چنددن قبل چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طاروق بنوری
کاایک بیان نظرسے گزراجس میں انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم
بہتر نہ ہونے کی ایک جہ یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت ہے۔سیاسی مداخلت سے
یونیورسٹیوں کی خود مختاری ختم ہوجاتی ہے جس سے معیار تعلیم متاثر ہوتا ہے۔
وائس چانسلروں کی تقرری اگر میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوگی تو لازما
معیار تعلیم متاثر ہوتا ہے۔
میرپوریونیورسٹی آف سائنس اینڈٹیکنالوجی(مسٹ )کے وائس چانسلرکی تعیناتی میں
بھی وہی گل کھلائے گئے جس کی طرف ایچ ای سی کے چیئرمین نے اشارہ کیاہے مسٹ
یونیورسٹی طریقے سے میرپ کی پامالی کی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی حالانکہ
صدرریاست سردارمسعودخان جوکہ آزادکشمیرکے یونیورسٹیوں کے چانسلربھی ہیں ان
سے اس قسم کے کردارکی توقع نہیں کی جارہی تھی ایک شخص کونوازنے کے لیے تمام
قواعدواصول بالائے طاق رکھ دیئے گئے ہیں اوراس ایک شخص کویونیورسٹی کے لیے
ناگزیرسمجھاجارہاہے حالانکہ وہ شخص میرٹ لسٹ میں تھاہی نہیں ۔ 28اکتوبر
2013کوپروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان نے بطو روی سی یونیورسٹی کاچارج سنبھالا
۔2017میں ان کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں مزیدایک سال کے لیے توسیع دی گئی
،جواکتوبر2018میں ختم ہوگئی جس کے بعد پہلے 70دن اوربعدازاں مزیدایک ماہ کی
توسیع دی گئی یوں موصوف کوتین بارتوسیع دی گئی ۔
نئے و ی سی کی تلاش کے لیے سرچ کمیٹی بنائی گئی سرچ کمیٹی نے ٹیسٹ
انٹرویوزکے بعدتین نام ڈاکٹر اقرار احمد پہلے ڈاکٹر یونس دوسرے اور ڈاکٹر
زکریا تیسرے نمبرپرآنے والوں کے نام صدرمملکت کوبھجوادیئے ۔ سپریم کورٹ آف
پاکستان نے واضح رولنگ دے رکھی ہے کہ وی سی سرچ کمیٹی میں پہلے 3 نمبروں
میں سے اعلی میرٹ والے امیدوار کو ہی وائس چانسلر تعینات کیا جائیگا اور یہ
تقرری تین ہفتوں کے اندر ہوگی۔اس لسٹ میں ڈاکٹرحبیب الرحمن کانام ہی موجود
نہیں تھا مگروہ بضدتھے کہ انہیں ہرصورت دوبارہ وی سی مسٹ تعینات کیاجائے اس
کے لیے انہوں نے مختلف حربے استعمال کرناشروع کیے ۔
محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن آزادکشمیر نے صدارتی سیکرٹریٹ کی تجویز
پر 15 فروری 2019 کو نئے وائس چانسلر کے طور پر پروفیسرڈاکٹر اقرار احمد
خان کو تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔جس میں انہیں ابتدائی طور پر تین
سال کیلئے تعینات کیا گیا تھا جبکہ جوائننگ کی مدت کا کہیں ذکر نہیں کیا
گیا تھا۔ اب یہاں سے بلی چوہے کاکھیل شروع ہوا نوٹیفکیشن کے صرف 9 دن بعد
ہی صدارتی سیکرٹری نے ڈاکٹراقرارکو ایک لیٹر بھیجا جس میں لکھا گیا کہ آپ
نے اب تک یونیورسٹی میں جوانئنگ نہیں دی، ہمیں اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے
کہ آپ کو فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں تعینات کیا جا رہا ہے جسکی وجہ سے
آپ مسٹ یونیورسٹی نہیں آرہے ہیں ، لہذا ایک دن میں آکریونیورسٹی جوائن کریں
۔جس پرڈاکٹراقرارنے جواب دیا کہ مجھے ایک ہفتے کی مہلت دیں تا کہ میں فیصل
آباد زرعی یونیورسٹی میں جاری اپنی مصروفیات کو نمٹا کر جوائن کر سکوں۔
1مارچ کو صدارتی سیکرٹری ادریس عباسی کی طرف سے ایک اور لیٹر بھیجا گیا جس
میں ڈاکٹراقرارکو لکھا کہ آپ کو مزید وقت کی مہلت نہیں دی جا سکتی ۔
ایک طرف ناجائزذرائع کی معلومات سے یہ خطوط لکھے جارہے تھے تودوسری طرف
سابق وائس چانسلرڈاکٹرحبیب الرحمن اپناکھیل کھیل رہے تھے حالانکہ وہ اس
کھیل میں شامل ہی نہیں تھے ڈاکٹر حبیب الرحمان نے ڈاکٹراقرارکی تعیناتی کے
خلاف ہائی کورٹ میں دو رٹ پٹیشن دائر کر دیں۔ عدالت کی طرف سے 19 فروری کو
کیس کی سماعت میں ڈاکٹراقرارکوپیش ہونے کا کہا گیا حالانکہ ڈاکٹراقراراس
معاملے میں فریق ہی نہیں تھے کیوں کہ ان کی تعیناتی میرٹ پرہوئی تھی ۔
ڈاکٹر اقرار احمد خان نے ہمارے صحافی دوست خواجہ کاشف میرسے گفتگوکرتے ہوئے
