نہ سمجھو گے لٹ جاؤ گے اے
اہلِ عرب تم بھی
تمہاری داستان بھی رہ جائے گی داستانِ ایمان فروشوں میں۔
اور یاد کیجیے اُس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو راتوں رات مسجدِ حرام
سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا؛ اور یہ بات عالمِ اسلام کی توجہ کے لیے کیا کم
تھی؟ جسے ربّ کائنات نے مسلمانوں کے قبلہ اول کو بھی اس کی اہمیت وفضیلت کے
ساتھ باقی رکھّ کر؛مسلمانانِ عالم کے لیے اسے ہمیشہ کیلیے قابلِ احترام اور
توجہ کا مرکز بنا دیا تھا؛مگر افسوس آج عالم ِاسلام خصوصاً عالمِ عرب اس کی
اہمیت کو کھو رہا ہے؛ اور ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل جس کی بنیاد جھوٹ اور
ظلم پر قائم ہے؛ کے آگے بے بس نظر آرہا ہے؛ جس کا بنیادی سبب ہمارے نام
نہاد حکمران خاص کر عرب اُمراء کی نااہلی اور سرد مہری ہے؛ جنہیں اپنی
جھوٹی شہنشاہیت سب سے زیادہ عزیز ہے؛ اوراس نشے میں انہیں فلسطین میں معصوم
مسلمانوں کا گرتا ہوا خون نظر نہیں آتا؛اور وہاں سے اُٹھنے والی کوئی بھی
آواز ان کے کانوں پر اثر انداز نہیں ہو تی؛ جہاں نصف صدی سے زیادہ یعنی ۶
دہایوں سے ظلم و ذیادتی کا بازار گرم ہے اور جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان
بے گھر ہو چکے ہیں؛ ہزاروں افراد اپنی جانیں گنواں چکے ہیں؛اور سینکڑوں
صیہونی ظلم کا شکار ہو کر اپاہیج بن کر نہایت بے بسی کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں؛مگر کیا دنیائے اسلام کو انتظار ہے کسی صلاح الدین کا؟یہ وہ مردِ
مجاہد تھے جنہوں نے بیت المقدس کو سالوں بعد یہودیوں کے چنگل سے چھڑایا تھا؛
لیکن کیا اب اس جیسے جوانمرد کے پیدا ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے؟ اب تو
ایسی توقع کرنا نہ صرف خام خیالی ہے بلکہ ناعاقبت اندیشی ہے ؛صلاح الدینؒ
جسے مجاہد نہ تو آسمان سے ٹپکے گا اور نہ ہی زمیں سے اُگے گا؛اس کو تو تیار
کرنا پڑیگا؛ اسکے لیے ہمیں اپنی نسل کو اسلامی تعلیم کی آراسستگی کے ساتھ
اس کی قدروں سے بھی آگاہ کرنا؛نیز تاریخ اسلامی سے باخبر کر کے جہادی روح
پھونکنا ہوگا؛تب ہی کوئی اُ مید کی جا سکتی ہے؛برخلاف اسکے مسلمان اور
خصوصاً عالم ِ عرب عیش وعشر ت کے نشے میں گہری نیند سو رہا ہے؛ اور غضب اس
پر ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت یوروپی طرز پر اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام
بھی یوروپی ممالک میں ہو رہا ہے؛ جہاں انہیں اسلام اور اسلامیات سے دور
رکھنے کے لیے ترقی اور جدیدیت کے نام پر نئی طرزِ زندگی سکھائی جاتی ہے؛اور
اب انکی نئی نسل مغربی طرز ِزندگی کو ہی اپنا نصب العین سمجھنے لگی ہے؛
نتیجتا ًان میں دین اسلام سے بُعد اور دوری بڑھ رہی ہے ؛ اور اسلام ان میں
ایک ٹمٹاتے ہوئےے چراغ کی طرح رہ گیا ہے جسے ہوا کا ایک جھونکا کسی بھی وقت
