مار نہیں پیار کا رویہ اپنائیں

اوپر کی منزل سے بچے کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ بچے کے چلانے کی آواز پر گلی محلے داروں سے بھر گئی۔ کیا ہوا؟ سب خیر تو ہے نا؟ سب ہی ایک دوسرے سے سوال کررہے تھے۔ عورت اور بچے کے چیخنے کی آواز میں دہشت ہی ایسی ہے کہ کہیں بھی سنائی دے دل دھل جاتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی حال تھا۔ دروازے کو کھٹکھٹا کر پوچھنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا تھا۔ بات بھی درست تھی کیوں کوئی کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت کرتا۔

محلے داروں میں ایک میں بھی شامل تھا۔ سوالات بھی وہی تھے جو سب کے پاس تھے۔ ہمت کر کے سیڑھیاں چڑھا اور دروازے پر دستک دے ہی ڈالی۔ لمبی مونچھوں کو تاؤ دیتا ایک آدمی بغیر قمیض کے باہر نکلا۔ کیا ہے؟ اس کے اچانک سوال پر میں گھبرا گیا۔ کچھ نہیں بس وہ پوچھنا تھا بچے کی چیخنے کی آواز۔۔۔ تو آپ کا بچہ ہے؟ نہیں مگر بچہ تو ہے نا۔۔۔ بس اپنے کام سے کام رکھیں۔ میرا بچہ ہے اور میں اپنے بچے کو سمجھا رہا ہوں۔ اس کی تربیت میری ذمے داری ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے پر۔۔۔ اس نے دروازہ زور سے بند کردیا۔

عجیب انسان ہے۔ بات تو سن لیتا پوری۔ میں نے دل ہی دل میں کہا۔ ایک سیکنڈ بعد پھر بچے کی چیخ سنائی دی۔ میں ابھی سیڑھیوں پر ہی کھڑا تھا۔ میں نے پھر ہمت کر کے دروازے کو دستک دی۔ وہ ہاتھ میں بیلٹ پکڑے پھر اسی تیزی سے باہر نکلا۔ ابے تیری ہمت کیسے ہوئی میرے دروازے پر دستک دینے کی۔ اس کا یہ لہجہ میرے لیے حیران کن تھا۔ دفع ہوجاؤ ، یہ میری چوکھٹ ہے اور اس پر قدم رکھا تو۔۔۔ وہ خاموش ہوگیا۔ دیوار کے ساتھ بچہ سہما ہوا کھڑا تھا۔ بچے کی ماں بھی خاموش کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔

دیکھ بھائی یہ محلہ ہے۔ آپ کا گھر اپنی جگہ مگر محلے داری کا بھی کوئی حق بنتا ہے۔ آپ کے بچے کی چیخیں پورے محلے میں گونج رہی ہیں۔ میں آپ کو آپ کے بچے کی خاطر ہی منع کرنے آیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ سمجھانا ہے تو پیار سے بیٹھا کر سمجھائیں، میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ بس بس۔۔ میں تمہارے مالک مکان سے بات کرتا ہوں ، اس نے پھر سے زور سے دروازہ بند کردیا۔ البتہ پھر بچے کے چیخنے کی آواز نہیں آئی۔ مجھے کچھ تسلی ہوئی مگر مالک مکان والی دھمکی سے زیادہ ڈر مجھے اس کے پس پردہ کی ایک اور دھمکی دے گئی۔ تم جانتے ہو میں کون ہوں۔۔ اے ایس آئی ہوں۔ ابھی دیکھتا ہوں تم نے میرے دروازے پر آنے کی جرات کیسے کی۔

پولیس اہلکار۔۔ کراچی جیسا اجنبی شہر۔۔ یہ سب قدرے مشکل تھا بھلانا۔ کچھ ہی دیر میں مالک مکان تشریف لائے۔ ساتھ میں مونچھوں والا پولیس والا بھی موجود تھا۔ دیکھ بھائی کسی کے معاملات میں مداخلت کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہر شخص کے گھر کے مسائل ہوتے ہیں اور وہ جیسے چاہیے ان کو حل کرے، آپ کو اس میں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے یہ جملے سن تو لیے مگر مجھ سے ہضم نہیں ہوپارہے تھے البتہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد کبھی بچوں کے چیخنے کی آواز سنائی نہیں دی۔ اس کے بچے نے ہی بتایا کہ ہمارے ابا کا تو یہ روز کا کام ہے، وہ تو ایسے ہی مارتے ہیں۔ کچھ روز بعد محلہ ہی بدل گیا۔ یہ ایک مختصر سا واقعہ ہے مگر اس میں بہت کچھ سمجھنے کا ہے۔ والدین اور محلے داروں یا پڑوسیوں کا کردار تو نمایاں ہے۔

