انسان کا نفس اس کیلئے بدترین قفس ہے،وہ اپنے نفس کاقیدی
ہونے کے باوصف اپنی مختلف خواہشات کی تکمیل کیلئے ہوس، مکرو فریب اور بد
عنوانی کی انتہائی حدوں کو چھو جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بنیادی طور
پر کرپٹ ہے کیونکہ اپنی ذات کا بچاؤ اور تحفظ پہلی ترجیح ہوتی ہے اس لئے
آسے self gaveکہا گیا ہے یہ سارے گناہ اور جرائم اسی خود غرضی سے پیدا ہوتے
ہیں ہمیشہ طاقتور لوگوں نے مادی انسانی طاقت کے وسائل پر قبضہ کیا لیکن
اسکے بغیر اندرونی ارتقا ممکن نہیں تھا انسان نے اس جہلت کے خلاف اپنی
تہذیب سازی کی کیونکہ اُس نے مل جل کر رہنا تھا چنانچہ ضابطے اصولی
اخلاقیات قوانین ریاست کا قیام وغیرہ سب انسان کی اسی خود غرضانہ جہلت پر
قابو پانے کیلئے تھے بد عنوانی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی کی جاتی ہے اس خوف
سے کہ کیا ہوگا غریب اور پسماندہ معاشروں میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے کھانے
والے زیادہ وسائل دولت کم لہذا جتنا ہاتھ آئے جمع کر لیا جائے کرپشن کمی کا
براہ راست تعلق معاشی ترقی کے عمل سے ہے عمومی معاشرتی خوشحالی کے ماحول
میں کرپشن کم تر ہوتی ہے کیونکہSense of securityبڑھ جاتی ہے کل کیا ہوگا
کا خوف کم ہو جاتا ہے کیونکہ کسی حادثے اور برے حالات میں تحفظ اور امداد
کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کم ہوتی ہے
کرپشن میں کم تعلیمی اور تہذیبی تریبیت سے بھی ہوتی ہے یہ احساس کے میں
دوسروں کا حق کھا رہا ہوں اپنے ہی معاشرے اور ملک کو نقصان پہنچا رہا ہوں
ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد غالب آ جاتا ہے تیسرممالک کو کرپشن سے روکا نہیں
جا سکتا ہے جہاں امیر اور غریب کا فرق زیادہ ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں
زیادہ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان میں شعور بھی زیادہ ہوتا ہے پس ماندہ
معاشروں میں طاقت دھونس اور دھاندلی کا نظام ہوتا ہے قانون اور اخلاق
طاقتور کے گھر کی لونڈی ہوتی ہے اجتماعی نہیں خود غرضانہ جہلت سپرئم ہوتی
ہے چنانچہ ان معاشروں میں کرپشن کرپشن کی تکرار محض وا ویلے کے سوا کچھ
نہیں ہوتا یہ معاشرے کے بد عنوان ہونے کا فطری عمل ہے کرپشن سیاسی نہیں
لیگل ایشو ہونا چاہے احتساب کبھی منصفانہ ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ عوام کو
کرپشن کا لولی پاپ دے دیا جاتا ہے طاقتور طبقے ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے
ہیں نتیجہ زیر دہر کام اور ہر پراجیکٹ میں کرپشن دیکھی جا سکتی ہے کرپشن کا
ایشو ترقی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جوں جوں ہمارا معاشرہ ترقی خوشحالی اور تعلیم
کی طرف بڑھتا جائے گا قانون کی حکمرانی کا تصور پختہ ہو جائے گا کرپشن فری
معاشرے کا تصور بالکل یو ٹوپیا ہے ترقی کے عمل کو تیز کرو ترقی کی راہ میں
رکاوٹوں کو ہٹاؤ اصل اقتدار عوام کو ڈیلیور کریں کچھ کر کے دکھائیں کرپشن
کرپشن کی نعرے بازی نے ہمیں ذہنی مریض بنا دیا ہے حکومت عوامی ٹرانسپورٹ کے
ذرائع کو ترقی دے توانائی تعلیمی اور صحت کے ادارے بنائے ہم اس میں کرپشن
ڈھونڈنی شروع کر دیتے ہیں درخت نہ گنو اسکا پھل کھاؤ اور پھل مانگو پاکستان
میں90فیصد سے زائد آبادی عدم تحفظ سے دو چار اور کرپشن کے ذرائع کے تلاش
میں رہتی ہے کرپشن کی بے شمار اقسام ہیں قطار اور باری کا انتظار نہ کرنا
دوسروں کا حق مارنا یہ وہ باتیں ہے جسے ہم کرپشن نہیں سمجھتے ہیں اور یہ
عمل ہر جگہ دہرایا جا رہا ہے جب ہم نفسیاتی اور ذہنی سطح پر اجتماعی احساس
اور اصول پسندی سے لا علم ہیں تو پھر حق مارنا اپنی ذات کے مفاد کو مقدم
رکھنا دوسروں کی ٹانگ کھینچنا کسی دوسرے کو برابر کی عزت نہ دینا طاقت اور
کرسی کی خماری یہ سب کرپٹ دماغ کی نشانیاں ہیں اگر ہم چھوٹی حق تلفی کو کچھ