گل کر دیگا ؛ تو ایسے میں ہماری اُمیدیں بر آنا نہ صرف دشوار ہے ؛بلکہ
ناممکن ہے اس طرزِعمل سے تو کوئی صلاح الدین تو کیا ؛خواب غفلت سے جگانے
والا اقبالؒ بھی پیدا نہیں ہو سکتا ؛البتّہ کسی سلمان رشدی یا تسلیمہ نسرین
جیسے اسلام مخالف عناصر کی توقع کی جا سکتی ہے؛یہ بات سچ ہے کے پچھلے کئی
دہاییوں سے عرب نے اس مسئلے پر کچھ نہ کچھ کوششیں کی ہیں؛ لیکن آج تک اس
میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی یا نہ ہی اس پر کوئی پیش رفت ہو
سکی وجہ اس کی یہ ہے کے ان کے جلسے یا اجتماعات وغیرہ یوروپی آقاؤں کے زیر
سایہ یا ان کے اشاروں پر یا پھر یوروپی ممالک میں ہی ہوئے؛جہاں سب سے پہلے
ان کی مہمان نوازی کے نام پر عیش و عشرت کے ساماں مہیا کیے جاتے ہیں؛تاکہ
اس سے متاثر ہو کر یہ حق بات نہ کہہ نہ سکیں ؛ خیر یہ تو ہو گیا اور اب عرب
ممالک کے حالات ایسے ہیں کہ ا نہیں فلسطین سے زیادہ اپنی گدی کی فکر لاحق
ہوچکی ہے؛ اور ایسے میں قومِ مسلم ان سے کیا اُمید رکھّے گی؟جس قوم کا باگ
دوڑ ایسے حکمراں کے ہاتھوں میں ہو جن کا محبوب ترین مشغلہ کھیل کود اور
بلند ترین عمارتیں تعمیر کرنا ہو اور عیش و عشرت وتفریحی کے سامان اکٹھا یا
مہیا کرنا ہو؛کیا وہ قوم اپنی شناخت قائم رکھّ پائے گی؟یہ عرب جن کا ورثہ
شجاعت و دلیری تھی اور فوجی تربیت اور جنگی مشقیں جن کا محبوب مشغلہ تھا
لیکن آب انکا مشغلہ صرف لغویات (کارٹونس) سے لطف لینا اور رقص وسرور کی
محفلوں میں شرکت کرنا ہے؛ اسکے بعد اسلام اور اسلامی تاریخ سے انہیں شاہد
ہی دلچسپی باقی رہے گی ؛دنیا والے خود تو دنیا کی تسخیر میں لگ گئے لیکن
عرب اور اہل عرب کو لایعنی یا فضول کاموں میں لگوا دیا؛اقوامِ عالم جنگی
سازوسامان کے ساتھ فوجی تربیت کو وقت کی اہم ضروت سمجھ کر اسے اپنا نصب
العین بنا ئی ہوئی ہے ؛اور عرب اس سے دور رہنا ہی اپنی عافیت سمجھنے لگے
ہیں اور اس سے کوسوں دور رہ کر اپنے یورپی ہم منصبوں پر یہ ثابت کر نے پر
جُٹے ہوئے ہیں؛ کہ ہم پر امن حکمراں ہیں اور ہم سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں؛
تاریح ِ انسانی اور تاریخ ِ اسلام سے بالکل بے پرواہ ہو کر اور زعم میں ہیں
کہ صرف اس طریقے سے ان کی بادشاہت سلامت رہے گی؛
حالانکہ یہ خود فریبی اور ایک طرح کی بزدلی ہے؛جس سے نکلنا اب ان کے لیے
محال بن چکا ہے؛کاش کہ تاریخ سے سبق لیتے یہاں پر تو میسور (ہندستان) کی
تاریخ دھرائی جانے والی ہے؛ تاریخ گواہ ہے جب ہندستان میں حضرت ٹیبو سلطان
شہید ؒ حیات رہے؛انگریز اپنے سارے وسائل کے باوجود یہاں پوری طرح اپنا تسلط
قائم نہیں کر سکے ؛اور جب ان کی شہادت ہوئی ؛تب ہی تو انگریز افسر نے کہا
::آج سے ہندستان ہمارا ہے:: پھر اسکے بعد ایک ایک کر کے سب حکومتوں کو ختم
