ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے حالیہ ایک بیان میں
کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے نیوزی لینڈ کے عوام اور
مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہو کر انسانیت سے بے بہرہ افراد کو انسانیت کا
درس دیا ہے۔ انہوں نے جو بیانات جاری کئے ہیں وہ ہر حوالے سے قابلِ تعریف
ہیں۔ انہوں نے اس واقعہ کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کیا ہے۔15 مارچ کو
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے وقت 2 مساجد میں 10 منٹ کے
فرق سے کئے گئے دہشت گردانہ حملے جن میں 51 افراد ہلاک اور متعدد زخمی
ہوگئے تھے کے تعلق سے ترکی ٹیلی ویژن چینلوں کو دئے گئےاپنے بیان میں اس
یقین کا بھی اظہار کیا ہے کہ نیوزی لینڈ انتظامیہ اپنے وعدے کے مطابق اس
حملے کے پس پردہ کرداروں کو منظر عام پر لائے گی۔ بلاشبہ نیوزی لینڈ کی
وزیر اعظم نے واقعہ کے فوراً بعد جو قدم اٹھایا، جس قسم کے طرزعمل کا اظہار
کیا اور جس ثبات قدمی سے وہ اس وقت بھی اس پر قائم ہیں وہ قابل ستائش ہے۔
ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے قدم، طرز عمل اور اظہار خیال اپنی جگہ بہت
اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ایک عرصہ سے بین الاقوامی سطح پر جس
قسم کے نظریات کو فروغ دیا جارہا ہے ان کے نتیجہ میں اس وقت تین قسم کی
پرستیاں صلیب پرستی، قوم پرستی اور فرقہ پرستی نمایاں طور پر ابھری ہیں۔
ان کے ابھر نے کے ساتھ ساتھ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان سب کی پشت پر جو
منصوبہ ساز ذہنیت کھڑی ہے وہ صہیونیت ہے۔یہ بات الگ ہے کہ ماضی میں صہیونیت
نےصلیب پرستوں اور قوم پرستوں کو بہت ہی کاری ضرب لگائی بھی ہے اور ایک وقت
میں ان سے کاری ضرب کھائی بھی ہے۔ لیکن اس وقت نہ صرف یہ کہ یہ تینوں
پرستیاں باہم شیروشکر ہوگئی ہیں بلکہ ایک طویل عرصہ سے ان سب کی باگ ڈور
صہیونیت کے ہاتھوں میں ہے، وہ انہیں ایک خاص راہ پر ڈالے ہوئے ہےاور ان کے
لئے منصوبہ سازی کر رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال سامنے ہے ،امریکی صدر
ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنا مین نتنا یاہو کی
موجودگی میں ایک بار پھر عالمی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے شام کی گولان
پہاڑیوں کو اسرائیل کی سر زمین کا حصہ تسلیم کرنے پر مبنی ایک قرار داد پر
دستخط کر دئے ہیں۔ امریکی صدر نے اس سے متعلق منعقدہ تقریب میں یہ بھی
کہاہے کہ "اسرائیل کی گولان پر حاکمیت کو میں نے تسلیم کر لیا ہے"۔ دستخط
جس وقت ہوئے عین انہیں لمحوں میں اسرائیلی جیٹ طیاروں کی طرف سے غزہ کی پٹی
پر بمباری بھی کی گئی جس کی وجہ سے غزہ دھماکوں کی آوازوں سے گونج اوٹھا۔
ان تینوں قسم کی پرستیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں دوسروں کے لئے
کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گنجائش تو بہت دور کی بات ہے واقعہ یہ ہے کہ ان کو
اپنے علاوہ کوئی اور پھوٹی آنکھ نہ بھاتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو وہ گوارہ
کرنے کو تیار ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں انتہاپسندی، دہشت گردی اور تخریب کاری کا جو دور چل
رہا ہے اور پوری دنیا جس طرح سے خون سے رنگی ہوئی ہے وہ اسی ذہنیت ، نظریہ
اور فکر وخیال کی وجہ سے ہے۔ یہ ایک دو دن اور ایک دو علاقہ کی بات نہیں ہے
،یہ سلسلہ طویل عرصہ پر محیط ہے اور دور دراز تک پھیلا ہوا ہے۔ نیوزی لینڈ
میں نماز جمعہ کے وقت دو مساجد میں جو کچھ ہوا وہ اسی ذہنیت کا ہی نتیجہ
تھا، یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرف سے
اٹھائے جانے والے قدم، طرز عمل اور اظہار خیال یہ تینوں اپنی جگہ اس وجہ سے
اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ مذکورہ ذہنیت ، نظریہ اور فکر وخیال کے سامنے لکیر
کھینچ رہے ہیں اور ان کے گرد دائرہ بنا رہے ہیں۔ یہ کا م ڈھکے چھپے انداز
سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی شناخت کو اجاگر کر رہے ہیں اور بڑی شدت اور
وضاحت کے ساتھ ان کی نفی کررہے ہیں۔ وہاں کی وزیر اعظم نے خود اس جانب پہل
کی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم رکھا اسی کے ساتھ ساتھ وہاں کی انتظامیہ
اور اپنے ملک کے عوام کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا
کہ بڑی تیزی سےاس کے اثرات پڑوسی ممالک کیا پورے یوروپ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ
پوری دنیا میں محسوس کئے جارہے ہیں۔
اس وقت فضا بدلی بدلی سی محسوس ہو رہی ہے۔قوم، زبان، رنگ، نسل،وطن، علاقہ
اور دیگر پرستاریوں سے یوروپ اپنا دامن بچاتا ہوا محسوس ہورہا ہے اور مختلف
انداز اور حیلے بہانے سے اس کا اظہار بھی کررہا ہے۔ یوروپ کے علاوہ بھی
دیگر ممالک کی طرف سے اسی طرح کے ملے جلے خیالات کا اظہار ہورہا ہے۔ یہ
ساری باتیں ترکی کے صدر کی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ " نیوزی لینڈ کی
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے انسانیت سے بے بہرہ افراد کو انسانیت کا درس دیا
ہے"۔سر پر روپٹہ کااوڑھنا،پارلیمنٹ میں تلاوت سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا،
جمعہ کے روز 16 ریڈیو اسٹیشنوں سے اللہ اکبر کی صدا کا بلند ہونا یقینا غیر
معمولی بات ہے۔ ان سب کے درمیان اس وقت ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں گردش
کررہا ہے اور میڈیا نے بھی اس پر خبریں تیار کی ہیں۔ اس میں ایک نوجوان
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے سامنے بہت ہی اطمینان کےساتھ اسلام پیش کرتا ہے
اور وہ بھی پورے اطمینان سے اس کی باتیں سنتی ہیں اور پھر جو بات کہتی ہیں
وہ مذکورہ تینوں پرستیوں یعنی صلیب پرستی، قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے
نظریہ، فکر وخیال ، پروپیگنڈہ اور ان کے بنے ہوئے جال کو پوری شدت کے ساتھ
مسترد کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ"اسلام انسانیت کی تعلیم دیتا ہے اور مجھ
لگتا ہے کہ یہ میرے پاس ہے"۔بلاشبہ انسانیت سے بے بہرہ افراد کے لئے یہ
جملہ بھی انسانیت کا درس دے رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ دنیا اس کی جانب متوجہ ہو
اور تسلسل کے ساتھ اس طرف توجہ برقرار رہے ، اس کی کوشش ہونی چاہئے۔
|