مادری زبانیں ضروری ہیں

دور حاضر میں جب ہم زبانوں کی دیکھتے ہیں توان میں ہرزبان کا ستیاناش ہوگیا ہے اس کی وجہ صرف ہماری دوسری زبانوں میں دلچسپی یا زبردستی ہے جیسے کہ ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکول میں داخل کرواتے ہیں مگردفتری زبان اردوہے گھرمیں سرائیکی بولی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچا کفیوز ہوجاتا ہے اور کچھ اردوکچھ انگلش اورکچھ سرائیکی کو مکس کرکے جملے بناتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ ڈوڈرکاں بن جاتا ہے مقصدیہ کہ وہ اپنی مادری زبان کو آہستہ آہستہ کھوبیٹھتا ہے یعنی اپنی شناخت ۔اپنے آرٹیکل کوآگے بڑھانے کیلئے میں اپنے ایک عظیم لکھت کار عمران سرائیکی کو شکریہ اداکرنا چاہوں گا جنہوں نے اس آرٹیکل میں میری مددکی۔ جس زبان کو بھی دیکھ لیں وہ زبان کم اور انگریزی زبان زیادہ گھُسی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ قومیں اور زبان آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں اور زبان کے ساتھ ساتھ قومیں بھی مر جاتی ہیں۔ یہی صورتحال سرائیکی زبان میں بھی نظر آرہی ہے آج کل کے سرائیکی اپنی زبان میں انگریزی کو زبردستی گھسا دیتے ہیں جس وجہ سے سرائیکی زبان کے خالص الفاظ مررہے ہیں ۔ حالانکہ آج بھی بیٹ کے علاقے کے لوگ اگر خالص زبان بولیں تو راقم کو بھی بہت سے سرائیکی کے الفاظ سمجھ نہیں آتے کہ ان کا مطلب کیا ہے ہم جدت اور ترقی کے چکروں میں اپنی مادری زبان، ثقافت کو ختم کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کی خود حفاظت کریں۔ اپنی زبان کے الفاظ اپنی آنیوالی نسل میں منتقل کریں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ۔ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بھی پاکستان کی کسی زبانوں اور ثقافت کی بہتری کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ صرف پنجابی اور اردو کیلئے تھوڑا بہت کام ہوا۔ حالانکہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان کی ثقافت ہماری اپنی ثقافت ہے۔ پھر چاہیے وہ پنجابیوں کی ثقافت ہو، سندھیوں کی، بلوچوں کی ، پٹھانوں کی ، سرائیکیوں کی یا پھر کسی اور کی یہ سب ہمارے ملک کے خوبصورت اور رنگدار باغیچے ہیں جنہیں ہمیں ہی آبیاری کرنی ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 2500زبانیں ایسی ہیں جو کہ دنیا سے ختم ہونے جارہی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی ایسی 7زبانیں شامل ہیں جو کہ خطرے سے دو چار ہیں ۔ جن میں بروشسکی،بلتی، بروہی، خوور، مائیا، پیورک، سپائتی شامل ہیں ۔ دنیا میں 228ایسی بھی زبانیں ہیں جو کہ بالکل ختم ہو گئی ہیں۔ حکومت پاکستان کو پاکستان کی ثقافت، اس خطہ کے لوگوں کے ثقافت زبانوں کی ترویج کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ کیونکہ جس طرح ایک باغ میں مختلف رنگ کے پھول اچھے لگتے ہیں ٹھیک اسی طرح مختلف زبانیں، کلچر بھی اس گلشن کو خوبصورت بناتے ہیں۔انیسویں صدی کے شروع میں بولی جانیوالی ہندوستانی زبان بھی اردو ہی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور وہاں سے ہی پاکستان آئی میری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے کے شعرا ء کرام کا کلام دیکھ لیں وہ کس زبان میں شاعری کرتے آئے ہیں۔ اردو کا ذکرنہ کرنا نہایت جاجائزی ہوگی کیونکہ کہ اردو ہی ہماری قومی اور رابطہ کی زبان ہے ۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان، سری لنکا، افغانستان، کینیڈا،برطانیہ اور خلیجی ممالک میں بھی سرائیکیوں کی کثیر تعداد آباد ہے سرائیکیوں کا اصل وطن ملتان ہے جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ سرائیکی زبان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرائیکی زبان بہت پرانی ہے 372ھ میں لکھی گئی ایک کتاب حدود العالم بن المشرقی الی المغربی میں بھی سرائیکی زبان اور قوم کا ذکر ہیجس میں پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی ایک الگ قوم تھی اور سرائیکی خودمختار ریاست ملتان رکھتے تھے جسے پہلی بار محمد بن قاسم نے فتخ کیا تھا ۔اپنے قارئین کو یہاں پر یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری ناقص تحقیق کے پیش نظر سرائیکی جتنی بڑی زبان پورے براعظم ایشیاء میں نہیں حالانکہ اس قوم اور زبان کی ترویج کیلئے آج تک کوئی بھی اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ یہ بات بھی ساری دنیا مانتی ہے کہ سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے اس زبان کو سب سی بڑی زبان اس لیے بھی کہا کہ اس زبان کی حروف تہجی کے الفاظ تمام زبانوں سے زیادہ اور اس زبان میں پانچ الفاظ اضافی شامل ہیں یہ الفاظ نہ تو پنجابی میں ہیں، نہ ہندی میں اور نہ ہی اردو میں اور سرائیکی زبان کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں الفاظ ایسے ہیں جن کے اردو میں ، انگریزی یا ہندی میں متبادل نہیں یا انکا ترجمہ کرنا ناممکن ہے۔ یہاں پر مثال کے طور پر دو چار الفاظ لکھ دیتا ہوں جن کے کسی زبان میں متبادل نہیں یا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ "مونجھ، سک، اڈ، نری، پولا" وغیرہ شامل ہیں جبکہ سرائیکی کا یہی ایک لفظ پولا تین چیزوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پولا یعنی جوڑی میں سے ایک جوتا، پولا یعنی کے پوچھا لگانا، پولا مطلب کسی لکڑی یا سخت چیز کا حصہ(اندرونی حصہ) خالی ہونا۔ جسے کھٹکھٹانے پر خالی محسوس ہوجائے۔ ایسے اور بھی کئی الفاظ ہیں جیسے (ڈاند، ڈیڈر، ڈیوا، ون، کٹوری، چبھڑ، وسا، بنا) شامل ہیں۔ پاکستان میں کم و بیش 50 زبانیں بولی جاتی ہیں اور جو زبانیں الگ ہیں ان کی ثقافت بھی الگ ہے اور ہر ایک قوم کا الگ کلچر بہت پیارا ہے چاہے وہ سرائیکی ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو، پختون ہو، بلوچی ہو، بلتی ہو یا کوئی بھی کلچر ہو سب کلچر اس گلشن میں مختلف رنگ کے پھول ہیں جو کہ اس گلشن میں لہلاتے نظر آتے ہیں یہ سبھی دلکش اور خوبصورت ہیں ان کو صرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے کی ضرور ت ہے نہ کہ تعصب کی عینک لگا کر دیکھنے کی۔ تمام زبانوں کی آبیاری کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترویج پر خصوصی توجہ دے انکی ثقافت کو اجاگر کرے۔ پورے ملک میں پوری دنیا میں تاکہ باہر کی دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستان میں رہنے والے سبھی لوگ اس ملک سے محبت کرنے والے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان کو اپنے کلچر، زبان اور تہذیب سے خوبصورت بنا دیا ہے۔سرائیکی زبان کے متعلق عرض کروں تواس سے پہلے میں جناب آصف خان سیکرٹری جنرل سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا شکریہ اداکرنا ضروری ہے کیونکہ یہ جو لکھنے جا رہاہوں یہ معلومات انہی کی دی ہوئی ہے سرائیکی لفظ سنسکریت کے سووریا سے بنا ہے جو قدیم ہندمین ایک سلطنت تھی جس کا ذکرہندؤں کی مقدس کتاب مہابھارت میں بھی ہے اس لفظ میں ’’کی‘‘کااضافہ کرنے سے یہ سووریاکی بن گیا ہے بعدمیں اسے آسانی سے بولنے کیلئے ’’و‘‘ہٹادی گئی اوریہ لفظ سرائیکی بن گیااس کے علاوہ جارج ابراہیم کریسن نے لفظ سرائیکی کو سندھی کے ایک لفظ سرو کی کی بگڑی ہوئی یا سدھری ہوئی شکل بتائی ہے جس کے معنی شمالی کے ہیں ۔کچھ معلومات شاہ نواز خان مشوری صدرسوجھل دھرتی واس،عنایت اﷲ مشرقی صدرایس ڈی پی،اجمل ملک،عمران مشتاق سعیدی،عدنان فداسعیدی جیسے دوستوں نے بتایا کہ ویسے توسرائیکی زبان پورے پاکستان میں بولی اورسمجھی جاتی ہے اس کے علاوہ سرائیکی زبان بولنے والے کئی لاکھ لوگ پاکستان سے باہرموجود ہیں مگرجن علاقوں میں سرائیکی زیادہ بولی اورسمجھی جاتی ہے ان میں بلوچستان صوبہ کے اضلاع:موسیٰ خیل،نصیرآباد،جعفرآباد،صحبت پور، جھل مگسی،ضلع لہڑی،ضلع بولان۔صوبہسندھ کے اضلاع:کشمور،جیکب آباد،شکارپورلاڑکانہ،قمبرشہدادکوٹ،گھوٹکی ،سکھر،خیرپور،نوشہرو،بے نظیرآباد،دادو۔پنجاب کے اضلاع:ڈیرہ غازی خان،بہاولپور،ملتان،بہاولنگر،راجن پور،رحیم یارخان،مظفرگڑھ،میانوالی،خوشاب،سرگودھا،وہاڑی ،پاکپتن،ساہیوال،خانیوال،ٹوبہ ٹیک سنگ،لودھراں،لودھراں چنیوٹ یہاں تک کہ لاہورمیں بھی سرائیکی سمجھنے کے ساتھ ساتھ بولنے والے بھی لاکھوں کی تعدادمیں موجود ہیں سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین رانا فراز نون سے عظیم معلومات ملی جیسے کہ قرآن پاک کا سرائیکی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے جسے:ڈاکٹرمہرعبدالحق سومرو،پروفیسردلشادکلانچوی،پروفیسرصدیق شاکر،ڈاکٹرطاہرخاکوانی،ریاض شاہد،عبدالتواب ملتانی،حفیظ الرحمان شامل ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ عاشق ظفربھٹی کوآرڈینیٹرایس ڈی پی نے بتایا کہ وہ سکول لائف سے ہی سرائیکی قوم کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اسی لیے ان جیسے بزرگوں سے ملنا شرف کی بات ہے انہوں نے بتایاکہ سرائیکی میں ڈیڑھ ہزارسال پہلے کی شاعری موجود ہے جن میں سچل سرمست،خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن سرکار،بیدل سندھی،لطف علی،حمل لغاری،غلام رسول ڈڈا،ممتازحیدرڈہر،عدنان فداسعیدی نے بتایا کہ نوجوان نسل میں سرائیکی زبان اورسرائیکی قومیت کے دردکوجگانے کیلئے نوجوان نسل کے شاعروں میں جن کا شمارہوتا ہے وہ احمدخان طارق،شاکرشجاع آبادی،شاکرمہروی ،سیف اﷲ خان سیفل،دلنورنورپوری،اصغرگرمانی،رفعت عباس،امان اﷲ ارشد،سفیرلاشاری،جمشیداقبال ناشاد،مخمورقلندری،بشیرغمخار،بیدارفریدی، سچدل علی پوری،اسماعیل عاطر،سائرخان جنپوری جن میں کچھ شاعراس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ۔ اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 196978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.