تیرے عشق نے بخشی ہے سوغات مسلسل!

مرحوم و مغفور قاضی حسین احمد صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب قومی اسمبلی کے ممبر بنے تو انہوں نے اسمبلی فلور پہ کہا تھا کہ میں عوام کا اور اس ہاؤس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے یہ عزت بخشی،اس وقت کے اسپیکر صاحب نے کہا تھا کہ قاضی صاحب اس ہاؤس اور اسمبلی نے آپ کو نہیں بلکہ آپ نے اس کا حصہ بن کر اس ہاؤس اور پاکستان کی قومی اسمبلی کو عزت بخشی ہے بالکل اسی طرح چند دن قبل مجھے ایک سیمینار سے خطاب کرنے کا اتفاق ہوا کہ جو ایک ایسی شخصیت کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا کہ جن کا تعلق تو میانوالی سے تھا مگر وہ تلہ گنگ کیا آئے کہ یہیں کہ ہو کے رہ گئے پچاس سال قبل تلہ گنگ کو رونق بخشنے والی شخصیت اہلیان تلہ گنگ کو اپنے احسانات تلے دبا کر آج بھی انہی کے درمیان محو استراحت ہے اور ان کے چلے جنے کے بعد کسی اور ایسے خوبصورت شخص کے لیے نہ جانے کب تک نرگس اپنی بے نوری پر روتی رہے گی،جی ہاں میں بات کر رہا ہوں اپنے محسن اور استاد محترم حضرت پروفیسر غلام اکبر نیازی کی،جو جیے تو شان سے داعی اجل کو لبیک کہا تو بھی نرالی شان سے،ان کی یاد میں تلہ گنگ کالج جہاں انہوں نے بطور پروفیسر اور پرنسپل اپنی خدمات سرانجام دیں میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا،مجھے اس ریفرنس میں شمولیت کی دعوت ریفرنس کے منتظم اور پرنسپل کالج جناب ساجد اعوان نے فاروق شاہ صاحب کے زریعے دی اور تاکید کی گئی کہ پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ آپ نے چونکہ نیازی صاحب سے پڑھا ہے اور ان سے آپ کی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں لہٰذا آ پ نے نہ صرف لازمی آنا ہے بلکہ خطاب بھی کرنا ہے ،مجھے دعوت نہ بھی ملتی تو بھی میں فرض سمجھ کر اس میں شرکت کرتا کیوں کہ اس میں شرکت بھی میرے لیے باعث افتخار ہوتی، اور جہاں تک بات ہے خطاب کی تو اساتذہ سے کسی طالب علم کا خطاب کسی بھی شاگرد کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا، بتائے گئے روز وقت مقررہ سے کچھ تاخیر سے میں ریفرنس میں پہنچا حسب توقع ہال مہمانوں اور طلبا سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا اور انتہائی معزز شخصیات اسٹیج کے اوپر اور اس کے سامنے براجمان تھیں ،سنئیر ز ترین پروفیسرز حضرات پہلی رو میں اور حضرت نیازی صاحب کے سابق ہونہار طالب علم جو معاشرے کی بہتری و ترقی میں اہم رول ادا کر رہے ہیں دوسری لائن میں براجمان تھے،مجھے منتظمین نے ویلکم کہنے کے بعد پہلی رو کی دائیں جانب نشست فراہم کی تاہم تھوڑی دیر بعد اسٹیج سیکر یٹری صاحب نے کمال حسن ظن سے کام لیتے ہوئے مجھے بھی اسٹیج پر بیٹھنے کا مژدہ سنا دیا یوں ایک نالائق قسم کے طالب علم کو اپنی ہی اساتذہ کے سامنے اسٹیج پر بیٹھتے ہوئے کچھ خفگی اور پریشانی محسوس ہوئی مگر ساتھ موجود سابق پرنسپل اور پروفیسر فتح شاہ صاحب نے حوصلہ دیا ،مقررین میں سے پہلے استاد محترم کے شاگردوں نے حاضرین سے خطاب کیا ،ڈاکٹر عبدالرزاق جو ایم ایس سٹی ہسپتال ہیں نے اپنے خطاب میں جناب نیازی صاحب کو شاندار الفاظ میں خرا ج تحسین پیش کیا جس کے بعد دائریکٹر کالجز نے ان کی تعلیمی میدان میں خدمات کو سراہاپی ٹی آئی کے یاسر ملک،پروفیسر محمد ایوب ملک نے بھی ان سے وابستہ خوبصورت یادیں بیان کیں،بر گیڈئیر امجد جو ان کے داماد ہیں انہوں نے ان کا روحانی مقام و مرتبہ بیان کیا سب سے خوبصورت باتیں ان کے بھائی اور ہم سب کے لیے بہت ہی معزز ڈاکٹر اجمل نیازی نے