جس طرح معاشرے میں پڑوسی، والدین، میاں بیوی اور اساتذہ
کے حقوق ہوتیہیں اسی طرح کلام اﷲ یعنی قرآنِ کریم کے بھی کچھ حقوق ہیں، جس
کا ادا کرنا ہمارے ذمے لازم ہے۔ قرآنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کا
محتاج نہیں، یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں
کا سردار ہے۔ جس طرح اس کا مرتبہ بلند وبالا ہے اسی طرح اس کے حقوق ادا نہ
کرنا بھی سنگین جرم ہوگا۔
قرآن کریم کے پانچ حقوق ہیں:(1) قرآن پر ایمان لانا۔ (2) اس کی تلاوت کرنا۔
(3) اسے سمجھنا۔ (4) اس پر عمل کرنا۔ (5) اسے دوسروں تک پہنچانا۔ اب ہر ایک
کی تفصیل یہ ہے۔
پہلا حق:قرآن مجید کا پہلا حق یہ کہ اس پر ایمان لایا جائے، کہ یہ اﷲ تعالی
کا آسمانی کتاب ہے، انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے آخری پیغمبر، محمد
مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ہے، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ قرآن کریم
کے متعلق یہ عقیدہ اور ایمان تقریباً ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔
دوسرا حق: دوسرا حق یہ کہ اس عظیم الشان کتاب کی تلاوت کی جائے، یعنی جب ہم
نے یہ تسلیم کیا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہے تو پھر اس کی
تلاوت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی ایک ایک حرف پر نبی علیہ السلام
نے دس دس نیکیوں کی بشارت سنائی ہے۔ نبی علیہ السلام کو بھی باقاعدہ اس کی
تلاوت کا حکم دیا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ''اتل ما اوحی الیک من
الکتاب و اقم الصلوۃ''(سورۃ عنکبوت) آپ پر جو قرآن وحی کی گئی ہے اس کی
تلاوت کیا کرو اور نماز قائم کیا کرو۔ اس کے بعد نبی علیہ السلام کی یہ
حالت تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لاتے تو نبی علیہ السلام ساتھ
ساتھ پڑھتے تھے، نبی علیہ السلام اس خوف کی وجہ سے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے کہ
کہیں بھول نہ جائے، لیکن اﷲ رب العزت نے حکم دیا کہ نزول کے وقت آپ زبان کو
حرکت مت دیجئے، اس کو آپ کے سینے میں جمع کرنا، پھر آپ کی زبان سے پڑھانا
ہماري ذمہ داری ہے۔ تلاوت کے بارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ چوبیس گھنٹے
تلاوت کرے، بلکہ آداب کے ساتھ روزانہ کے بنیاد پر کرنا چاہیے۔ جتنا بس میں
ہوں اتنا کرلیں، ہمارے اکابرین میں سے اکثر حضرات ایسے ہے جو روزانہ ایک
پارہ تلاوت کرتے ہیں، اگرچہ سفر پر کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح ایک معمول بنانا
چاہیے جو روزانہ کے بنیاد پر ہوں۔
تیسرا حق: تیسرا حق ہے قرآن کو سمجھنا، اس کے معانی اور مطالب پر غور کرنا،
کہ اس کلام الہٰی میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟ اس میں ہمارے لیے کیا کیا
خوشخبریاں اور کیا کیا تخویفات ہیں؟ یہ کتاب اﷲ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے
ایک پیغام ہے، پیغام جب کسی کے پاس آجائے تو وہ اس کو غور سے مطالعہ کرتا
ہے، اگر خود کوئی لفظ سمجھنے میں مشکل ہو تو کسی اور کے پاس جاتا ہے کہ اس