گھر کے سربراہ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ برتاؤ نہ صرف ایک بلکہ کئی خاندانوں پر اثر انداز ہورہا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت پر، جڑے تمام رشتوں پر، پڑوسیوں پر اور خود اس فرد پر جو یہ سب کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیں عموما نظر آتی ہے کہ جو گھر کا ماحول بچے کو پیدائش سے ملتا ہے کچھ ہی عمر کے بعد اسی طرح کا رویہ اس بچے میں بھی دکھنے لگتا ہے۔ جو لوگ کئی طرح کے محلے بدل چکے وہ اس کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔کئی طرح کے گھر بدلتے ہیں، کئی محلوں سے واقفیت ہوتی ہے۔ ہر محلے میں کچھ الگ ہی ہوتا ہے۔ ایک محلے کے بچوں کا رویہ دوسرے محلے کے بچوں کے رویے سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح یہی سب کچھ ایک گھر سے دوسرے گھر تک بدلتا چلا جاتا ہے۔ ہر رویے میں اہم کردار گھر کے ماحول کا ہوتا ہے۔ گھر میں بچے کے والدین آپس میں لڑتے ہیں، بدتمیزی اور بدتہذیبی پائی جاتی ہے تو یہ بچہ خود با خود اس ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب اس بچے کو مار کر سمجھایا جائے یا پیار سے سمجھایا جائے یہ بھی والدین پر ہے۔ بچہ تو وہی کچھ کرتا ہے جو وہ دیکھتا آیا ہے۔

درحقیقت بچوں کی تربیت سے قبل والدین کی تربیت بھی اہم ہے۔ گھر کا ماحول با تہذیب ہوگا تو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بچہ خود با خود ہی ماحول کو اپناتا چلا جائے گا۔ اگر پھر بھی کہیں کچھ بتانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کو سمجھانے کے لیے نرمی سے کام لیا جاسکتا ہے۔ بچے کو دونوں زبانیں ہی سمجھ آجاتی ہیں مگر اس کی عادت یا تو نرم ہوتی ہے یا سخت۔

ایک بچے کو آپ نے گزشتہ روز 5 اسٹار دیے تھے اور آج 2 اسٹار کم کردیے تھے تو اس کے لیے یہ بہت بڑی سزا بن جاتی ہے۔ ایک بچے کو گزشتہ روز 5 ڈنڈے پڑے اور آج 2 کم پڑے تو وہ دن اس کے لیے کل کے دن سے بہت اچھا ہے۔ یہ فرق آپ کو کرنا ہے کہ اپنے بچے کو ڈنڈوں کا عادی بنانا ہے یا اسٹار کا۔ بعض اوقات والدین کا رویہ اس قدر نرم ہوتا ہے کہ اگر وہ ہلکا سا بھی بچے سے ناراض ہوجائیں تو اس بچے کے لیے وہ بہت بڑی سزا ہوتی ہے ۔ وہ آپ کو راضی کرنے کے لیے ہر بات مان لیتا ہے۔ یہ سب سمجھانے والے پر ہے کہ وہ کس انداز سے سمجھاتا ہے۔ بچوں کو کنٹرول کرنا ہے تو ان کے نفسیات کو سمجھیں اور پھر اسی نفسیات کے ذریعے ہی ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں۔ کلی طور چھوٹ دینا یقینا غلط ہے مگر اس قدر تشدد کا رویہ بھی درست نہیں ہے۔ بچوں کو خود سے دور نہ کریں، تشدد کا رویہ آپ کے بچوں کو آپ سے بہت دور کردیتا ہے۔ آپ اپنے ہی بچے کو سمجھاتے سمجھاتے باغی بنا ڈالتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ بچہ آپ کی عدم موجودگی میں آپ کا ہی سخت ترین مخالف ہوتا ہے۔

والدین کے ساتھ ساتھ پڑوسی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اوپر کے واقعے سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کسی کے معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت بھی درست نہیں مگر ضرورت کی حدتک ضروری ہے۔ پڑوسی کی اہمیت شریعت اسلامیہ میں بھی ہے اور ہمارے معاشرتی اقدار میں بھی موجود ہے۔ پڑوسی کے کئی طرح کے حقوق ہیں اور ان میں یہ سب سے اہم ہے کہ آپ کے پڑوس والے کیسے ہیں اور کس حال میں ہیں۔ پوچھنا بھی اور ان کے حالات سے واقفیت رکھنا بھی یہ دونوں آپ کی ذمے داری ہے۔ پڑوسی کے گھر کے اچھے برے کا آپ کو علم ہونا چاہیے۔ لازمی نہیں کہ اگر کچھ برا ہوتو ہی آپ وہاں حاضر ہوجائیں بلکہ اگر وہ ضرورت مند ہیں تو ان کی ضرورت کا جہاں تک ممکن ہو خیال رکھیں۔ کچھ غلط ہورہا ہے تو اس کو روکیں اور اکیلے نہیں روک سکتے تو کچھ افراد کو جمع کر کے لازمی اس کا سدباب کریں۔ یہاں پھر یاد رکھیں کسی کے گھر کو بچانے کے بجائے تڑوانے والا کردار ہرگز ادا نہیں کرنا۔ بہتر طریقے سے، شائستگی اور ملائم انداز میں صلح کروائیں۔

خاموش نہیں بیٹھنا اور نہ ہی ڈھیٹ کا کردار ادا کرنا ہے۔ کچھ نہیں ہوگا تو کم از کم آپ کا فرض ہے وہ تو ادا ہوہی جائے گا۔ اگر میں بھی باقی محلے داروں کی طرح خاموش رہتا تو بچہ روز کی طرح پٹتا رہتا۔میرے بولنے پر کچھ نہیں بھی ہوا کم از کم دوبارہ کبھی چیخنے کے آواز تو سنائی نہیں دی نا۔ یہ سب آپ کو بھی کرنا ہے مگر یاد رہے کسی کے لیے وبال جان نہیں بننا شائستگی کا دامن تھام کر کرنا ہے۔

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 76264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.