کردیا گیا اور پورے ہندستان پر اپنا سکّہ جمایا ؛یہ سب انہوں نے وہاں کے
راجہ مہا راجاؤں کو اپنے اعتماد میں لے کر ہی کیا تھا؛ ان کی گدیوں کو
بچانے یا باقی رکھنے کا لالچ ان کے لیے ایک کامیاب حربہ ثابت ہوا تھا؛کیا
آج عرب کے حالات اس سے مختلف ہیں؟سب سے پہلے انہوں نے امن و سلامتی کے
بہانے عراق کو ختم کیا؛جس طرح ہندستان میں انگریزوں کی نگاہ میں شیرِ میسور
حضرت ٹیبو سلطانؒ شہید کی حکومت چھبتی تھی بالکل اسی طرح ان کی نگاہ میں
عراق کی عظیم طاقت super power ان پر گران تھی جسے انہوں نے تباہ کردیا اور
شاید ان میں سے اب تک کوئی کہاں ہوگا یا کچھ دنوں بعد کہیں گے :: اب عرب
بھی ہمارا ہے:: اور اب شاید وقت دور نہیں کہ ہندستان کی یہ تاریخ یہاں بھی
دھرائی جائے؛ کیا آج تونس اور مصر کے بعد دیگر عرب ممالک میں اٹھنے والا
سیاسی طوفان( بھونچال) انہیں حالات کا بیش خیمہ یا اشارہ ہے؟آج حالات سے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں کے اب شاید فلسطین کا کوئی سیاسی حل نکلے گا؛اور
طاقت کا بل؟؟؟؟ان کیے یہ موجودہ حالات اور خیر قرون اور اس کے بعد کے
تابناک دور کا موازنہ کریں گے تو ایک دردمند مسلمان بے اختیار رو پڑے گا؛
کیونکہ یہ تو وہ تھے جو دنیا کے ظالم و جابر بادشاہوں کو نہایت بے باکی سے
للکارا تھا اور زمانے کے مغرور بادشاہوں کے تخت تاج کو اُکھاڑ کر پھینک دیا
تھا؛ یہ تو وہ تھے جو فقر وفاقہ کو ہمیشہ اپنی دولت سمجھا؛زہدوتقویٰ کو
اپنی اقلیم استغنا کو تخت وتاج بنایا؛بے نیازی سے بے مرادی کے لازوال
خزانوں پر ہمیشہ قائم رہے؛یہ تو وہ تھے جو عشقِ حق اور پرستاریِ علم کے
بورے کہینہ پر بیٹھ کر دنیا اور دنیا کی ساری عظمتوں سے بے پرواہ رہے؛لیکن
بائیں ہمہ جن کی کسرِ حق اور سطوتِ الہیٰ کا یہ عالم رہا کہ شاہانِ عالم نے
ان کے پھٹے پرانے دامنوں پر عقیدت و اطاعت کی آنکھیں ملیں اور تخت وتاج اور
حکومتوں کو ہمیشہ ان کے پایہ استقامت کی ٹھوکریں نصیب ہوئی؛ اُف یہ تو وہ
تھے جو اللہ کی چوکھٹ پر سر نیاز جھکا کر تمام کرہ ارض کی عظمتوں اور
رفعتوں کو اپنے سامنے سرنگوں کر دیا تھا؛اور یہ سچ ہے کہ آج یہ اپنی ہی
غفلت وخود فراموشی کی بدولت اپنی عظمت و جلال کھو چکے ہیں ؛اور یہ حقیقت
بھی تاریخِ ماضی کا ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے؛اللہ تعالیٰ نے جس عظیم
منصف پر سرفراز فرمایا تھا اس کی انہوں نے ناقدری کی اور خود اپنے ہی
ہاتھوں اپنے شرف ِعزت وخلقتت کو پارہ پارہ کر دیا ؛اللہ نے دنیا کو ان کے
سامنے گرایا تھا لیکن افسوس آج یہ خود دنیا کے سامنے گر گے ¿ اللہ نے انہیں
کلمہ ¿ حق کی خدمت کے لی ¿ے مامور کیا تھا؛لیکن انہوں نے اپنے فرضِ منصبی
کو نہیں سمجھا اور اس سے بالکل پھر کر مادی مفادات کے پیچھے پڑ کر دھوکہ
میں آگئے خدایا !! ان عربوں کو جگا دے ورنہ ہمیں خون کے آنسوں رونا پڑیگا۔۔۔۔۔ |