تحریر:محمد نفیس دانش
یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ شادی چاہے گھر والوں کی مرضی سے ہو یا آپس
میں پیار و محبت کے بلند بانگ دعوے، وعدے اور قسمیں کھانے کے بعد ہو، انسان
کی زندگی ایک نئے موڑ میں داخل ہو جاتی ہے اور ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ
جس سے شادی کرے وہ اس کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دے۔ تو پھر اکثر
شادیاں ناکام کیوں ہو جاتی ہیں؟
یہاں کچھ لوگوں کے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں بیان کرنے کا مقصد صرف
یہ ہے کہ میرے وہ بہن بھائی جن کی شادی مستقبل قریب یا بعید میں ہونے جا
رہی ہے انہیں اچھی صلاح دینا ہے اور جو لوگ شادی کے بعد کسی بھی غلط فہمی
کا شکار ہیں ان کے رشتے کو جوڑنا اور دلوں کو پھر سے ملانا ہے۔ ویسے تو
شادی ناکام ہونے کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن مختصراً یہاں صرف چند
خاص خاص باتوں کی طرف آپ کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ مبالغہ آرائی:
ہمارے ہاں اکثر جو لوگ رشتہ مانگنے یا دینے جاتے ہیں وہ اپنے لڑکے یا لڑکی
کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں مبالغہ آرائی کا بے دریغ
استعمال کرتے ہیں اور جو خصوصیات ان میں نہیں ہوتیں انہیں بھی ’’مکھن‘‘ لگا
کر پیش کرتے ہیں تاکہ کسی بھی طرح رشتہ ہو جائے۔ شادی ناکام کرنے میں یہ سب
سے پہلی اور سب سے بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ جس رشتے کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہوگی
وہ بھلا کیسے زیادہ دیر قائم رہ سکتا ہے؟ ظاہر سی بات ہے جب شادی کے بعد
میاں بیوی ایک دوسرے میں ان ’’خصوصیات‘‘ کو نہیں پائیں گے تو پھر غلط
فہمیاں اور جھگڑے تو ہوں گے۔
2۔ شادی سنت یا جہیز؟:
لڑکے والوں کے لیے رشتہ طے کرنے سے پہلے یہ فیصلہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ
وہ شادی سنت سمجھ کے کرنے جا رہے ہیں یا گھریلو سامان پانے کی خاطر محض
جہیز ہی چاہیے؟ کیونکہ اکثر جب لڑکی والے ’’مطلوبہ‘‘ جہیز نہیں دے پاتے تو
بات طعنوں اور جھگڑوں سے شروع ہوتی ہے اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
3۔ جھوٹے وعدے، غلط توقعات:
شادی کے بعد زوجین (میاں، بیوی) کا ایک دوسرے سے وعدے کرنا اور انہیں پورا
نہ کرنا اور اسی طرح ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کر لینا اور ان کی پرواہ
نہ کرنا۔ بہت سنگین وجہ ہوتی ہے شادی کو ناکام کرنے کے لیے۔ اس لیے کبھی
ایسا وعدہ نہ کریں جو پورا نہ کر سکیں اور جائز حد تک جتنا ہو سکے ایک
دوسرے کی توقعات پر پورا اتریں۔
4۔ منصوبہ بندی کا فقدان:
شادی کسی بھی ذمہ دار انسان کے لیے ایک مکمل ضابط حیات ہوتی ہے اور ہر
انسان کو چاہیے کہ اِس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرے جن میں ازدواجی
معاملات، گھریلو معاملات اور اخراجات کے معاملات سرفہرست ہوتے ہیں۔ اِن سب
معاملات سے لاپرواہی بھی دلوں میں دوری پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔
5۔ رشتے سے انصاف:
چونکہ شادی سنت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہے تو اِس لیے اِسے مذاق بالکل
نہیں سمجھنا چاہیے اور میاں، بیوی کو چاہیے کہ زندگی میں کبھی بھی اِس رشتے
سے دھوکہ نہ کریں اور جتنا ہو سکے ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہیں۔ کامیاب
شادی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ یہ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر بھروسے، اور
یقین پر قائم ہوتی ہے۔
6۔ مساوات:
شادی کے نازک بندھن میں بندھنے کے بعد میاں بیوی کو یہ یقین کر لینا چاہیے
کہ وہ ایک دوسرے کے لیے برابر ہیں۔ جتنی عزت شوہر اپنے لیے چاہتا ہے اْتنی
ہی عزت بیوی بھی چاہتی ہے۔ اسی طرح شریک حیات ہونے کے ناتے جتنے حقوق میاں
کے ہیں، بیوی کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں اور جتنے فرائض بیوی کے ذمے ہیں اتنے
ہی فرائض میاں کے ذمے بھی ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا سب سے نازک ترین رشتہ ہوتا
ہے۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی کی چنگاری، آگ لگانے کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن
اگر میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہوئے کسی بھی بیرونی سازش کا شکار
نہ ہوں تو انہیں دنیا کی کوئی طاقت الگ نہیں کر سکتی۔
|