غیبت کرنے اور سننے کا مشغلہ بھی ان گناہوں میں سرفہرست
ہے جنہیں آج کے مسلمان نے گناہوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ آج بدقسمتی سے
یہ گناہ ہماری مجلسوں کا لازمی جزء بن چکا ہے ،غیبت کے بغیر گویا محفلیں بے
رونق اور پھیکی ہیں ،اس لئے جہاں بھی دوشخص مل بیٹھیں گے کسی تیسرے کی غیبت
شروع کردیں گے ،مزے لے لے کر کریں گے ،اس طرف خیال تک نہیں جاتا کہ اتنے
بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں ،ایک تو اعلانیہ گناہ دوسرا اس کے گناہ ہونے
کا احساس تک نہیں ۔ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کس
کوکہتے ہیں ․․․؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کا حال ایسا بیان کرئے
جو اگر وہ سُنے تو اس کو بُرا معلوم ہو وہ بولا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اگرچہ سچ ہو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر جھوٹ ہو تو وہ بہتان
ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی ہے کہ:
’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو ،کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے
ہیں اور سراغ مت لگایا کرواور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرئے کیا تم
میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے تم کو اس سے
گھن آئے گی اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو بے شک اﷲ توبہ قبول کرنے والا مہربان
ہے ۔‘‘(الحجرات )
فائدہ : آیت بالا میں مسلمان کی آبرو ریزی کو اس سے گوشت کھانے کے ساتھ
تشبیہ دی ہے اور اس عمل کو حرام قرار دیا جارہا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص دنیا میں اپنے مسلمان
بھائی کا گوشت کھائے گا یعنی غیبت کرے گا قیامت کے دن مردار کا گوشت اس کے
سامنے رکھا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ جیسے تو نے زندہ کو کھایا تھا
اب مردہ کو بھی کھا، وہ شخص اسے کھائے گا اور ناک بھوں چڑھاتا جائے گا اور
شور مچاتا جائے گا ۔‘‘( رواہ ابو یعلیٰ ،بخوالہ غیبت پر عذاب )
’’اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : جس بات کی تم کو خبر نہ ہو اس کے پیچھے نہ
پڑو کیونکہ کان ،آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے
۔‘‘( الاسراء )
مطلب یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے کسی بات پر عمل نہ کیا جائے اور اگر بے تحقیق
کسی پر الزام لگایا تو اگر وہ اسی چیز سے متعلق ہے جو کا ن سے سُنی جاتی ہے
،تو اب کان سے سوال ہوگا اور اگر آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہے توآنکھ سے اور
اگر دل سے سمجھنے کی چیز ہے تو دل سے سوال ہوگا ۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ آیت
کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کان سے سوال ہوگا کہ تم نے اس کان سے عمر بھر
میں کیا کیا سُنا ․․․․؟اور آنکھ کے بارے میں سوال ہوگا کہ تم نے عمر بھر
میں کیاکیا دیکھا ․․․․؟اور دل سے سوال ہوگا کہ تم نے عمر بھر میں کیسے کیسے
خیالات قائم کئے ․․․․؟
’’ اﷲ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے : وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا
مگر اس کے پاس ہی ایک تاکنے والا تیار ہے ۔‘‘( ق ٓ: ۱۸)
غیبت کی تعریف
’’ مطلب بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم سے غیبت کس کو کہتے ہیں ․․․․؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کا
حال ایسا بیان کرئے جو اگر وہ سُنے تو اس کو بُرا معلوم ہو وہ بولا یا رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اگرچہ سچ ہو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر جھوٹ
ہو تو وہ بہتان ہے ۔‘‘
فائدہ :یعنی غیبت تو اسی کو کہتے ہیں کہ سچ سچ کہے پیٹھ پیچھے یہی بڑا گناہ
ہے اگر جھوٹ کہے گا تو معاذاﷲ اور زیادہ گنہگار ہوگا وہ بہتان ہے ۔(
مؤطاامام مالک مترجم ص ۶۸۹)
’’ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا اے لوگو جو زبانی تو ایمان لے آئے لیکن ایمان جن دلوں میں داخل نہیں
ہوا تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور نہ ان کی عزت کے درپے رہا کرو،
کیونکہ جو اُنہیں بے عزت کرئے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی عزت کے پیچھے پڑ جائے
گا تو جس کے اﷲ تعالیٰ پیچھے پڑجائے اس کو گھر میں بھی ( بیٹھے ہوئے کو )
ذلیل کردے گا ۔‘‘( ابوداؤد)
یہ کون لوگ ہیں ․․․․؟
’’ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
جب مجھے معراج کروائی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے
کے تھے اور ان کے ساتھ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچتے تھے میں نے کہا اے
جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ․․․․․؟کہا کہ یہ ایسے آدمی ہیں جو لوگوں کا گوشت
کھاتے اور انکی بے عزتی کرتے ہیں ․․․․الخ(ابوداؤد)
غیبت زنا سے بھی بدتر
’’ اور حضرت ابو سعید ؓ اور جابر ؓ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے ۔صحابہ
ؓ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اﷲ غیبت زنا سے زیادہ سخت بُرائی کس طرح
سے ہے ․․․․․؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے
تو توبہ کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور ایک روایت
میں یہ الفاظ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے لیکن
غیبت کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ
کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے ۔اور حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لئے
توبہ نہیں ہے ۔(ان تینوں روایتوں کو بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے
)
غیبت کے زنا سے بدتر ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ زنا خفیہ گناہ ہے اور غیبت
سب کے سامنے علانیہ کی جاتی ہے ،اور جو گناہ علانیہ کیا جائے وہ پوشیدہ
گناہ سے زیادہ بُرا ہے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری پوری
اُمت لائق عفو ہے مگر علانیہ گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا
۔‘‘( بخاری ومسلم)
غیبت مفسد روزہ
’’اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) دو آدمیوں نے جوروزہ دار تھے
( نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے) ظہر یا عصر کی نماز پڑھی جب نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں
دوبارہ وضوکرو اپنی اس نماز کو لوٹاؤ اور اپنے اس روزے کو پورا کرو اور اس
کے بدلے میں احتیاطاً دوسرے دن روزہ رکھ لو ،ان دونوں نے ( یہ سُن کر ) عرض
کیا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم ) ایسا کیوں ․․․․؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے ۔‘‘( مظاہرحق ج۴ص ۴۴۲)
نوٹ:اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت وضو اور روزے کو توڑ دیتی
ہے لیکن علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دراصل غیبت کی شدید مذمت اور
غیبت کرنے والے کے حق میں سخت ترین زجر وتنبیہ کے طور پر ارشاد ہوئی ہے ۔لیکن
حضرت سفیان ثوری ؒ کے نزدیک غیبت مفسدِ روزہ ہے ۔بہر حال حدیث سے یہ بات
یقیناً واضح ہوتی ہے کہ غیبت کی قباحت اور بُرائی بہت زیادہ ہے اور احتیاط
وتقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ اگر غیبت صادر ہوجائے تو وضوکی تجدید کرنی چاہئے
۔(ملخص از مظاہر حق ج۴ص ۴۴۲)
غیبت پر عذاب قبر
’’ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے
فرمانے لگے ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کوئی بڑے گناہ میں یہ عذاب
نہیں ہورہاہے بات یہ کہ ان میں ایک شخص تو پیشاب کرتے وقت آڑ نہیں کرتا تھا
( یا پیشاب سے پاکی اچھی طرح نہیں کرتا تھا )دوسرا چغل خور تھا ( لوگوں کی
غیبت کرتا تھا ) اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی منگوائی اس
کو چیر کے دو کر کے آدھی ایک قبر پر گاڑی آدھی دوسری قبرپر فرمایا جب تک یہ
ٹہنیاں نہ سوکھیں شاید ان کا عذاب ہلکا رہے ۔‘‘
( تیسرالباری ’شرح بخاری ‘ج۵ غیبت کا بیان ص ۵۹۱)
غیبت یہ بھی ہے
جیسے صریحاً زبان سے غیبت ہوتی ہے ویسے ہی فعل سے اور تعریض یعنی قول غیر
صریح سے اور لکھنے اور حرکت سے اور اعضاء کے اشارہ کرنے سے بھی غیبت ہوتی