کہاہے کہ اس تمام صورتحال میں صدارتی سیکرٹریٹ پوری طرح ڈاکٹر حبیب کے ساتھ
کھڑا نظر آیا ، صدارتی سیکرٹری سمیت دیگر لوگوں کو میں نے کہا کہ میرا ان
کیسز سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میں جائننگ سے قبل عدالتوں میں پیشیاں
دیکر ذلیل ہونا چاہتا ہوں ، لہذا ڈاکٹر حبیب کو کہیں کہ میرے خلاف وہ اپنی
پٹیشن واپس لے تب میں آ کر جائیننگ دوں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر
اقرار نے بتایا کہ 5 مارچ کو مظفرآباد میں صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان
سے ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ 2 دن میں
اپنی یونیورسٹی سے این او سی لیکر آئیں اور آکر جائننگ دیں۔ میں نے انہیں
بتایا کہ سرکاری ملازمین کو این او سی لینے کی قانونی عمر 62 سال ہے اور اس
وقت میری عمر 65سال ہے لہذا مجھے این او سی لینے کی ضرورت نہیں رہی۔ میں نے
چانسلر کو یہ بھی بتایا کہ جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس میں بھی کسی
این او سی کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے میرے خلاف دائر ناجائز پٹیشنز کو واپس
کرایا جائے اور مجھے مزید کچھ دن کی مہلت دی جائے تا کہ میں یونیورسٹی کو
جائن کر سکوں،چانسلر نے میری درخواست مسترد کر دی۔
ڈاکٹر اقرار نے بتایا کہ میری تعیناتی کے نوٹیفکیشن کے بعد سے لیکر ڈاکٹر
حبیب کے وائس چانسلر تعینات ہونے تک آزادکشمیر کا صدارتی سیکرٹریٹ مکمل
پارٹی بنا رہا ، کسی کی بھی کھلے دل سے خواہش نہ تھی کہ میں بطور وائس
چانسلر مسٹ یونیورسٹی جائن کروں اور وہاں بہتر کام کر سکوں اس لیے سب نے
ملکر میرے لیے مسائل پیدا کیے ۔ڈاکٹر اقرار نے بتایا کہ میں نے چانسلر
جامعات سردار مسعود خان کو 2 مارچ کو ایک مکتوب لکھا صدارتی سیکرٹریٹ کی
طرف سے مجھے 25 فروری اور 1 یکم مارچ کو لکھے گئے خطوط اپنے سیریل نمبر کی
وجہ سے مشکوک معلوم ہوتے ہیں ، چانسلر سے درخواست کی کہ مجھے اجازت دیں تا
کہ میں مسٹ یونیورسٹی جائن کر سکوں لیکن میری اپیل کا تحریری جواب نہیں دیا
گیا۔ڈاکٹر اقرار نے بتایا کہ میں نے 14 مارچ کو چانسلر جامعات کو ایک اور
خط لکھا کہ 2 مارچ اور 6 مارچ کو میں نے ذاتی حیثیت میں صدارتی سیکرٹریٹ
میں صدارتی سیکرٹریٹ سے ملاقات کی اور جناب چانسلر سے بھی ملاقات کی ۔ میں
نے جائننگ کیلئے دستیابی کا بھی بتایا لیکن 11مارچ کو ایک نوٹیفکیشن جاری
کیا گیا جس میں رجسٹرار ڈاکٹر مقصود احمد کو قائم مقام وی سی مسٹ کا چارج
دے دیا گیا میں نے اس خط میں صدر آزادکشمیر کو لکھا تھا کہ مجھے یونیورسٹی
جائن کرنے کا اجازت نامہ دیا جائے لیکن مجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اب طرفہ تماشایہ دیکھیے کہ اگرڈاکٹراقرارجوائننگ نہیں دے رہے تھے تو سرچ
کمیٹی کی سفارشات کے مطابق دوسرے اورتیسرے نمبرپرآنے والوں سے رابطہ
کیاجاناچاہیے تھامگران سے رابطہ نہیں کیاگیا کیوں کہ حبیب الرحمن کوہرصورت
مسلط کرناتھا مزیدیہ کہ سرچ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق پہلے تین نمبرزپرآنے
والے موجود نہیں تھے تو ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق دوبارہ سرچ کمیٹی
بنائی جانالازمی تھی جونئے سرے سے ٹیسٹ انٹرویوکرتی مگریہاں یہ تکلف بھی
گوارہ نہیں کیاگیا طے شدہ پلان کے مطابق صدارتی سیکرٹریٹ کی تجویز پر 18
مارچ 2019 کو ڈاکٹر حبیب الرحمان کو ایک مرتبہ پھر وائس چانسلر تعینات کرنے
کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیاحالانکہ راجہ حبیب الرحمن پرالزام ہے کہ انہوں
نے ا پنی پچھلی تعیناتی کے دوران اقرباپروری کوفروغ دیااورمیرٹ کوپامال
کرتے ہوئے اپنی اہلیہ اوردیگررشتے داروں کویونیورسٹی میں بھرتی کیا ۔جس کے
خلاف احتساب بیورمیں کیس بھی چل رہاہے ۔لیکن مال اورسرکارکی طاقت کے آگے
میرٹ کی طاقت کچھ بھی نہیں اسی کی دہائی ایچ ای سی اے کے چیئرمین کررہے تھے
کہ اداروں میں سیاسی مداخلت ہورہی ہے ۔ |