مولانا فضل الرحمن،مفتی منیب الرحمن ،مولاناطارق جمیل
اورعلامہ لدھیانوی جیسے کچھ سیاسی ومذہبی علماء سے دشمنی، اختلاف اوربغض
وعنادکی وجہ سے پھر بعض نہیں اکثرلوگ دین سے تعلق اورنسبت رکھنے والے سارے
علماء کوآڑے ہاتھوں لینے اوراپنے ناپاک عزائم تلے روندنے سے دریغ نہیں
کرتے۔جن لوگوں کوبھی مولانافضل الرحمن،مفتی منیب
الرحمن،مولانامحمداحمدلدھیانوی یاپھرمولاناطارق جمیل سے ذرہ بھی کوئی
بغض،گلہ اورشکوہ وشکایت ہوتووہ پھربجائے اپنی بات ان مولویوں تک محدودرکھنے
کے علماء کے پورے طبقے پراسلام دشمنوں کے بھاگے ہوئے گھوڑے کی طرح اس طرح
دوڑپڑتے ہیں کہ یوں کسی ایک مولوی سے بغض،گلے ،شکوے ا ورشکایت پرپھرسارے بے
چارے علماء نشانے پرآجاتے ہیں ۔ علماء سے بغض وعناد کی وجہ سے ہمارے اس ملک
اورمعاشرے میں بچے کے کان میں اذان سے لیکرمردے کے جنازے تک سب
مناظراورحالات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجودبڑی بے شرمی اورڈھٹائی کے
ساتھ پھر یہ سوال کیاجاتاہے کہ مولوی نے ہمیں کیادیا۔۔؟افسوس کی بات تو یہ
ہے کہ یہ سوال جس کواپنابھی نہیں پتہ ہوتاوہ بھی کلمہ طیبہ کے نام پربننے
والے اس ملک میں روزانہ پوچھتاپھرتاہے۔۔ مگریہ نہ کوئی سوچتاہے ۔نہ کہتاہے
اورنہ ہی کوئی اپنے آپ سے پوچھتاہے کہ ہم نے آخرمولوی کوکیادیا۔۔؟مولانا
فضل الرحمن ہماراکوئی رشتہ دارہے نہ ہی مولاناطارق جمیل،مفتی منیب الرحمن
اورعلامہ لدھیانوی ہمارے کوئی مامے ہیں یاچاچے۔لیکن ہاں دین کی نسبت
اورتعلق کی وجہ سے ہماراان سے ایک مضبوط اوردل والارشتہ ہے۔سیاسی ،مذہبی
اورذاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن دن کے اسی رشتے کی وجہ سے ہم خودکوکل بھی نہ
صرف مولانا فضل الرحمن،مولاناطارق جمیل،مفتی منیب الرحمن اورعلامہ لدھیانوی
بلکہ قال اﷲ اورقال رسول اﷲ کی صدالگانے والے تمام علمائے کرام کے پاؤں کی
خاک سمجھتے تھے اورآج بھی سمجھتے ہیں ۔جولوگ اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات کی
چادرتلے یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ مولوی نے انہیں کیادیا۔۔؟توہم بتادیتے ہیں
کہ مولوی نے نہ صرف انہیں بلکہ ہم سب کوکیادیا۔۔؟آج ہم جس اسلام پرتن ،من
اوردھن کی قربانی دینے اورخودکومسلمان کہنے پرفخرمحسوس کرتے ہیں یہی
مسلمانی انہی علمائے کرام کی محنت ،جدوجہد،قربانیوں اورکوششوں کی وجہ سے ہم
تک پہنچی۔ماناکہ دن کی تبلیغ اورلوگوں کی ہدایت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے کم
وبیش ایک لاکھ چوپیس ہزارپیغمبرمبعوث فرمائے لیکن اﷲ کے آخری پیغمبراوررسول
حضرت محمدﷺکوخاتم النبین کادرجہ ملنے کے بعدعلمائے کرام ہی انبیاء کے وارث
ٹھہرے اورانبیاء کرام وصحابہ کرام کے بعد انہی علماء کی وجہ سے دین کاپیغام
دنیاکے کونے کونے تک پہنچا۔ ڈاکٹری ،انجینئرنگ،گلوکاری اورفنکاری توہمیں
بہت سوں نے سیکھائی،دنیامیں جینے اوردوسروں کوجینے نہ دینے کے خطرناک
ہنر،طریقے اورسلیقے بھی ہمیں بہت سارے لوگوں نے بتائے ،سیکھائے اوردکھائے
لیکن نماز،روزہ ،حج،دین اورمسلمانی کے کام ہمیں صرف انہی علمائے کرام نے ہی
نہ صرف قدم قدم پرسیکھائے بلکہ ہرموقع پر بتلائیبھی۔پیدائش سے لیکرروح کے
پروازتک یہ علماء ہمارے ساتھ رہے،ہم نے آنکھ کھولی توانہی علماء نے ہمارے
کانوں میں اذان دی،تھوڑے بڑے ہوئے تونورانی قاعدہ ،کلمہ طیبہ اوردین کے اہم
اسباق اورمسائل انہی علماء نے ہمیں سمجھائے اوریادکرائے۔دنیاکے لوگوں کے
ساتھ توتعلق ہم نے خودجوڑالیکن اﷲ سے تعلق جوڑنے کے طریقے ہمیں انہی علماء
نے بتائے۔نماز،روزہ،حج ،زکوٰۃ،حرام اورحلال بارے تمیزو آگاہی دے کران
علمائے کرام نے ہی مسلمانی کے ڈھال میں ہمیں ڈالا۔ہم دنیاکے کاموں