کیں ،مجھے بھی بولنے کا موقع دیا گیا ،نیازی صاحب جیسی عظیم شخصیت کا احاطہ کرنا میرے لیے کیا کسی بھی عام شخص کے لیے ناممکن ہے ان کی ذات کو لفظوں میں سمویا نہیں جا سکتا،میرے ساتھ ان کی اتنی محبت اور خوبصورت یادیں وابستہ ہیں کہ اگر میں بیان کرنا شروع کردیتا تو شاید گھنٹوں گذر جاتے ،میں نے ان کے احسانات کا برملا اقرار کیا کہ میں کچھ نہیں تھا مگر آج بہت کچھ ہوں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد یہ نیازی صاحب اور ان کی راہنمائی تھی کہ میں اس مقام تک پہنچا ہوں،میں جو آج برگیڈئیر امجد صاحب کی سو ملین سے زائد مالیت کی پراپرٹی خریدنے کے چکر میں ہوں صرف 28سال پہلے 1993میں ایڈمیشن فیس کے لیے غالباًچار سو یا پانچ سو ساٹھ روپے درکار تھے اور مالی طور رپر نالائق اسٹوڈنٹ کی جیب میں محض پچیس روپے تھے اور وپ اپنے فارم اٹھائے ادھر ادھر دیوانوں کی طرح بھاگ رہا تھا،نیازی صاحب نے اس سے فارم لیکر اپنے پاس رکھ لیے اور کہا کہ جاؤ کل آ کر لے جانا اور چپکے سے اس کی فیس جمع کروا دی،اس وقت اگر وہ عظیم ترین انسان اپنی عظمت کا ثبوت نہ دیتے تو آج ہم ٹھنڈ ے ٹھار دفتروں کی بجائے کہیں کنڈکٹری کر رہے ہوتے یا ہنڈا گاڑیوں میں سفر کرنے کی بجائے یہی گاڑیا ں دھو رہے ہوتے،اور میں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا ان سے ہوئی ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا اور ان سے ہر موقع پر لی گئی راہنمائی کا بھی ذکر کیا ،وہ ہر لحاظ سے خوبصورت و سیرت انسان تھے،اﷲ و رسولﷺ کے بتائے گئے دن پر حقیقی معنوں میں کاربند تھے،وہ مسٹر اور ملا کا حسین امتزاج تھے وہ سنت کے مطابق داڑھی رکھ کر لوگوں کو سائنس پڑھاتے تھے،ان کا کہنا تھا کہ داڑھی رکھنے سے انسان کی شخصیت اور عظمت میں نکھار آتا ہے اور یہ گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے،ان کی کوئی بھی بات اﷲ اور اس کے رسول کے حوالے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی،عصر کے بعد زیادہ وقت مسجد میں گذرتا تھا اور اس بات کی گواہی انکے جاننے والے ہر شخص نے دی کہ درود پاک ان کا ورد زباں تھا،وہ ہمیں سائنس پڑھاتے تھے اور جب کوئی ایسی بات آ جاتی جو ہمارے مذہب بظاہر متصادم لگتی تو فوراً ساتھ تصیح کرتے کہ یہ سبق اور لیکچر اپنی جگہ مگر بات وہی درست اور سچ ہے جو میرے رسول نے کہی ہے،وہ سردیوں کی نرم دھوپ اور گرمیوں کی ٹھنڈی چھاؤ ں تھے ہر ایک کے لیے شفقت اور محبت کا پیکر،اس سیمینار میں جا کر پتہ چلا کہ وہ صرف میرے ہی محسن نہ تھے وہ تو اپنے ہر شاگرد کے لیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے،اور کیوں نہ ہوتے جب ان کی آئیڈیل وہ شخصیت تھی جو سارے جہانوں کے لیے رحمت تھی،کا ش ایس اہو کہ ہر کوئی سیرت محمدی ﷺپر اسی طرح عمل پیرا ہو جس طرح حضرت نیازی تھے توہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں جنت کا نمونہ بن جائے اور کسی بھی فرد یا قوم کو ہم پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے،اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں دین مکمل دیا جو ایک مکمل نظام اور ضابطہ حیات ہے جڑورت اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ہے اور اس کے لیے عشق محمد بنیادی شرط ہے،جو کہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ نیازی صاحب کی طرح ہر ہر قول و عمل میں ان کی اتباع کی جائے،ان کی مثال ایسے تھی کہ،،
تیرے عشق نے بخشی ہے سوغات مسلسل
تیرا ذکر مسلسل،،،،،،،تیری بات مسلسل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