ایک شخص اپنے محلے کی دکانوں سے آٹا، دال، چاول، گوشت
وغیرہ خرید کر اپنے گھر کے باہر ریڑھی لگا کر کھانا بیچتا ہے اور اپنی روزی
کماتا ہے۔ اپنے اخراجات کے حساب سے اسے ایک آئٹم پچاس روپے میں پڑتا ہے اور
وہ اسے سو روپے میں بیچ کر پچاس روپے منافع کماتا ہے۔
چونکہ وہ اپنا مال اپنے محلے کی پرچون، سبزی اور گوشت کی دکانوں سے خریدتا
ہے، اس لئے اس کے ساتھ ساتھ ان دکانداروں کا بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان
کا مال بکتا ہے، جس سے ان کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
پھر ایک دن بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور وہاں کھل جاتا ہے، جو کہ ملک گیر سطح پر
پھیلا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ان کی سپلائی، آپریشنز اور مارجنز، کسی بھی
چھوٹے دکاندار سے بہتر ہوتے ہیں۔ وہ ڈیپارٹمنل سٹور اپنی اشیا پانچ سے دس
فیصد کم قیمتوں پر بیچنا شروع کردیتا ہے۔
آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر ہوگا؟
درست سمجھے، وہ ریڑھی والا شخص اپنے محلے کے پرانے دکانداروں کو چھوڑ کر اس
ڈیپارٹمنٹل سٹور سے خریدنا شروع کردے گا۔ نہ صرف ریڑھی والا، بلکہ محلے کے
دوسرے لوگ بھی یہی کریں گے۔
نتیجہ؟ وہ چھوٹے دکاندار بشمول پرچون، سبزی اور گوشت کی دکانوں کی سیل
آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جائے گی ۔ ۔ ۔ ان کے مارجنز پہلے ہی کم تھے، جب
سیل کم ہوگئی تو وہ ایک ایک کرکے اپنی دکانیں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اب اسی صورتحال کو تھوڑا مزید آگے لے جائیں۔ اسی ڈیپارٹمنٹل سٹور کے ساتھ
سٹور نے اپنا ایک کیفے ٹیریا بھی شروع کرلیا جہاں کسٹمرز کو اچھے ماحول میں
نسبتاً سستے داموں کھانا ملنا شروع ہوگیا۔ اب وہ شخص جو گھر میں کھانا پکا
کر ریڑھی پر بیچا کرتا تھا، اس کی بکری بھی کم ہونا شروع ہوگئی اور آہستہ
آہستہ وہ بھی تینوں چھوٹے دکانداروں کی طرح بیروزگار ہوگیا۔
یہی کچھ پاکستان کی معیشت کے ساتھ سابقہ ادوار میں کیا گیا۔
کسی بھی ملک کی معیشت کی بنیاد اس کی آمدن ہوتی ہے اور آمدن کا سب سے بڑا
ذریعہ ایکسپورٹس ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں لوکل انڈسٹری کام کررہی ہے جس کی
اشیا غیرممالک کو فروخت ہوتی ہیں تو آپ کا ملک کماؤ پوت ہے۔ یہ اشیا مقامی
صنعتکار جب بیرون ملک ایکسپورٹ کرتا ہے تو ایکسپورٹ کی پیمنٹ ڈالرز میں
ہوتی ہے، یہ ڈالرز حکومت کے زرمبادلہ میں جاتے ہیں اور ان کے مساوی روپے
صنعتکار کو مل جاتے ہیں۔ یوں صنعتکار کو اپنی پراڈکٹس کا اچھا منافع مل
جاتا ہے، اور حکومت کے پاس ڈالرز آجاتے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں تیل سے لے کر ہیوی مشینری تک، امپورٹ کرنا پڑتا ہے، اور
جب حکومت یا مقامی صنعتکار کوئی شے امپورٹ کرتے ہیں تو اس کی ادائیگی بھی
ڈالرز میں ہوتی ہے۔ صنعتکار تو اس کی ادائیگی روپوں میں کرتا ہے لیکن حکومت
ان روپوں کے بدلے اپنے فارن ایسچینج میں موجود ڈالرز سے اس ملک کو ادائیگی
کرتی ہے جہاں سے امپورٹ کی گئی۔ جب امپورٹس زیادہ اور ایکسپورٹس کم ہوں تو
اسے تجاری خسارہ کہتے ہیں، کیونکہ حکومت کو ڈالرز حاصل کرنے کیلئے قرضہ
لینا پڑتا ہے، پھر اس قرضے کی قسطیں ادا کرنے کیلئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے
اور یوں بھنور میں دھنسنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
سابقہ ادوار میں پاکستان کے ساتھ یہی زیادتی کی گئی کہ ایکسپورٹس کم کرکے
امپورٹ بڑھا دی گئیں جس سے تجاری خسارہ بڑھنا شروع ہوگیا۔
اسحاق ڈار کے بعد جب ن لیگ نے مفتاح کو وزیرخزانہ بنایا تو اس کا بیان آج
بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ اسحاق ڈار نے روپے کی قیمت
