نیوزی لینڈ میں جمعہ 16 مارچ کو ایک سفید فام دہشت گرد نے
دو مساجد میں فائرنگ کرکے49 نمازیوں کو شہید کردیا تھا۔ اس واقعے پر نیوزی
لینڈ کی وزیر اعظم کا رویہ اور ان کے اقدامات غیر معمولی تھے۔ انہوں نے جس
طرح اس واقعے کی مذمت کی؛ قاتل کو بغیر کسی تردود کے دہشت گرد کہا؛مسلمانوں
کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا؛ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی، یہ قابل
تعریف اقدامات ہیں۔ان کے اقدامات نے نہ صرف نیو زی لینڈ میں مقیم مسلمانوں
کے دل جیت لیے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے ان کے اس عمل کو سراہا، متحدہ
عرب امارات نے ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے برجِ خلیفہ پر ان کی تصویر
لگائی۔
گزشتہ دنوں ایک مسلمان نوجوان نے ، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے ایک خصوصی
ملاقات کی؛ اور اس ملاقات میں انہو ں نے وزیر اعظم جیسنڈر کو اسلام کی دعوت
پیش کی۔ ہمارے نزدیک اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایک شخص، کسی فرد
سے متاثر ہوا اور اُس نے متعلقہ فرد کو اسلام کی دعوت دیدی اور بس! لیکن
مورخہ 25 مارچ کو جنگ میں بلال غوری صاحب کا کالم پڑھ کر اندازہ ہوا کہ جس
بات کو ہم ایک معمول کی بات سمجھ رہے ہیں ؛ لبرلز کے لیے وہ بات نہ صرف غیر
معمولی ہے بلکہ ان کو اس بات سے شدید تکلیف پہنچی ہے۔ ان کے کالم کو پڑھ کر
ہمیں تو ایسا لگا کہ گویا وزیر ِ اعظم جیسنڈرا کو اسلام کی دعوت دے کر ، اس
نوجوان نے شاید بلال غوری صاحب کی ذاتی حق تلقی کردی ہے ؛ یا شاید کسی نے
بلال غوری صاحب کو ایک کیلوں بھری کرسی پر بیٹھنےپر مجبور کردیا ہے اور وہ
اس کی تکلیف سے بلبلائے پھر رہے ہیں۔
ہم بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ لبرل طبقے کا اصل مسئلہ کوئی آفاقی اصولوں
پر بات کرنا ، یا ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مسئلہ
’’اسلام ‘‘ ہے۔ بلال غوری کو اس بات پر اعتراض ہے کہ وزیر اعظم کو اسلام کی
دعوت کیوں پیش کی گئی ہے؟ اپنے کالم کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی مہذب خاتون آپ سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش
آتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے کسی قسم کے تعلقات استوار
کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ اچھا کام کرنے والے تمام لوگوں کا
تعلق نام نہاد مجاہدین کے مذہب سے ہو۔‘‘
ہمیں اس پورے جملے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن قابل غور بات جملے کا
آخری حصہ ہے’’ نام نہاد مجاہدین کے مذہب ‘‘ سے ہو۔ اس میں جس طرح انہوں نے
جہاد اور اسلام کو نشانہ بنایا ہے، وہ نہ صرف ان کے خبثِ باطن کو آشکار
کررہا ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں بلال غوری نے یہ فرمایا ہے کہ ان کا تعلق
اسلام سے نہیں ہے۔( براہ کرم ہم پر کوئی بھی فتویٰ یا اعتراض کرنے سے پہلے
ان کے اپنے فقرے پر غور ضرور کرلیں، ہم کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں
کررہے بلکہ ان کے اپنے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے۔)
نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد جس طرح مسلمانوں کے لیے دنیا
بھر میں ہمدردی کی ایک لہر اٹھی ہے، اس نے لبرل طبقے کو بے چین کردیا ہے۔
لبرل طبقے کا خیال تھا کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور انتظامیہ اس کو
معمول کے واقعے کی طرح لیں گے،قاتل کو جنونی کہا جائے گا، اس کے عمل کو
جواز دینے کے لیے جہاد اور مجاہدین کا نام استعمال کیا جائے گا اور بس پھر
دیسی لبرل اپنے الفاظ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر اسلام، جہاد اور مجاہدین پر
حملہ آور ہوں گے۔ایک اور نام نہاد لبرل دانشور امتیاز عالم صاحب نے یہ کام
کربھی دیا۔ انہوں نے اس واقعے پر ایک کالم لکھا، مرنے والوں پر افسوس کیا،
دہشت گرد اور دہشت گردی کی مذمت کی، اس کے بعد مغربی نظامِ انصاف اور قانون
سازی کی تعریف کی اور ان کے کالم کی تان جہاد، اسلام اور کالعدم تنظیموں پر
ٹوٹی۔
لیکن افسوس! جب لبرلز کی سوچ کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اس کے بر عکس
، انہوںنے تو دوپٹہ اوڑھا، متاثرہ خاندانوں کے گھر گئیں،پارلیمنٹ کے اجلاس
میں قرآن پاک کی تلاوت کی گئی ؛وزیر ِاعظم نے اپنی تقریر کا آغاز
’’السلام علیکم ‘‘ سے کیا؛نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے اخبار نے اخبار کے پورے
صفحے پر ’’سلام‘‘ لکھ کر مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا؛ تو اب ان دیسی
لبرلز کو ا س بات پر اعتراض ہورہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو اسلام
کی دعوت کیوں دی گئی ہے؟ بلال غوری صاحب کے نزدیک اگر دین پرستوں کا مسئلہ
ان کی یہ سوچ ہے کہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل کوئی شخص مسلمان کے علاوہ
کوئی نہیں ہوسکتا تو، تو ہمارے نزدیک لبرلز کا مسئلہ ان کی یہ سوچ ہے کہ
اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل شخص’’ مسلمان ‘‘کےسِوا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ ان
کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عالی دماغ لوگ، سائنسدان، تاریخ دان، جینئس اور
اعلیٰ سوچ صرف اور صرف مغرب کے پاس ہے اور کسی کے پاس نہیں؛بالخصوص
مسلمانوں کے پاس تو ہو ہی نہیںسکتی۔ ان کے اسلامو فوبیا کا ہمارے پاس کوئی
علاج نہیں ہے؛ وہ اپنی ہی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔چلتے چلتے ایک لطیفہ سن
لیجیے۔ ایک دیسی لبرل قسم کے صاحب ، ایک مدرسے کے مہتمم سے ملے اور طنز
کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’ مولانا ! دنیا چاند پر پہنچ گئی اور آپ ابھی تک
وضو، نماز کے مسائل ہی بیان کررہے ہیں۔‘‘ مولانا نے تحمّل سے ان کی بات سنی
اور جواب دیا’’ آپ نے ٹھیک کہا، لیکن جناب آپ نہ تو اہل مغرب کی طرح چاند
پر پہنچے اور نہ ہماری طرح دین کا علم حاصل کیا، ہم سے زیادہ قابل رحم تو
آپ ہیں۔‘‘دیسی لبرلز کی خدمت میں صرف یہی عرض کریں گے کہ
؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے |