
پڑی، اس نے بھی اس تیسرے کو دینے کے لیے کہہ دیا، اسی طرح یکے بعد یگرے سات
شہیدوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا۔ جب ساتویں شہید کے پاس پہنچا تو وہ دم
توڑچکے تھے، یہاں سے اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔قرآن
کریم نے اشارہ کیاہے ”وَیُوٴْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہ
خَصَاصَة“ (اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ خود تنگدست
ہوں)
دینی اخوت، اسلامی ہمدردی و غمخواری، للہیت، الفت ومحبت دوسروں کی خبرگیری
و خیرخواہی اور بے غرضانہ تعاون یہ وہ اخلاق و اقدار ہیں، جن کے ذریعہ آپس
میں دل ایک دوسرے سے ملے رہتے ہیں، آپسی تعاون وہمدردی کا جذبہ پائیدار و
بیدار ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی کے حوالے ان اخلاق واقدار سے متصف ہوئے بغیر
”نسلِ نو“ ماحول ومعاشرہ میں اسلامی کردار کی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں
ہوسکتی، نئی نسل کی اولین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم اخلاقیات
سے آراستہ وپیراستہ ہوکر معاشرہ میں خود اس کاعملی نمونہ پیش کرے۔
انسانی معاشرہ افراد کے باہمی تعلقات اور روابط کا دوسرا نام ہے جو چند
اصولوں اور ضوابط کے تحت استوار ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی
معاشرے میں ان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کون سے اصول و ضوابط ہیں جن
کے تحت وہ پروان چڑھتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بندوں پر خالق کے حقوق
کیا ہیں ؟ اس کے بغیر معاشرے میں کسی نظم و ضبط کا تصور ہی نہیں ہو سکتا ۔
نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ یہ سب بندگی کے تقاضے ہیں کیونکہ خالق و مخلوق کے
درمیان حقوق کے بارے میں جب تک انسانی ذہن واضح نہ ہو تب تک بہت سی الجھنیں
پڑ جاتی ہیں ۔ جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نماز ، قربانی ، اس کا
جینا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے اور پھر ہر کام کو اللہ
تعالیٰ کی رضا پر چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک روحانی حصار میں اللہ
تعالیٰ کے مقررکردہ نظم وضبط کا پابند بنا لیتا ہے ۔ پھر اس کے بعد حقوق
العباد قرآنی احکام کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ اللہ اور بندے کے حقوق متعین
کرنے کے بعد بندوں کے باہمی تعلقات کو حقوق العباد کی لڑی میں پرودیا گیا
کہ ان پر کاربند ہونے سے ایک صحت مند اور امن و امان کا علمبردار معاشرہ
تشکیل پاتا ہے ۔ قرآن حکیم کی روشنی میں اولاد کے حقوق پر غور کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی اولاد کی محبت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے
احکام سے روگردانی کا موجب بن جائے تو پھر وہ فتنہ بن جاتی ہے ۔ دوسری طرف
بچوں کی تربیت ، تعلیم ،پرورش اور وراثت کے بارے میں صاف احکام موجود ہیں ۔
والدین پر ذمہ داریوں کے ساتھ اولاد سے بھی توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے
والدین کی خدمت کریں ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ان سے حسن سلوک سے پیش آنے کی
تلقین کی گئی۔
والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات کے بعد میاں بیوی کے تعلقات ایک صحت مند
معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں ان کے
بارے میں متوازن اور ہمہ جہتی راہ عمل کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ میاں کو بیوی
کا لباس قرار دیا گیا اور بیوی کو میاں کا ۔ پھر ان کے درمیان تعلقات کی
نوعیت کی وضاحت کر کے ان کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے چند اصول
بھی بنا دئیے گئے جو آئندہ نسلوں کی فلاح اور بہتری کے لئے بھی خوشگوار
اثرات پیدا کرتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجیدسے پہلے عورت کا
معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا ۔ قرآن مجید نے اس کو مقام بلند عطا فرمایا
اور عورت اور مرد کے درمیان فطری مساوات پید ا کی دی ۔ ماں او ر بیوی کے
معاشرے میں مقام متعین کرنے کے بعد عورت کو دنیا کی بہترین نعمت قرار دیا ۔
جہاں مردوں کو تحصیل علم کی ہدایت فرمائی وہاں عورتوں کو بھی اس سے محروم
نہیں رکھا گیا ۔ عورت کو وراثت کا حقدار ٹھہرایا مگر افسوس کہ ہم اپنی
تعلیمات کے روحانی ورثے کو چھوڑ کر دیگر تصورات کا شکار ہو گئے ۔ عورت کو
تشہیر کا ذریعہ بنا دیا گیا اور نسوانی وقار کو نام نہاد آزادی کی بھینٹ
چڑھا دیا جس سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو گیا ۔ قرآن کریم نے اپنے غلاموں سے
بھی حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ۔ قرآن کریم ہمسائیوں سے بھی حسن
سلوک کی توقع کرتا ہے ۔ مہمانوں کے بارے میں حکم ہے کہ ان سے محبت اور
ایثار سے پیش آئو ۔ اسی طرح مہمانوں سے بھی توقع کی گئی کہ وہ اپنے
میزبانوں سے حسن سلوک کریں ۔ یتیموں سے نیک سلوک کی بار بار تاکید کی گئی ۔ |