ہے اور جس چیز سے مقصود مفہوم ہو سو وہ غیبت میں داخل اور حرام ہے ۔غیبت
فعلی جیسے کسی کے قد اور افعال کی نقل کرنا اورتعریض جیسے یوں کہنا کہ میں
طفیلی نہیں ہوں ۔
دلیل :’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ایک عورت ہمارے پاس
آئی پھر جب وہ پلٹ گئی تو میں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا یعنی وہ ٹھگنی ہے
تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کی غیبت کی ۔‘‘
اور اسی غیبت فعلی سے حکایت اور نقل کرنا ہے چنانچہ لنگڑا کر چلنا یا جس
طرح کے وہ چلتا ہو نقل کرنا بھی غیبت ہے ۔بلکہ غیبت فعلی بدتر ہے غیبت قولی
سے اس واسطے کہ وہ تصویر اور تفہیم میں زیادہ تر اور عظیم تر ہے قولی سے ۔(
دُرمختار ترجمہ اُردو ج ۴ ص ۲۶۳)
غیبت فعلی غیبت قولی سے بد تر
اسی طرح چشم وابرو کے اشارہ سے کسی کے عیب کی پردہ دری کرنا بھی غیبت ہے
اور قرآن پاک میں متعدد آیتوں میں غیبت ہی کے ان مخفی طریقوں کی بُرائی
بیان کی ہے ۔
ھَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِیْم ( القلم :۱۱)[لوگوں ]پر آواز ے کسا کرتا ہے،
چغلیاں لگاتا پھرتا ہے ۔وَیْلُ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ( الھمزۃ : ۱)
ہر شخص جو [لوگوں کی] عیب چینی کرتا (اور ان پر ) آوازے کستا ہے اس کی (بھی
بڑی ) تباہی ہے ۔ان آیتوں میں غیبت کے مخفی اور دلخراش طریقوں کی مذمت کی
گئی ان کی توضیح ترجمہ سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لئے اہلِ لغت کی تصریحات
پیش نظر رکھنی چائیں جو حسب ذیل ہیں۔(۱) ھمز سامنے اور لمز پیٹھ پیچھے
بُرائی کرنا (۲) ھمز خاص طور پر لوگوں کے نسب کی بُرائی بیان کرنا ۔(۳) ھمز
ہاتھ کے اشارے سے اورلمز زبان سے غیبت کرنا ۔(۴) ھمز زبان سے اور لمز آنکھ
کے اشارے سے غیبت کرنا ۔(۵)ھمز بُرے الفاط سے ہم نشینوں کی دل آزاری کرنا
۔(۶)لمز آنکھ ،ہاتھ، سر اور ابرو کے اشارے سے ہم نشینوں کی بُرائی بیان
کرنا ۔اس تشریخ سے معلوم ہوگیا کہ غیبت کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے ۔
( سیرت النبی ﷺعلامہ شبلی نعمانی ؒج ۶ ص ۴۲۶)
عزت کا ڈاکو
شرعاً وعقلاًچھ چیزوں کی حفاظت ضروری ہے ۔
(۱) ایمان : سب سے پہلے ایمان کی حفاظت کا درجہ ہے ، اس کے لئے خواہ جان
عزت اور مال سب کچھ قربان کرنا پڑے تو بھی ایمان کی حفاظت فرض ہے ۔
(۲) جان : دوسرے نمبر پر جان کی حفاظت ہے ۔
(۳) عقل : تیسرے نمبر پر عقل کی حفاظت ہے ۔
(۴) نسب : چوتھے نمبرپر نسب کی حفاظت ہے ۔
(۵) عزت : پانچویں نمبر پر عزت کی حفاظت کا حکم ہے ۔
(۶) چھٹے نمبر پر جاکر کہیں مال کی حفاظت کا حکم ہے ۔
اب سوچیں کہ جو شخص کسی کے مال کو نقصان پہنچاتا ہے ،اسے بہت بُرا بھلا کہا
جاتا ہے کہ یہ بڑا ظالم ہے ،ڈاکو ہے ، لیکن جو شخص کسی کی غیبت کرتا ہے ،وہ
اس کی عزت کو نقصان پہنچاتا ہے ،مالی نقصان پہنچانے والا تو اس کے مال کا
ڈاکو ہے ،اور غیبت کرنے والااس سے زیادہ قیمتی چیز یعنی اس کی عزت کا ڈاکو
ہے ،تو غور کریں کہ مال کا ڈاکو زیادہ بُرا ہے یا عزت کا ڈاکو ․․․․؟ ( غیبت
پر عذاب ص ۲۴)
غیبت تو کافر کی بھی جائز نہیں
انماالمؤمنون اخوۃ ’’ سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ‘‘۔لہٰذا
اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت مت کرو بلکہ یہ تو حقوق انسانیت میں سے ہے ،اسی
لئے کسی کافر کی بھی غیبت جائز نہیں۔جو کسی کی غیبت کرے گا اس نے اتنا بڑا
گناہ اور اتنا قبیح اور بُرا کام کیا کہ گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت
کھایا ۔کیا کوئی یہ پسند کرسکتا ہے کہ وہ کسی انسان کا گوشت کھائے پھر وہ
بھی مردہ اور اپنے مسلمان بھائی کا ․․․․؟جب یہ کام کسی کے نزدیک بھی پسند
یدہ نہیں بلکہ بہت ہی مذموم اور دائراہ انسانیت سے خارج ہے تو کسی کی غیبت
کرنا کیونکر پسندیدہ اور دائرہ انسانیت میں داخل ہوسکتا ہے ․․․․؟
اور طحطاوی نے کہا مسلمان کی قید اخترازی نہیں ذمی (کافر) کی بھی غیبت حرام
ہے اور جو حکم مردوں میں ثابت ہے وہ عورتوں کے لئے بھی ثابت ہے اور جس طرح
غیبت کرناحرام ہے اسی طرح اس کا سننا بھی حرام ہے ۔حق تعالیٰ اس بلائے عام
سے ہمیں نجات بخشے ۔آمین ۔( دُر مختار ترجمہ اُردو ج ۴ ص ۲۶۳)
جاری ہے ․․․․․․․․․․․․
|