کو مصنوعی طور پر 105 پر رکھنے کیلئے چوبیس ارب ڈالرز قرضہ لیا جس سے معیشت
تباہ ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ مفتاح اسماعیل کے چھ ماہ میں روپے کی قیمت 105
سے بڑھ کر 125 کے قریب آگئی۔
اسحاق ڈار نے جو کاروائی ڈالی، وہ کچھ یوں تھی:
پاکستان میں اگر ایک نائلون کی چپل مقامی طور پر تیار ہو کر صنعتکار کو 80
روپے میں پڑتی تھی تو یہی چپل چائنہ سے امپورٹ کرنے کے بعد ڈیوٹی وغیرہ ادا
کرنے کے بعد بھی 60 روپے میں پڑتی تھی۔ ایسے میں کون پاگل ہوگا جو چپل تیار
کرنے کی انڈسٹری چلاتا رہے، جبکہ اسے پتہ ہے کہ وہی آئٹم بآسانی امپورٹ
کرکے اس سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ ایک ایک کرکے پاکستان میں لوکل انڈسٹری بند ہوتی گئی اور پوری معیشت
چائنہ سے امپورٹ کردہ اشیا کے چنگل میں پھنستی گئی۔ بچوں کے ہوزری کے کپڑے
جو کبھی کراچی اور گوجرانوالہ فیصل آباد میں تیار ہوا کرتے تھے، اب سب کے
سب چائنہ سے امپورٹ ہونے لگے، میک اپ کا سامان، الیکٹرونکس، حتی کہ لہسن
اور اناج تک چائنہ سے آنا شروع ہوگیا۔
اس امپورٹ کا نقصان یہ ہوا کہ مقامی انڈسٹری تباہ گئی اور امپورٹس بے تحاشہ
بڑھ گئیں جس سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا اور یوں پاکستان قرضے لینے پر مجبور
ہوتا گیا۔
امپورٹ کے اس خطرناک رحجان کا خاتمہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب امپورٹڈ
اشیا کی قیمتوں کو مقامی اشیا کی قیمتوں کے برابر یا پھر مہنگا کیا جاسکے
تاکہ مقامی صنعتکار کو لوکل انڈسٹری لگانے میں منافع نظر آئے اور پاکستان
میں صنعتکاری کا رحجان شروع ہوسکے۔ اس سے ملازمتیں بھی بڑھتی ہیں اور
ایکسپورٹ انکم کے چانسز بھی بڑھتے ہیں۔
اس حوالے سے اسد عمر نے کیا کیا؟
اسد عمر نے روپے کی قیمت بڑھا دی جس سے فوری طور پرچائنہ سے امپورٹ ہونے
والی اشیا مہنگی ہوگئیں۔ پہلے اگر ایک چپل امپورٹ کرنے کے بعد 60 روپے میں
دستیاب تھی تو اب شاید وہ 80 روپے میں ملنے لگی۔ اس سے امپورٹرز کا نقصان
ہونا شروع ہوگیا لیکن مقامی صنعتکار کو سگنلز ملنا شروع ہوگئے کہ اگر وہ
یہی پراڈکٹ مقامی طور پر 78 روپے میں تیار کرلیں تو انہیں امپورٹرز کے
مقابلے میں فائدہ ہوگا۔ معیشت ہمیشہ انہی سگنلز پر چلتی ہے ۔ ۔ ۔
اگر آپ کو کچھ اشیا مہنگی نظر آرہی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔ یہ صورتحال دو
سال تک رہے گی، پھر جب امپورٹ کرنے کا جنون ختم ہونا شروع ہوگا اور مقامی
صنعت پھلنا پھولنا شروع ہوگی تو انشا اللہ تجارتی خسارہ بھی کم ہوجائے گا،
ڈالرز پر انحصار بھی کم ہوجائے، مقامی طور پر روزگار بھی جنریٹ ہوگا اور
ایکسپورٹ ہونا بھی شروع ہوجائے گی۔
یہ وہ امپیکٹ ہے جو آپ کو راتوں رات نظر نہیں آسکتا۔ یہی وہ ستر سالہ تباہی
تھی کہ جسے ٹھیک کرنے کیلئے ویت نام، ترکی اور چین جیسے ممالک کو کئی
دہائیاں لگیں لیکن پھر وہ ترقی کرنا شروع ہوگئے ۔ ۔ پاکستان میں یہ صورتحال
انشا اللہ اگلے دو سے تین سال میں بہتر ہونا شروع ہوجائے گی ۔ ۔ ۔ اور پھر
انشا اللہ بہتری کی جانب ہی بڑھے گی۔
اس وقت مہنگائی کا شور مچانے والے تین قسم کے طبقات ہیں:
ایک وہ کہ جنہیں نظر آرہا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے دور رس نتائج برامد
ہوں گے جس سے ان کی سیاست مستقل بنیادوں پر ختم ہوجائے گی، دوسرے وہ جاہل
کہ جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں، وہ صرف اسلئے شور مچار رہے ہیں کہ ان کے
آقاؤں کی چیخیں نکل رہی ہیں، تیسرے وہ کم علم عوام کہ جنہیں ان باتوں کی
سمجھ نہیں۔ اور میری اس پوسٹ کے مخاطب بھی وہی عوام ہیں،
کیونکہ پہلے دو طبقات کو میں اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں ۔ ۔ |