فٹ پاتھ پر بیٹھ کر فٹ بال بنانے والی پاکستانی خاتون کی کہانی

عابدہ پروین کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن آج کل وہ اسلام آباد کے علاقے بلیو ایریا میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہاتھ سے فٹ بالز بنانے کا کام کرتی ہیں۔
 

image


’اپنے بچوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ کئی برسوں سے اپنے بیمار شوہر کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ ان کا علاج کروانے اور لوگوں کا قرضہ چکانے کے لیے مجھے آخر گھر چھوڑ کر باہر نکلنا پڑا۔‘

عابدہ نے بچپن میں یہ ہنر سیالکوٹ میں حاصل کیا جو کہ بین الاقومی سطح پر بھی فٹ بالز بنانے کے لیے مشہور ہے۔
 

image


یہ جب پانچویں جماعت میں پڑھتی تھیں تو انھوں نے ہاتھ سے فٹ بال بنانے کا کام سیکھا اور آج سخت حالات میں وہی ہنر ان کی روزی کمانے کا ایک ذریعہ بنا۔ یہ خود تو میٹرک پاس ہیں لیکن آج کل حالات ناسازگار ہونے کہ وجہ سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

عابدہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کو پہلے فالج کا اٹیک ہوا اور بعد میں دل اور سانس کی بیماری سے وہ بلکل بستر کے ہو کر رہہ گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب میرے گھریلو حالات خراب ہوئے تو کسی رشتہ دار نے کوئی مدد نہیں کی اور سارا بوجھ میرے کندھوں پر آ گیا۔ میں نے سوچا کہ بھیک مانگنے سے اچھا ہے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر فٹ بال بناؤں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں۔‘
 

image


عابدہ صبح آتی ہیں اور شام چار بجے اپنا سامان سمیٹ کر گھر واپس چلی جاتی ہیں۔ ایک قریبی ہوٹل سے دوپہر کا کھانا لے کر عابدہ وہیں پر بیٹھ کر کھاتی ہیں تاکہ کوئی گاہک ہاتھ سے نہ نکل جائے۔

اس دوران وہ پانچ سے چھ فٹ بالز بنا لیتی ہیں اور ایک بنانے میں ان کو کم از کم ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ کبھی دن میں چار سے پانچ فٹ بال بیچ لیتی ہیں اور کبھی ایک بھی نہیں بکتا۔

فٹ بال بنانے میں استعمال ہونے والا سامان جیسے کہ دھاگے، ہوا ڈالنے والا ہینڈ پمپ اور فٹ بالز بنانے کی پٹیاں خریدنے کے لیے عابدہ کو سیالکوٹ جانا پڑتا ہے۔

سب سے پہلے ان چھوٹی پٹیوں کو سوئی اور موٹے دھاگے سے جوڑ کر یہ ایک تہہ بناتی ہیں۔ پٹیاں جوڑنے کے بعد ان کو اندر کی طرف موڑا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ ان کی گولائی برابر ہے۔ تمام پٹیاں برابر کرنے کے بعد ہاتھ والے پمپ سے اس میں ہوا بھری جاتی ہے۔
 

image


عابدہ کہتی ہیں کہ دکان بنانے کے لیے جتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں، تو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہی اپنی روزگار چلاتی رہیں گی۔

’گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مجھے لوگوں سے قرضے لینے پڑے اور آج یہ رقم آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جب سے میں نے اسلام آباد آ کر یہ کام شروع کیا ہے، میں نے تقریباً 90،000 روپے کا قرضہ چکا دیا ہے، لیکن اب بھی بڑی رقم واپس کرنی ہے۔‘


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: