’لڑکے کو ماں سے بہت پیار ہے، شادی نہیں ہو سکتی‘٬ دلچسپ وجوہات

پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد انٹرنیٹ پر اپنے جذبات و خیالات سے لے کر روزمرہ زندگی کے تجربات تک شئیر کرنا بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بھی آج کل کھل کر پاکستان کے سماجی مسائل سے لے کر فرسودہ روایات تک، ہر چیز پر بے جھجک گفتگو اور بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔
 

image


حال ہی میں ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف نے ٹوئٹر پر باقی صارفین سے سوال کیا کہ ’بتائیں آپ کو کس بنا پر رشتہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا؟‘

بس پھر کیا تھا صرف خواتین ہی نہیں، مرد حضرات بھی اپنی اپنی ریجیکشن سٹوریز دھڑا دھڑ شئیر کرنے لگے۔
 


بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اس بحث کا آغاز کرنے والی انعم جعفری، تھریڈ کے شروع کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں’ پچھلے ہفتے میں اپنی ایک دوست سے ملی اور ہم پر انکشاف ہوا کہ ہم دونوں کے لیے ایک ہی شخص کا رشتہ آیا تھا جسے ہم دونوں نے مسترد کر دیا، پھر ہم نے اسی بارے میں اپنے اپنے مزید رشتے مسترد ہونے یا کیے جانے والی وجویات شئیر کیں جو انتہائی حیرت انگیز تھیں۔‘

’میں چونکہ ٹوئٹر پر کافی ایکٹو ہوں تو میں نے سوچا کیوں نہ باقی لوگوں سے بھی ان کی رشتہ نہ ہونے کی وجوحات پوچھی جائیں۔‘
 

image


’میرے ذہن میں یہی تھا کہ اگر ہم لڑکیوں کو رشتے کے لیے اتنی باتیں سننی پڑتی ہیں تو لڑکوں کے پاس بھی یقیناً دوسری طرف کی کہانی ہوگی۔ اسی لیے میں نے یہ نہیں لکھا کہ صرف لڑکیاں ہی اپنے تجربات شئیر کریں۔‘

وہ کہتی ہیں انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ٹویٹ کے جواب میں اتنے زیادہ لوگ اپنے تجربات شئیر کریں گے۔

انعم کہتی ہیں لڑکوں نے اپنے رشتے مسترد ہونے کی جو وجوہات بتائی وہ بہت عام سی ہیں۔ ’لیکن لڑکیوں نے جو وجوہات بتائیں وہ انتہائی حیرت انگیز تھیں۔ بہت سی لڑکیاں تو وہ تھیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں اور میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ انہیں اس سب سے گزرنا پڑا اور ایسی ایسی باتیں سننی پڑیں۔‘
 


انعم کے سوال کے جواب میں ٹوئٹر پر موجود ایک صارف قندیل اپنا تجربہ شئیر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھیں تو صرف اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کیونکہ انھوں نے انسٹاگرام پر ایک اجنبی کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
 


ایک اور صارف وجیہ زیدی نے اپنا رشتہ مسترد ہونے کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے ’اے لیول نہیں کیا۔‘
 


عمران کہتے ہیں انھیں تو اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے ہیں اور لڑکی والوں کا خیال تھا کہ ان کی والدہ بہت حق جتانے والی ہوں گی اور ہماری بیٹی کو چین سے نہیں رہنے دیں گی۔
 


بہت سارے لڑکوں نے اپنا رشتہ مسترد کیے جانے جو وجوہات بتائیں ان میں مالی طور پر مستحکم نہ ہونا اور اپنا گھر نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تعلیم کتنی ہے اور وہ دکھتے کیسے ہیں، کے بارے میں صرف ایک دو لڑکوں نے ہی بات کی۔ جبکہ لڑکیوں نے زیادہ تر جو وجویات شئیر کیں ان میں ’وہ دِکھتی کیسی ہیں‘ پر زور رہا۔
 


ایاز کہتے ہیں انہیں اس بنا پر انکار کیا گیا کہ ’لڑکا معذور ہے۔‘ اور انہیں یہ تک سننے کو ملا ’وہی ان کو رشتہ دیں گے جن کو اپنی بیٹی سے جان چھڑانے کی جلدی ہو گی۔‘
 


انعم کے خیال میں ٹوئٹر نے لوگوں (خاص کر لڑکیوں) کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جہاں وہ آزادی سے ،کھل کر اپنے خیالات اور تجربات شئیر کر سکیں۔ ’میں نے دیکھا ہے لڑکیاں سامنے آکر ایسی ایسی باتیں شئیر کر رہی ہیں جو پہلے کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔‘


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: