وزیرِاعظم جیسنڈا آرڈرن کے اعلان پر عمل درآمد کرتے
ہوئے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں سے
اظہارِ یکجہتی کے لیے جمعے کی اذان نیوزی لینڈ میں ٹی وی اور ریڈیو پر براہِ
راست نشر کی گئی۔ دو منٹ کی خاموشی اور سب سے بڑھ کر حدیث نبوی ﷺ پڑھ کر جو
اسلام کا پیغام دیا وہ مثالی تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم نے مسلم امہ کے
ساتھ جس طرح اظہار یکجہتی کیا، وہ اس قدر متاثر کن ہے کہ اس کے لیے انہیں
جتنا خراجِ تحسین پیش کیا جائے، وہ کم ہے۔ انہوں نے جنونی سفید فام دہشت
گرد کے حوالے سے واضح طور پرکہا کہ اس کو شناخت بھی نہیں دی جائے گی۔ دہشت
گرد شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا، اسے دہشت گرد ہونے کی حیثیت سے شہرت تو مل
گئی، لیکن نیوزی لینڈ میں شہداء و زخمیوں کے اہل خانہ نے بھی جس رویے کا
اظہار کیا، وہ دنیا بھر کے لیے اسلام کا ایک ایسا پُرامن و سلامتی کا پیام
تھا، جس نے نیوزی لینڈ ہی نہیں بلکہ اقوام عالم میں مسلمانوں کو شدت پسند
سمجھنے والوں کے سر شرمندگی سے جھکادیے۔ جیسنڈا آرڈرن کا پارلیمنٹ میں خطاب
انتہائی متاثر کن و پُرخلوص اور دلی دکھ کا عکاس تھا۔ ان کے سوگواران سے
ملنے اور سانحے پر حفاظت نہ کیے جانے پر اظہار ندامت نے ہمارے سر بھی
جھکادیے کہ اسلام یہی تو درس دیتا ہے کہ اگر فرات کنارے کوئی کتا بھی بھوکا
مرے گا تو ریاست کا حکمراں جواب دہ ہوگا۔
مسلم اکثریتی ممالک نے صرف مذمتی بیانات جاری کیے، ایک منٹ کی خاموشی
اختیار کی اوراس کے بعد اس طرح مشغول ہوگئے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
مسلم ممالک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسلک، فرقے کی بنیاد پر ماررہا
ہے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان مہاجرین مسلمانوں نے اپنے وطن کو کیوں چھوڑا۔
لاکھوں مسلم، مہاجرین بن کر تکالیف تو سہہ ہی رہے تھے، اب دہشت گردی کا
نشانہ بھی بننے لگے ہیں۔ مسلم ممالک کہلانے والوں کے شہریوں نے اپنے وطن کو
روزگار کے لیے خیرباد کہا یا پھر اپنے ملک میں جاری بے امنی کے سبب ایسے
ممالک گئے، جہاں انہیں اُنہوں نے وہ تحفظ دیا جو مسلم اکثریتی ممالک دینا
ہی نہیں چاہتے۔
ہیلو برادر کہہ کر دروازہ کھولنے والے شہید کو علم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد
کے لیے اﷲ کے گھر کا دروازہ کھول رہا ہے۔ آج نیوزی لینڈ سے ناقابل فراموش
واقعات سامنے آرہے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔
کھانے کی کمی پر ایک شہری نے اپیل کی تو سارا شہر امڈ آیا۔ یہاں تک اپیل
کرنی پڑی کہ اب کھانے کی ضرورت نہیں۔ کسی خاتون نے کہا کہ اگر کسی مسلم
خاتون کو کوئی خوف ہو تو میں اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔ زخمیوں و
شہداء کے اہل خانہ کے لیے ذاتی حیثیت میں سوشل میڈیا پر مالی امداد کی اپیل
ہوئی نہیں تھی کہ لاکھوں ڈالرز کے ڈھیر لگ گئے۔ صحافی جب کسی متاثرہ خاندان
سے سوال جواب کرتے ہوئے اُن کا عزم دیکھتے تو آبدیدہ ہوکر گلے لگالیتے۔
پاکستانی شہری آج نیوزی لینڈ کا ہی ہیرو نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہمت و
شجاعت کی مثال بن کر ابھرا ہے، جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے سفید
فام دہشت گرد کو روکنے کی کوشش کی۔ افغان شہری بہادری کی مثال ثابت ہوا۔
غرض کہ سانحہ? کرائسٹ چرچ نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جو رہتی دنیا تک قائم
رہیں گے۔ لیکن جب میں وطن عزیز پر نظر دوڑاتا ہوں تو نیوزی لینڈ کی مساجد
سے مسلمان شہدا کے خون کے دھبے دھوئے بھی نہیں گئے تھے کہ ہمارا میڈیا
میوزیکل شوز زورشور سے دکھارہا تھا۔ بڑا عجیب سا یوم سوگ منایا جارہا تھا۔
سانحہ? اے پی ایس پشاور یاد آگیا کہ وہاں معصوم بچّے کے خون سے ہولی کھیلی
جارہی تھی تو عظیم لیڈر دھرنے دے رہے تھے۔ مجھے غلام احمد بلور شہید اور
غازی میاں افتخار حسین یاد آجاتے ہیں کہ جب بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا،
وہ سوگواروں کے پاس لمحوں میں پہنچ جاتے تھے۔
میں سب کچھ نہیں لکھ سکتا، کیونکہ میں دہشت گردی کے دل دہلادینے والے ان
گنت واقعات دہرانا نہیں چاہتا۔ میرے پاس حسّاس اور بے حس کے درمیان فرق
کرنے والے لفظوں کی کمی ہے۔ ہمارے ملک میں کیا کچھ چل رہا ہے اور دنیا میں
دہشت گردی کے قدم کس قدر خاموشی کے ساتھ مضبوط ہورہے ہیں، اس کا تصور بھی
نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے واقعے پر جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم نے
امریکی صدر کو جھاڑا۔ اس تھپڑ کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ آسٹریلیا کے
سینیٹر کے متعصبانہ رویے کے خلاف ایک بچّے نے جو ردّعمل دکھایا، وہ ہم سب
کے لیے نوشتہ? دیوار ہے کہ دکھ و تکلیف کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت
گردی سے متاثرہ خاندانوں کے غم پر افسردہ ہوں، کیونکہ دہشت گردی کے ہاتھوں
اسلام کے نام پر بھینٹ چڑھنے والے خاندانوں کی آہ و بکا دیکھ چکا ہوں، ہر
سوال پر بس جواب میں سوال ہوتا کہ میرے بیٹے، میرے بھائی، میرے والد کا
قصور کیا تھا۔
مسلمان کہلانے کے دعویداروں نے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں کے سر قلم کیے۔ مقبوضہ
کشمیر میں انتہاپسند ہندو حکومت اقتدار کے لیے نہتے مسلمانوں کو لہولہان
کررہی ہے۔ فلسطین میں یہودی دہشت گرد ظلم و ستم کی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
برما میں روہنگیا مسلمانوں کو زندہ دفن کیا گیا، انہیں گھروں کے ساتھ
نذرآتش کردیا گیا، سمندر میں دنیا کی مظلوم ترین اقلیت کے ساتھ رویہ بدھ
دہشت گردوں نے ایسا کیا کہ
ان کے سانس لینے والے مُردہ جسم کسمپرسی کی حالت میں بس زندہ ہیں۔ یہ سب کے
لیے شرمندگی کا سبب ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردوں کی
انتہاپسندی کو مزید کیا نام دیا جائے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ افغانستان، عراق، شام، لبنان، صومالیہ، مصر، یمن
اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی کون کون سی قسم رائج ہیں۔
ترکی کے صدر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ یو این او بنانے کی ضرورت
ہے۔ او آئی سی میں مسلم امہ کے کون سے مسئلے کا حل نکالا گیا ہے، جو اَب
نئی مسلم یو این او کی بات کی جاتی ہے۔ اگر مسلم ممالک باہم برسرپیکار نہ
ہوتے تو آج نیوزی لینڈ جیسے اندوہناک سانحات رونما نہ ہوتے۔ لاکھوں مسلم
مہاجرین دربدر کی ٹھوکریں نہ کھارہے ہوتے۔ آج نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم
جیسنڈا آرڈرن اُن کے آنسو نہ پونچھ رہی ہوتیں بلکہ مسلم اکثریتی ممالک کے
حکمراں شہدا کے جنازوں میں شرکت کے لیے نیوزی لینڈ جاتے، زخمیوں سے ملتے،
ان سے معافی مانگتے کہ مسلمانوں کی باہمی چپقلش و جھوٹی فروعی سیاست کی وجہ
سے وہ اپنے وطن سے دُور ہوئے۔ انہیں ان کی مسلم جمہوری ریاست انسانی بنیادی
حقوق نہ دینے پر شرمسار ہے۔ خدارا! اب بھی وقت ہے کہ اسلام کی اصل روح کو
پہچانیں اور کلائی پر کالی پٹی باندھنے کے بجائے دلوں سے سیاہ میل کدورت و
نفرت نکالیں۔ کب تک امت مسلمہ اپنے و دوسروں کے ملک میں دہشت گردی کی بھینٹ
چڑھتی رہے گی۔ |