نہیں سمجھتے ہیں تو اشرافیہ کیلئے بڑی حق تلفی بھی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے
حل کی طرف ہم تب جا سکتے ہیں جب ہم چیزوں کو سائنسی اور ریشنل طریقے سے
سمجھ لیں ہم کرپشن کے ساتھ بھی جذبات سے لڑ رہے ہیں ہم جذباتی قوم ہیں ایک
ہی وقت میں ہول سیل کرپٹ ہیں ذہنی کردار کے حوالہ سے پسماندہ ہیں لیکن سب
معاشرے کو نیک ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں کوئی خارجہ اور آسامی طاقت آکر ہمیں
نیک بنا دے ہم ویسے بھی چیخنے اور شورمچانے والے لوگ ہیں کرپشن کا سیاسی
پہلو یہ ہے کہ ایک طاقتور ادارے نے پر موٹ کیا ہے پاکستان کے تمام مسائل
کرپشن کی وجہ سے ہیں اگر کرپشن ختم ہو جائے تو تمام مسائل حل اور ملک
خوشحال ہو جائے گا اور سیاستدان سب سے زیادہ کرپٹ ہیں حالانکہ وہ ارادہ ہی
مسادیانہ طور پر کرپٹ ہے ہمارے ہاں کر کرپٹ شخص بد عنوانی کے خلاف بولتا ہے
ہر پارٹی یا گروہ میں کرپٹ افراد موجود ہوتے ہیں اگر ایک کرپٹ شخص ایک
پارٹی میں شامل ہو جائے وہ بے حساب دولت سمیت عوام کی نظر میں فرشتہ بن
جائے گا اسلئے کرپشن کو سیاسی نعرہ نہیں لیگل ایشو ہونا چاہیے احتساب کے
اداروں کو متحرک اور قوانین کو سخت اور شفاف کیا جائے پاکستان کے مسائل کی
وجہ ترقی کا سست عمل اور سیاسی معاشی ایجنڈا ہے کیونکہ ہماری ریاستی اور
معاشرتی ترجیحات نہیں ہیں پاکستان فلاحی جمہوری نہیں بلکہ سیکیورٹی سٹیٹ ہے
یہاں جھوٹ پھیلاتے ہیں ہم ریاست کو سیکیورٹی اور دفاعی ایشوز میں پھنسا
دیکھا ہے اور ہمارے حکمرانوں نے40سال سے دہشت گردی اور مذہبی انہتا پسندی
کو سپانسر کیا ہے ہم ایک مشکل اور پچیدہ قوم ہیں کیونکہ ہم میں اجتماعی
اتفاق نہیں ہے درستگی کیلئے اصلاحات درکار ہیں مگر ہم عملی اقدامات کرنے سے
قاصر ہیں لہذا روتے رہیے چیختے روہے اور ٹکراتے رہتے ہیں شائد ہمارا قومی
المیہ یہی ہے۔تحریک انصاف کو عوام نے ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے نام پر
ووٹ دیئے ہیں ۔موجودہ تناظر میں اس کا اہم نعرہ کرپشن کا خاتمہ ہے جس کیلئے
مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کئے گئے
ہیں جن کا تذکرہ میڈیا پر زور و شور سے کیا جاتا ہے مگر اس کے اس کے منطقی
انجام کا کچھ پتہ نہیں ہے، پنجاب کے ایک حکمران خاندان کو نیب کے کیسوں میں
تسلسل کے ساتھ عدالت عالیہ کی طرف سے ریلیف مل رہا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز
پارٹی کیخلاف بھی مقدمات جاری ہیں جس میں بظاہری طور پر کوئی ریلیف کی امید
دکھائی نہیں دیتی ہے موجودہ منظر نامے میں معلوم ہوتا ہے مقتدرہ طبقات شائد
پنجاب کے سابق حکمران طبقات کے ساتھ تعلقات استوار کر سکتے ہیں جبکہ وہ
سندھ میں چھوٹے لسانی گروہوں اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر پیپلز
پارٹی کو سیاسی منظر عام سے ہٹانا چاہتے ہیں ، آج ایم کیو ایم کی قیادت نے
ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سندھ میں کو پیپلز پارٹی نے دو حصوں میں
تقسیم کر دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان شہروں میں رہنیو الے لوگوں کا ہوا
ہے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاق کو سندھ کی پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ
کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے ۔ یہاں پر تجزیہ نگاروں کے بقول احتساب کا عمل
تنازعات سے دو چار نظر آتا ہے اور جس کا زیادہ سے زیادہ دائرہ کار مخالفین
کی سیاسی ٹارگٹ کرنا اور اپنے مفادات حاصل کرنا ہے ۔جب تک احتساب تمام
طبقات کا نہیں کیا جا سکتا یہاں بد عنوانی کے خاتمہ کے بارے میں سوچا نہیں
جا سکتا ہے لہذا ملک میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جو کہ احتساب عدلیہ
مالیات اور انتظامی امور کی شفافیت کو یقینی بنائیں۔ |