اورمصروفیت میں ہروقت مگن رہے مگریہی علمائے کرام بغیرکسی مفاداورلالچ کے
ہروقت ہماری فکرکرتے رہے۔ہمیں اپنے بچوں کی انگلش میڈیم اورآکسفورڈجیسی
عصری تعلیمی اداروں میں داخلے کی فکرتورہی لیکن ہمارے بچوں کی دین اوردینی
تعلیمات کی فکرانہی علمائے کرام نے اپنے ذمے لی۔یہ علماء اورمولوی اگرہمیں
کچھ نہ دیتے توآج ہمارے بچوں کودینی تعلیمات سے آگاہی تودوران کوکلمہ تک
بھی یادنہ ہوتا۔انہی علمائے کرام نے نامساعدحالات اورکم وسائل کے
باوجودہمارے بچوں کودینی تعلیمات سے روشناس کرکے اس ملک اورمٹی پراسلام کی
آبیاری کی ۔ جسم سے روح کارشتہ ختم ہونے پرجب دنیابھی منہ موڑتاہے اس وقت
بھی یہی علماء ہمارے سرہانے کھڑے ہوکرہماری بخشش کی دعائیں مانگتے
ہیں۔پیدائش پرکانوں میں اذان سے لے کرنمازجنازہ اورکفن دفن تک ان مولویوں
نے ہمیں کسی مقام پراکیلانہیں چھوڑا۔انگلش میڈیم سکولوں اوردیگرعصری اداروں
میں ہمارے بچوں کی پڑھائی پرلاکھوں اورکروڑوں پرلگتے ہیں ۔کسی کے پاس پیسے
نہ ہوں تواس کے بچوں کوان سکولوں اوراداروں میں اندرجانے کی اجازت بھی نہیں
ملتی اس کے مقابلے میں انہی مولویوں کی برکت اورمحنت سے کراچی سے گلگت
اورچترال سے کوئٹہ تک ملک بھرمیں ہرجگہ ایسے ایسے دینی مدارس قائم ہیں جہاں
ہمارے لاکھوں اورکروڑوں بچوں کوباالکل مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ان مدارس میں
امیروغریب کی بھی کوئی تفریق نہیں ۔نہ ہی رنگ اورنسل کی کوئی شرط ہے۔جوبھی
بچہ چاہے وہ امیرہویاغریب ۔علم کی پیاس بجھانے کے لئے ان مدارس کا رخ کرے
توانہیں خوش آمدیدکہاجاتاہے۔ مولویوں نے تومفت میں ہمیں قاری بھی دیئے،عالم
بھی دیئے اورمفتی بھی دیئے ۔سب سے بڑھ کریہ کہ جس طرح پاک فوج کے ہزاروں
اورلاکھوں جوان ملک کے سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں اسی طرح یہی مولوی برسوں
سے ہمارے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔مولوی نے
توہمیں اتناکچھ دیا۔اب ذرہ اپنے گریبان میں جھانکیں ۔ہم نے اس مولوی
کوکیادیا۔۔؟کیااس مولوی کوجوہماراامام اورہم جس کے مقتدی ہیں اس کواس ملک
اورمعاشرے میں کسی اعلیٰ سرکاری پوسٹ اورعہدے کے قابل ہم نے سمجھا۔۔؟کیاان
مولویوں کاشکریہ اداکرنے کے لئے ان کے اعزازمیں سرکاری طورپرہم نے کوئی
تقریب منعقدکی۔۔؟اس ملک میں حکومت کی جانب سے گلوکاروں اورفنکاروں سمیت
ہرطبقہ فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑے بڑے تمغے اورایوارڈملے لیکن ملک
کی تاریخ میں آج تک کیاکسی مولوی کوسرکاری سطح پر کوئی ایوارڈملا۔۔؟71سالوں
سے قومی ایوارڈکے لئے ہمیں فنکار، گلوکار، کھلاڑی،سیاستدان
،انجینئر،ڈاکٹراوردیگرتویادرہے لیکن جس مولوی کے پیچھے ہم پانچ وقت
نمازپڑھتے ہیں وہ71سالوں میں قومی ایوارڈکے لئے ہمیں ایک باربھی یادنہیں
رہے۔۔؟اس کے باوجودآج جولوگ یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ مولوی نے ہمیں
کیادیا۔۔؟ان کوچھلوبھرپانی میں ڈوب کرمرناچاہئیے۔ مولویوں کے بارے میں یہ
سوال کہ انہوں نے ہمیں کیادیاسے پہلے ہم سب کو اپنے گریبانوں میں جھانک
کرخودسے یہ سوال کرناچاہئیے کہ ہم نے مولوی کوکیادیا۔۔؟انصاف کی نظرسے
دیکھاجائے توعلماء کاہمارے اوپرجوحق تھاوہ ہم نے ادانہیں کیا۔کسی ایک
قاری،مولوی اورمفتی سے اختلاف،بغض اورعنادکی وجہ سے سارے علماء کونشانہ
بناکرہم نے اپنے پاؤں پرآپ کلہاڑی ماری۔آج قدم قدم پرہمارے یہ مسائل دین
اوردین والوں سے دوری کانتیجہ ہے۔ہمیں دونوں جہانوں میں کامیابی کے لئے
خودکودین اوردیندارکے ساتھ جوڑناہوگا۔جب تک ہمارے دلوں میں اﷲ والوں کے لئے
عزت،احترام اورمحبت کارشتہ قائم نہیں ہوتااس وقت تک ہم نہ یہاں کامیاب
ہوسکتے ہیں اورنہ ہی وہاں۔ |