گھریلو ملازمین پر تشدد کا بڑھتا رحجان!

بحیثیت امت ِ مسلمہ ہمارے لیے رحمت العالمین صلی اﷲ و علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی امت کے لیے شفقت محبت کی کوئی مثال ہی نہیں۔ اپنی امت کے نام آخری وصیت میں فرمایا ’’ اپنے ماتحتوں سے حسن ِ سلوک سے پیش آنا‘‘۔بچے پھول کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک و قوم کا مستقبل انہی سے عبارت ہوتا ہے کہ انہیں ہی کل کو زمامِ کار تھامنا ہوتی ہے مگر یہ ننھے شگوفے اکثر حالات کے تلخ ہاتھوں سے مسلے جاتے ہیں اور معصومیت کی شاخوں سے ٹوٹ کر گلیوں کی دھول بن جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دِن میں کتنے ہی بچے حالات کی چکی میں پس جاتے ہیں مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہوتا۔دُنیا بھر میں 31 کروڑ 07 لاکھ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔ تین چوتھائی سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی کرنا، خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں %33 بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، یہاں تقریباً 12 ملین (1 کروڑ 20 لاکھ) سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 2012ء میں کام کرنیوالے کم عمر بچوں کی تعداد 1 کروڑ تھی مگر اب اس تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ا نسانی حقوق کمیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں موجود ہے، جہاں 19 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 10 لاکھ، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14 ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔ چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و پُروقار طرزِ زندگی سے محروم ہوجائیں اور جو انکی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہو اور جس سے ان کی تعلیم میں حرج ہو۔ بھارت میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کا معاوضہ ایک بالغ کو ایک روپے دیا جاتا ہے تو اسی کام کے ایک بچے کو صرف 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔چائلڈ لیبر کا آغاز صنعتی معاشرے سے پہلے ہوچکا تھا صنعتی معاشرے کے انقلاب سے پہلے پڑھے لکھے بچوں کی تعداد کم تھی اور بچے ماہی گیری شکار جیسے کاموں میں ماہر تھے۔ 13 سال کی عمر کے بچے بھی کم از کم بالغ لڑکوں کے برابر کام کرتے تھے۔تب پڑھائی کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔ 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ میں بچوں کا استحصال کیا جانے لگاتھا۔ وکٹورین دور میں تو بچوں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچے گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے تھے اور بچوں کی مزدوری کی اْجرت بھی بالغ مردوں کی اْ جرت سے 10 سے 20 فیصد کم ہوتی تھی لیکن کام ان سے بڑوں کے برابر لیا جاتا تھا۔20ویں صدی کے آغاز میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے شیشہ بنانے کی فیکٹری میں کام لیا جانے لگا۔ ٹیکنالوجی کے بغیر شیشہ بنانے کا کام ہوتا تھا جس سے بچوں کو آنکھوں اور پھپھڑوں کی بیماری، کٹ، جلنے کے نشان کے علاوہ بہت تھکاوٹ ہوجاتی تھی۔بچوں کو بغیر کسی وقفہ کے لگاتار کام کرنا پڑتا تھا۔21 ویں صدی میں ٹیکنالوجی کا دور آیا لیکن اسکے باوجود چائلڈ لیبر آج بھی دُنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے۔5 سے 17 سال کا بچہ جو کسی بھی معاشی سرگرمی کیلیے نوکری کررہا ہو وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی چائلڈ لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریبا پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ 2000 کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 22 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر ہیں(ان ایک کروڑ بچوں میں وہ بچے شامل نہیں ہیں جو گھریلو ملازم کہلاتے ہیں)۔ چائلڈ لیبر بچوں کی ایک کثیر تعداد ملک کے مختلف شہروں کے مختلف مقامات میں ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، گھروں اور صنعتی مراکز پر کام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔ براعظم ایشیاء میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جہاں 12 کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ شرح براعظم افریقہ میں ہے جہاں اندازاً ہر تیسرا بچہ مزدور ہے۔ چائلڈ لیبر کے شکار ان بچوں میں سے 90لاکھ بچوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 3 لاکھ باقاعدہ عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں 12 لاکھ بچوں کو خرید کر مزدور بنایا گیا ہے جبکہ 40-50 فیصد بچوں کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر 70 فیصد بچے زراعت، 22 فیصد سروسز جبکہ نو 9 فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایشیائی ملکوں میں افرادی قوت کا 10 واں حصہ چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے۔ بھارت میں ساڑھے 15 سال سے کم عمر کے تقریباً 4.5 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بنگلا دیش اور نائیجیریا میں بھی مزدور بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں 2500 سے زائد بھٹوں پر 5 سے 12 سال عمر تک کے ایک لاکھ سے زائد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں گھر کی صفائی اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تقریباً 30,000 بچے مصروف ہیں۔ بس اڈوں، سبزی، فروٹ منڈیوں، ہوٹلوں، ورکشاپوں اور دیگر صنعتیں تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔ہم ان بچوں کو اپنے بچوں کی طرح جیتا جاگتا انسان سمجھنا شروع کر دیں اور ان کی تکالیف، احساسات اور پریشانیوں کو خاطر میں لائیں، ان کی مدد کریں۔انہیں باعزت روزگار مہیا کریں تو یقینا جنسی زیادیتوں، بیہمانہ تشدد اور خودکشیوں کے رجحان میں کمی آ سکتی ہے، اور ہمارے صرف ایک مثبت اقدام ملک سے چائلڈ لیبر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہیں۔بین الاقوامی لیبر تنظیم کے مطابق 2008 میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 153 ملین بچے باہر کا کام کررہے تھے۔پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر حد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر چائلڈ لیبر میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔1996 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 10 سال کی عمر سے کم 11 ملین بچے فیکٹریز میں کام کررہے تھے ملک کے ایک چوتھائی بچوں کو زبردستی کام پر جانے کیلیے مجبور کیا گیا۔ حیدرآباد میں ہی 4 سے 5 سال کے بچوں کو بریسلٹ اور چوڑیاں بنانے پر لگایا جاتا ہے اور انکو اْ جرت بھی محنت کے مطابق نہیں دی جاتی،نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ملک میں چائلڈ لیبر ناسور بن کر ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔اعدادو شمار کے مطابق 1.96 ملین بچے انڈسٹری میں کام کرتے پائے گئے اور 48 فیصد لڑکیاں سروس انڈسٹری میں کام کرتی پائی گئیں جبکہ 22 فیصد لڑکیاں دیہاتی علاقوں میں مختلف کاموں سے منسلک تھیں۔چائلڈ لیبر ملتان میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے پنجاب میں اینٹ کے بھٹوں میں بچے کام کرتے ہیں۔ انڈیا میں چائلڈ لیبر کی تعداد 44 ملین سے تجاوز کرچکی ہے پاکستان میں 5 سے 14 سال کی عمرکے 40 ملین،بنگلہ دیش میں 12.8 ملین اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے۔ چائلڈ لیبر کی بہت سی وجوہات ہیں ان میں سے سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔پاکستان میں شرح خواندگی ویسے بھی بہت کم ہے اور غربت کی وجہ سے والدین کے پاس سہولتیں نہیں ہوتیں کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں۔ ساری دُنیا ہی اس لعنت سے نمٹنے کی سعی کررہی ہے۔لیکن پاکستان میں معاشی بدحالی سہولیات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے چائلڈ لیبر جیسے ناسور کو جنم دے رکھا ہے۔غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی تعلیمی ذمہ داریاں نہیں اْ ٹھا سکتے۔انہیں گھر کے خرچے کیلیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جسکی وجہ سے بچوں کو مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے یا والدین زبردستی بچوں کو کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بچوں کو کام کی جگہ پر تشددکا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کرے اور بنیادی حقوق فراہم کرے اور ہر ایک کو اسکی صلاحیتوں کے مطابق کام مہیا کرے۔ آئین کے آرٹیکل (3)11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچے کو کسی بھی فیکٹری یا کان کنی کے کام میں یا کسی بھی طرح کے خطرناک کام میں ملوث نہیں کیا جاسکتا آرٹیکل A) 25) کے مطابق ریاست کا فرض ہے وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کو فری اور لازمی تعلیم دے۔آرٹیکل 37 (C) کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ وہ کام کی محفوظ جگہ کا تعین کرے گی کہ کہیں کوئی جگہ بچوں اور خواتین کیلیے اگر محفوظ نہیں ہے تو اسکے بارے میں موثر قدم اٹھائے گی۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر بہت سے بل بھی پاس ہوچکے ہیں کہ ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے.ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر محنت مزدوری کرنے والے بچوں کیلیے نہ صرف حکومت کو اقدامات کرنے ہونگے بلکہ معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا.

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 141272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.