گزشتہ دنوں عساکرِپاکستان کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید
باجوہ سے اتحاد تنظیمات اور مختلف مکاتب فکرکے سرکردہ اور نمائندہ علماء
کرام اور مذہبی رہنماؤں کی تفصیلی،یادگار اور تاریخ سازملاقات ہوئی۔یہ
ملاقات یکم اپریل بروز پیرنمازمغرب سے رات گیارہ بجے تک جاری رہی- اس موقع
پر ڈی جی آئی ایس آئی،مختلف کورکمانڈرز،جرنیل اور فوج کی اعلی سطحی قیادت
بھی موجود تھی۔اس موقع پر مختلف امور زیربحث آئے لیکن بنیادی طور پر اس
ملاقات کا ایجنڈااور مقصددوموضوعات تھے
(۱)کالعدم تنظیمیں (۲)دینی مدارس
اس موقع پرجنرل قمرجاویدباجوہ نے بھی کھل کراپنے عزائم اور خیالات کا
اظہارکیاجبکہ علماء کرام اور مذہبی قائدین نے بھی اپنادل اوردرددل کھول
کررکھا۔یوں یہ ملاقات وطن عزیزکی جغرافیائی سرحدوں کے رکھوالوں اورنظریاتی
سرحدوں کے پاسبانوں کے مابین ایک ایساپل اور مستقبل کے حوالے سے ایساسنگ
میل بن گئی جس کے اثرات وثمرات مدتوں حاصل ہوتے رہیں گے۔
اس موقع پر گلے شکووں کا اظہار بھی کیاگیا،ماضی کے اقدامات ، پالیسیوں پر
کھل کر بحث بھی کی گئی اور پاکستان کے بہتر مستقبل اور استحکام کے حوالے سے
بہت سے نیک عزائم اور ارادوں کا اظہار بھی کیاگیا۔آرمی چیف اور ان کے رفقاء
کی گفتگو کالب لباب اور حاصل یہ تھاکہ پاکستان سے تشدد،انتہاپسندی کو سرے
سے ختم کرنااور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مکمل سدباب کرناہے جبکہ جہاد بمعنی
قتال صرف ریاست اور فوج کا کام ہے۔اسی طرح دینی مدارس کے بارے میں چیف آف
آرمی سٹاف کا کہناتھاکہ وہ دینی مدارس کے کردار وخدمات کے معترف ہیں،ان کو
ختم یاکمزور کرنے کاتصور تک نہیں کرسکتے لیکن دینی مدارس کے نظام میں بہتری
کے خواہاں ہیں تاکہ دینی مدارس کے فضلاء زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات
سرانجام دے سکیں۔اس کے لئے عصری تعلیم اور عصری تقاضوں کو پیش نظر
رکھناہوگا۔دینی مدارس کے مالیاتی نظام کو منظم اورشفاف بناناہوگااوردینی
مدارس کے نظام ونصاب کو تشدد،انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث
بننے والے عوامل سے دوررکھناہوگا۔اس موقع پر مختلف علماء کرام نے اپنے
جذبات،خیالات اور آراء وافکار کااظہارکیا۔
راقم الحروف کو جب گفتگوکا موقع ملاتو اﷲ رب العزت کی توفیق سے کوئی لگی
لپٹی رکھے بغیردینی مدارس کا مقدمہ اور پاکستان میں مذہب اور مذہبی طبقات
کا بیانیہ بہت واضح انداز میں بیان کیا۔
میری معروضات کاخلاصہ یہ تھاکہ کالعدم تنظیموں،فرقہ وارانہ منافرت،دہشت
گردی اور دیگر امور کو مدرسہ سے بالکل الگ رکھاجائے کیونکہ مدرسہ کا ان
امور سے کوئی تعلق نہیں۔مدرسہ دینی تعلیم اور قرآن وسنت کے علوم کی ترویج
واشاعت کا ادارہ ہے اس لئے ہم ہرفورم کی طرح اس اہم ترین فورم پر بھی یہ
پیشکش کرتے ہیں کہ ہمارے نصاب میں شامل کتب میں فرقہ واریت،تشدداور
انتہاپسندی پر مبنی کسی بھی قسم کے مواد کی نشاندہی کی جائے ہم ازخود اسے
تبدیل کریں گے۔
پانچوں وفاقوں سے ملحقہ مدارس کسی قسم کی دہشت گردی،فرقہ واریت اور
تشددوانتہاپسندی میں ملوث نہیں لیکن اگر کسی بھی ادارے کے اس قسم کی منفی
سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کئے جائیں توحکومت سے پہلے ہم اس کے
خلاف ازخودتادیبی کاروائی کریں گے۔میں نے کہاکہ آپ کی طرف سے آج اتنے عرصے
بعد جو باتیں سامنے آرہی ہیں علماء کرام اور ارباب مدار س تو بہت پہلے سے
اس پر بہت واضح مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔ہم نے پیغام پاکستان جاری کیا۔ ہم نے
دہشت گردی کے خلاف فتاوی جاری کئے۔ہم نے خودکش حملوں اور بے گناہ لوگوں کے
قتل کے خلاف فکری اور نظریاتی محاذ پر جہد مسلسل کی اور اس محاذ پر
قربانیاں دیں۔کتنے علماء شہیدہوئے،کتنے لوگوں کودہشت گردی اور خود کش حملوں
کانشانہ بنایاگیا وطن عزیز میں تشدد اوردہشت گردی کی جو لہر آئی اسے روکنے
کے لئے پاک فوج،قومی سلامتی کے اداروں،پولیس اور دیگر نے جہاں قربانیاں
دیں،کردار اداکیااس سے بڑھ کر علماء کرام،دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کا
کردار رہالیکن بدقسمتی سے قومی سطح پر اس کردار کا کبھی اعتراف نہیں
کیاگیا۔صرف یہی ایک مثال لے لیجئے کہ ابھی 23مارچ کے موقع پر مختلف شعبوں
