ایٹمی طاقت کے خلاف تازہ یلغار

مغربی میڈیا اور صہیونیت نواز زرائع ابلاغ روز اول سے ہی عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے خلاف من گھڑت الزامات پر مبنی میڈیا وار شروع کئے ہوئے ہے۔ امریکہ اسرائیل اور مغربی ممالک پاکستان کے جوہری اثاثوں کے درد سے تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی چھٹکارہ نہیں پا سکے۔ ظلم اور بغض و حسد کا یہ عالم ہے کہ استعماری قوتوں کو نہ تو پاکستان کا جوہری پروگرام ٹھنڈے پیٹوں ہضم ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی انکھ کا شہتیر دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور روس کے اسلحہ خانوں میں موجود نیوکلیر وار ہیڈز کرہ ارض کو تین مرتبہ صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ یہود و ہنود پاکستان اور ایران کے ایٹمی اثاثوں کو غتر بود کرنے کی خاطر تسلسل سے ٹرٹراہٹ فرماتے رہتے ہیں۔ مغربی میڈیا حاسدین کی پشت پناہی کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ اسلام آباد کا ایٹمی ورثہ آجکل پھر میڈیا کی شہ سرخیوں اور شرانگیزیوں کی زد میں ہے۔ امریکی اخبارات میں واویلہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان IAEA کے قوانین کے بر خلاف دو سالوں میں وار ہیڈز کی تعداد کو دو گنا کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔پاکستان کے ایٹمی اثاثوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے۔ گارجین لکھتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت امریکہ کے لئے خطرناک بن چکی ہے۔ پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو جوہری مواد کے پھیلاؤ کا کام کررہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے خبر جمائی کہ پاکستان خوشاب میں چوتھا ایٹمی ریکٹر تعمیر کررہا ہے اور اسلام آباد دنیا کی پانچویں ایٹمی طاقت کا اعزاز اپنے نام کرچکا ہے۔ گو کہ ایسی فتنہ گری مغربی اخبارات کے لئے مقدس گائے کا درجہ رکھتی ہے جس پر خامہ فرسائی روز کا معمول ہے تاہم ایسی دریدہ دہنی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا انتہائی لازم ہے۔ تجزیہ نگار جہاں ایسی دشنام طرازی کو مغرب کے روائتی بغض و حسد سے منسوب کرتے ہیں تو وہاں کچھ اسے ان واقعات کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں جو2008 میں امریکہ اور بھارت کی جوہری پارٹنر شپ کے بعد وقوع پزیر ہوئے۔امریکہ نے ایک طرف بھارت پر امریکہ سے ہر قسمی نیوکلیر میٹریل حاصل کرنے کا لائسنس جاری کر رکھا ہے تو دوسری طرف بھارت کو مغرب سے جوہری ایندھن خریدنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ امریکی نوازشات سے خطے میں طاقت کا توازن غیر مستحکم ہوگیا۔ غیر جانبدار مبصرین نے بھارت امریکہ ڈیل کو جنوبی ایشیا میں اسلحے کی تیز ترین دوڑ کے اغاز سے تشبیہ دیکر طاقت کے توازن کو یکساں بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کی امریکی جنگ میں فرنٹ رول ادا کرنے کے عوض اس ڈیل پر کھلے بندوں اعتراض کیا ۔پاکستان نے وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا کہ ایسی ڈیل پاکستان کے ساتھ بھی کی جائے۔ تاہم ایسی صدائے احتجاج کو مسترد کردیا گیا۔پاکستان اور پرو پاکستانی امریکی حلقوں نے امریکہ کو بار بار باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ ڈیل پاکستان کی سلامتی کے لئے شدید خطرات پیدا کرسکتی ہے۔ امریکی اخبارت نے اسی ڈیل کو برصغیر کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دیا مگر امریکی ایڈمنسٹریشن کے جسم پر چیونٹی تک نہ رینگ سکی۔ بہر نوع ایسی خبروں اور زہریلے مواد کی اشاعت کو اتفاق کہنا غلط ہوگا۔25 جنوری2010 کو منعقد ہونے والی تخفیف اسلحہ کانفرنس میں پاکستانی مندوب نے شریکین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نقطے کی مخالفت کی تھی اگر دنیا جوہری ہتھیاروں کی تخفیف چاہتی ہے تو سب سے پہلے بم سازی میں استعمال ہونے والے فیزائل مواد کی تیاری اور مقدار پر پابندی کا معاہدہ کرنا ہوگا۔ اuno میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم نے فیزائل مواد پر پابندی عائد کرنے کے ایشو کی مخالفت کے اسباب بیان کئے جنکی وجہ سے پاکستان نے اس تجویز کو رد کیا۔ انہوں نے سنجیدہ و حالیہ واقعات کا تذکرہ بھی کیا جس نے پاکستان کو مخالفت پر مجبور کردیا۔ ضمیر اکرم نے اس سلسلے میں اس چھوٹ اور امتیازی رویوں پر ماتم کیا جو انٹرنیشنل سپلائر گروپ نے بھارت کو دی تھی۔ ضمیر اکرم نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو خطے میں فیزائل مواد کے اسٹاک پائلز کے توازن پر زبردست اثرات رونما ہونگے جو پاکستان کی سلامتی اور مفادات کے لئے ثم قات ہیں ۔ مزید براں امریکہ کی جانب سے چار ملٹی لیٹرل برآمداتی کنٹرول گروپ میں بھارت کی تائید و حمایت کے نتیجے میں ایسے غیر ذمہ دارانہ رویوں کا اندیشہ جنم لے گا جو عالمی سطح پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے مقصد کی راہ میں رخنہ ڈالنے کا سبب بنے گا۔یوں پاکستان نے مجوزہ معاہدے کی مخالفت کرکے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کیا جسکا مقصد مستقبل میں فیزائل مواد کی تیاری اور مقدار پر پابندی عائد کرنے سے منسلک ہے۔ چنانچہ مجوزہ معاہدہ جب تک فیزائل مواد کے اسٹاک کا تخمینہ نہیں لگاتا تب تک پاکستان اور بھارت کے مابین عدم توازن بدستور قائم و دائم رہے گا اور یہ اسٹریٹجک طور پر بھی پاکستان کے لئے سود مند نہیں بن سکتا۔ تخفیف اسلحہ کانفرنس کے موقع پر پہلے سے تیار شدہ فیزائل مواد کے تخمینے اور اندازے کے اس مطالبے کوg 21 گروپ کی حمایت حاصل تھی۔ اس معاہدے سے بھارت کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ ایک طرف فیزائل مواد کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرلے تو دوسری طرف وہ اسی تناظر میں پاکستان کے ساتھ عدم توازن اور عدم مساوات میں تیزی پیدا کرنے کی پوزیشن میں اسکتا ہے۔ بھارت امریکہ ڈیل کے بعد نیو دہلی نے جوہری ایندھن خریدنے کے کئی معاہدے کئے ۔ نیوکلیر سپلائر گروپ نے بھارت کو ایسے کیمیائی عناصر خریدنے کی اجازت دے کھی ہے جو نیوکلیر وار ہیڈز کی پیداوار بڑھانے کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ حال ہی میںFMCT نے پاکستان سے ناروا اور متعصبانہ مطالبہ کیا کہ وہ ایٹمی صلاحیت کی حدود کا تعین کرے مگر ناانصافی کا چشم کشا منظر ملاحظہ ہو کہ بھارت پر ایسی کوئی پابندی یا شرط عائد نہیں ہے۔ نیشنل ایٹمی کمانڈ اتھارٹی نے 14 دسمبر2010 میں امریکہ سمیت انٹرنیشنل سپلائر گروپ کے امتیازی روئیے کی تند و ترش لہجے میں مذمت کی۔ اتھارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملکی سلامتی کے منافی کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گی۔پاکستان کے خلاف جاری میڈیا وار کا ایک بیہودہ اور بودہ مقصد تو یہ ہے کہ جھوٹ در جھوٹ کی یلغار فرضی الزامات کی طومار سے پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کردیا جائے۔ ایسی ہی ایک بھونڈی کوشش پچھلے ماہ کی گئی جب سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین اورunoکے سیکریٹری جنرل بانکی مون کی مشترکہ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ پاکستان کی عدم موجودگی میں اسکی جوہری طاقت کے خلاف مشترکہ موقف اپنا لیا جائے تاہم فسادیوں کے مکروہ مقاصد پرg21 گروپ نے پانی پھیر دیا۔g21 نے پاکستانی موقف کی بھر پور تائید اور بانکی مون کو تنقید کا نشانہ بنایا۔جی اکیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہunoو کا چارٹر کسی ایسی میٹنگ یا اجتماع کی اجازت نہیں دیتا جس میں کسی ریاست کے خلاف اسکی غیر موجودگی میں غیر منصفانہ فیصلہ کیا جائے۔جی 21 کی غوغہ ارائی پاکستان کے لئے نعمت خواناں بن گئی کیونکہ بانکی مون کا ضمیر پھڑک اٹھا اور اس نے میٹنگ منسوخ کردی۔ پاکستان کو الزام دینا کہ یہ تعطل اسی کا پیدا کردہ ہے کسی مذاق سے کم نہیں۔تخفیف اسلحہ اور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ہاہاکار مچانے والے اپنے ماضی اور کردار پر نظر ڈالیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علحیدہ ہوجاتا ہے۔ جمہوریت مساوات تخفیف اسلحہ اور حقوق انسانی کے رنگین نعروں کی آڑ میں استعماری طاقتیں روئے ارض کے کسی کونے میں ہونیوالی خون ریزی کی ذمہ دار ہیں۔uno بڑی طاقتوں کی ایسی دوکان ہے جہاں ترقی پزیر ملکوں کے خون کی تجارت ہوتی ہے جہاں کمزوروں کی گردن کو غیر ملکی قرضو ں کے شکنجے میں جکڑنے اور معاشی غلامی کی ہتھکڑیوں میں پھانسا جاتا ہے۔ یہ دوکان صرف استعماریوں کے منافع بخش کاروبار کا زریعہ ہے مگر مسلم حکمران یہاں کے بناوٹی حسن کے سحر میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ اپنی تہذیب خودداری اور غیرت کو کوڑیوں کے بھاؤ نیلام کرنے کے شوقین بن چکے ہیں ۔ بحرف آخر پاکستان کو جوہری پروگرام کے خلاف مغربی میڈیا کی تازہ ترین دشنام طرازیوں کو معمول کی کاروائی سمجھ کر اغماض برتنے کی ناعاقبت اندیشی سے بچنا ہوگا۔پوری امت مسلمہ کو پاکستان اور ایران کے جوہری اثاثوں کو یہود و ہنود کی بداعمالیوں سے بچانے کا فرض ادا کرنا ہوگا ورنہ مسلم بلاک اغیار کے مقابلے میں اپنے اکیلے گرانقدر اثاثے اور متاع حیات سے محروم ہوسکتی ہے۔
 
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.