ایک قوم کی پہچان اس کی شان اسکی قومی زبان ہوا کرتی ہے۔۔
اور ملک ترقی کا انحصار ہی اس زبان پر ہوا کرتا ہے۔۔ لیکن فی زمانہ۔۔ قومی
زبان سے محبت تو دور کی بات۔۔ اس کو ایک بے وقعت چیز سمجھ کر ایک کونے میں
پھینک دیا ہے۔۔۔ جس قدر ظلم اس زبان کے ساتھ اسکی اپنی قوم نے کیا ہے۔۔ وہ
بیان سے باہر ہے۔۔ عصری علوم کی درسگاہوں میں توانگریزی اس قدر عروج پر
پہنچ گئی ہے کہ شرم آتی ہے اردو کا لفظ اپنی زبان پر لاتے ہوئے۔۔ اوپر سے
اس سوچ کا سامنا کرنا بھی پڑتا ہے کہ والدین پر تاثر اچھا نہیں پڑے گا۔۔ یہ
انگریزی کی وباء صرف اسکول تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے اردگرد گھر دفتر
حتی کہ ہمارے ذہنوں میں بھی اس کی دھاگ بیٹھ چکی ہے۔۔ لوگوں سے پوچھا کہ
وجہ کیا ان فرنگیوں کی بولی بولنے کی۔۔ تو معلوم ہوا کہ اس وجہ سے کیونکہ
آج کل ضرورت ہے اور تقاضا بھی۔۔ اہمیت اس کی اپنی بام عروج پہ پہنچی ہوئی
ہے۔۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ فرنگیوں کی بولی کو اتنا عروج کیوں ملا؟؟ کیونکہ
فرنگیوں نے اپنی زبان کو نہیں چھوڑا ہماری طرح ، انکے لیے اپنی زبان ایک
اعزاز کی مانند ہے لیکن ہم اپنی زبان کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔۔ انگریزی سیکھنا
بری بات نہیں لیکن اپنی قومی زبان کو بھول جانا بری بات ہے۔۔ کوئی پورا
جملہ اردو بولے اس کو اسی طرح سراہیے جیسے فر فر انگریزی بولنے والے کو
سرہاتے ہیں۔۔ یہ سب ہماری اپنی سوچ ہے اور کچھ نہیں۔۔ ہماری سوچ کی وجہ سے
ہی ہماری قومی زبان بے یار و مددگار کھڑی ہے۔۔ ہماری اپنی عقلوں کو انگریزی
کا نشا چاٹ رہا ہے۔۔ اور اسی نشے کی وجہ سے ہماری زبان ترقی نہیں کر پا رہی
۔۔نہ پہلے کی طرح ادیب پنپ رہے ہیں اور نہ پہلے کی طرح پروان چڑھ رہے ہیں۔۔
اور المیہ یہ ہے کہ ہماری نسلوں کو اردو نہیں آتی۔۔ ہمارے بچے اردو میں ایک
مکمل جملہ نہیں بول سکتے۔۔ ذرا سوچیے کہ کیا صرف انگریزی بولتے رہنے سے ہی
ہمارا ملک ترقی کرے گا؟؟ اگر ہاں تو جائیے اردو کو مل کے دفنا آئیے کہ وہ
تڑپ رہی ہے اپنوں کی توجہ کے لیے اپنے ملک کے لوگوں کے لیے ۔۔
یاد رکھیے جو شاخ اپنی جڑوں کو چھوڑ دے وہ کہیں بھی نہیں پھلتی۔۔ اردو کو
اس کا مقام دیجیے اس سے کئیں زیادہ اہمیت دیجیے جتنی انگریزی کو دیتے ہیں۔۔
ایک وقت پھر ضرور آئے گا ایسا کہ جب فرنگی اردو سیکھیں گے اور بولیں گے ۔۔
اور اس وقت ہماری اردو کو اپنی قوم پر فخر ہوگا۔۔۔ |