سے تعلق رکھنے والوں کو جو اعزازات دیے گئے ان کی فہرست سامنے رکھیے اس سے
قبل 14اگست،23مارچ اور دیگرمواقع پر جن لوگوں کو اعزازات دیے جاتے ہیں ان
میں کتنے علماء،کتنے مفتیان کرام،کتنے محققین ومصنفین اوردہشت گردی کاشکار
ہونے والی کتنی علمی شخصیات شامل ہیں؟۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ علماء کرام
نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن ان کا اعتراف تک نہیں کیاگیا۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہاکہ کالعدم تنظیموں کو الگ رکھیں اور مدارس کو الگ
رکھیں تاہم کالعدم تنظیموں کا معاملہ بھی چونکہ ہماراقومی وملکی مسئلہ ہے
اور اس میں بھی دو طرح کی تنظیمیں ہیں۔
ایک وہ جوریاست سے لڑیں اوردوسری وہ جوریاست کے لیے لڑیں۔اس کے اسباب اور
پس منظر کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون تھاتاہم اب اگر اس
حوالے سے پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے تو اس بات کا
خیال رکھاجائے کہ (۱)عدل وانصاف اور برابری کی بنیاد پر اقدامات اٹھائے
جائیں، کسی قسم کی جانبداری اور زیادتی سے کام نہ لیاجائے (۲)بے گناہ،بے
قصور اور غیر متعلق لوگوں کو نشانہ نہ بنایاجائے (۳)کالعدم تنظیموں کاحصہ
رہنے والے افراد کے لئے کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کی جائے جس سے وہ قومی
دھارے میں آئیں۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ''ون نیشن ون ایجوکیشن''
کی بات خوش آئندہے جس کاہم نے ہمیشہ خیرمقدم کیااور یکساں نصاب کے معاملہ
میں ہم نہیں کوئی اور لوگ رکاوٹ ہیں۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ عصری اداروں میں
دینی اوردینی اداروں میں عصری نصاب شامل کیاجائے اور کم از کم میٹرک کی سطح
تک سب اداروں میں ایک ہی نصاب پڑھایاجائے اس کے بعد اسپشلائزیشن کا دور ہے
جیسے کچھ لوگ میڈیکل،انجنئیرنگ،لاء وغیرہ کے شعبوں میں چلے جاتے ہیں ایسے
ہی دینی تعلیم میں جواختصاص حاصل کرناچاہیں وہ مدارس کا رخ کریں۔پھرمیں نے
دینی مدارس کے مسائل پر کھل کرروشنی ڈالی کہ کس طرح حکومتی ڈھانچہ مدارس کی
رجسٹریشن میں روڑے اٹکاتاہے،کس طرح کوائف طلبی کے نام پر مدارس کوآئے روز
پریشان کیاجاتاہے،اسناد کے معاملے میں دینی مدارس کے فضلاء سے کس طرح
سوتیلوں والاسلوک ہوتاہے،بنکوں نے دینی مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے پر کیسے
غیراعلانیہ پابندی عائدکررکھی ہے۔اور ہم گزشتہ دوعشروں سے مدارس کے ایشوز
پر مذاکرات بھی کررہے ہیں،ملاقاتیں بھی کررہے ہیں،کئی معاہدے بھی کئے
جاچکے،بہت سے فورمزپرعہدوپیماں کئے گئے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا؛ اس پر چیف
آف آرمی ا سٹاف نے وعدہ کیاکہ دینی مدارس کے جملہ مسائل کو ترجیحی بنیادوں
پر حل کیاجائے گااور ایک بااختیار کمیٹی بنائی جائے گی جو جملہ امور کو
دیکھے گی، انہوں نے کہاکہ دینی مدارس کی قیادت کو اعتمادمیں لئے بغیریک
طرفہ طورپرمدارس کے بارے کوئی فیصلہ نہیں کیاجائے گاانہوں نے یہ بھی واضح
کیاکہ ہم مدارس کی آزادی سلب نہیں کرناچاہتے،مدارس کے نظم کو ختم نہیں
کرناچاہتے ان کی عظمت،وجود،کردار،خدمات کے قائل ہیں لیکن باہمی مشاورت سے
اصلاحِ احوال کی کوشش لازم ہے۔
آرمی چیف سے ملاقات کے بعد ہماری وزیر اعظم پاکستان اور صدرِپاکستان سے بھی
ملاقاتیں ہوئیں ،ہم نے وزیر اعظم سے شکوہ کیاکہ آپ سے3 اکتوبر کو ہماری
ملاقات ہوئی تھی اور اب2اپریل آگیا7ماہ کاعرصہ گزرگیا اس دوران کسی سنجیدگی
کا مظاہرہ نہیں کیاگیا۔جن وزیر تعلیم کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی تھی
انہوں نے اس عرصے میں دینی مدارس کی قیادت سے ایک ملاقات یارابطہ کرنے کی
ضرورت بھی محسوس نہیں کی؛ اس پر وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی
کروائی کہ اب ترجیحی بنیادوں پر دینی مدارس کے مسائل حل کئے جائیں گے۔
الغرض گزشتہ دنوں ملاقاتیں اور بات چیت تو بہت خوش گوار اور حوصلہ افزاء
رہی لیکن عملی طور پر کیاہوتاہے یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا۔
ہماری دعاہے کہ اﷲ رب العزت ہم سب کو اپنے دین اور اپنے ملک وملت کی بہتری
کے لئے کردار اداء کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
آمین |