کا کیا معنیٰ ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔
بعض حضرات کو شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ مشکل ہے، اس کا سمجھنا آسان
نہیں، لیکن اﷲ تعالی نے یہ وسوسہ اور بہانہ بھی ختم کر لیا۔ اﷲ تعالی نے
سورۃ قمر میں فرمایا: '' ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر'' کہ ہم نے
قرآن نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے؟ یاد
رکھئیے! قرآن کا سمجھنا دو طرح کی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کی
وحدانیت کے جو دلائل ہیں وہ سمجھا جائے، بڑے بڑے احکام، بشارات اور تخویفات
سمجھا جائے، یہ ہے عوام کا سمجھنا، یعنی یہ عوام کی بس کی بات ہے، کیونکہ
قرآن کریم کا طرزِ استدال بہت سادہ اور آسان ہے، جگہ جگہ مثالیں دے کر
مسئلہ سمجھایا گیا، یہ صرف لفظی ترجمہ سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ دوسرا ہے
علماء اور فقہاء کا سمجھنا، کہ اس سے مسائل استنباط کریں، ایک ایک لفظ پر
غور کریں، جس طرح مفسرین حضرات نے کیا ہے اور کرتے ہیں، چودہ سو سال سے یہ
کوشش جاری ہے، سینکڑوں تفاسیر لکھی گئیں، لیکن آج تک کوئی انتہاء تک نہیں
پہنچا۔
بعض لوگ تو وہ ہے جو صرف عربی گرائمر سیکھ کر قرآن فہمی کا دعویٰ کرہا ہے،
لیکن خبردار قرآن کی سمجھ وہ ہے جو احادیثِ رسول، اقوالِ صحابہ اور تابعین
کی روشنی میں ہوں۔ صرف اپنی رائے سے تفسیر کرنا عذابِ الہٰی کو دعوت دینا
ہے۔
چھوتا حق: قرآن مجید کا چھوتا حق ہے اس پر عمل کرنا، کیونکہ سیکھنے کے بعد
عمل ہی کا مرحلہ ہے۔ اس کو عملی زندگی میں لانا، چاہیے وہ انفرادی ہو یا
اجتماعی۔ قرآن کریم مکمّل ظابطہ حیات ہے، اس نے زندگی کی ہر پہلو پر روشنی
ڈالی ہے۔ وہ علم علم نہیں جس پر عمل نہ ہو، عمل کا یہ حکم نبی علیہ کو بھی
دیا گیا، جن کی مبارک زندگی ہمارے لیے نمونہ اور ماڈل ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
''اتبع ما اوحی الیک من ربک'' کہ آپ اس وحی کی پیروی فرمائیں۔ یہی وجہ ہے
کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں: ''کان خلقہ القرآن'' کہ سارا قرآن
نبی علیہ السلام کے اخلاق ہے۔ بہرحال قرآن کریم تب ذریعہ نجات بنیگا جب اس
پر عمل ہوں۔
پانچواں حق: قرآن مجید کا پانچواں حق ہے دوسروں تک پہنچانا۔ یہی فریضہ سب
سے پہلے جناب نبی کریم ﷺ پر عائد کی گئی تھی کہ آپ یہ قرآن دوسروں تک
پہنچائے، '' بلغ ما انزل الیک من ربک '' یعنی آپ کی طرف جو وحی نازل کی گئی
ہے اس کو دوسروں تک پہنچائیں، اس کی تبلیغ کریں۔ اس کے بعد نبی علیہ السلام
نے دن رات قرآن کی تبلیغ فرمائی ہے، اس کے خاطر تکلیفیں برداشت کی، جنگیں
لڑی، بدر و احد کے معرکے پیش آئے لیکن نبی علیہ السلام اس مشن میں مصروف
رہے، آج ہر امتی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ قرآن کی تبلیغ کرے، اس کی نشر واشاعت
کرے، کیونکہ نبی علیہ السلام کیبعد نبوت کا دوازہ بند ہوچکا ہے۔ ارشاد نبوی
کیمطابق قرآن سیکھنے سکھانے والے کا بہت بڑا مقام ہے، چنانچہ نبی علیہ
السلام نے فرمایا: '' تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے''۔
|