ایک وقت میں دو نسلیںں

سکول میں تعلیمی حوالے سے پروگرام تھا پنڈال کرسیوں سے بھرا ہوا تھااس کے اعلاوہ اسٹیج بھی مختلف رنگوں اور کارٹونوں سے سجا ہو ا تھا،پروگرام میں تمام سیاسی و سماجی معززین بھی تھے مقررین کی ایک لمبی لسٹ تھی،جو بھی اسٹیج پر آتا کوئی سکول کی تعریف کرتا کوئی اساتذہ اور مینجمنٹ کے راگ الاپتہ،اورکوئی معاشرے میں ادارے کی تعلیمی خدمات کوآسمان کی بلندیوں سے ملاتا،یوں لگ رہا تھاجیسے یہ سکول سائنسدان،خلا باز،اور ارسطوپیدا کرتا ہے ،میں بیٹھا غور سے باتیں سنتارہا ا ور سوچ رہا تھا کہ میں جاگ رہا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں،درمیان میں میری باری آئی میں اس کشمکش کا شکار تھا کہ سچ بولا جائے یا سب کی طرح بس مکھن لگاو پالیسی پر عمل کیا جائے،میں نے سوچہ سچ بولتے ہیں ،وہ جسے میں سچ کہتا ہوں وہ صرف میرے نذدیک سچ ہے، ادارے اور عام لوگ اس کو جھوٹ کہتے ہیں،میں نے کہا کہ اگر کسی بھی ملک میں سکولوں کا،یا تعلیمی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو نمبر لینے کے لئے رٹا لگواکر ان کو شباش دی جائے،اگر ان کو بچپن سے ہی بوجھ اٹھانے کی تربیت دی جائے،اگر انہیں تین گھنٹے میں پوری کتاب لکھ کر آنے کی ایکسرسائز کروائی جائے تو یہ سکول بہت اچھا کام کر رہے ہیں،اگر سکولوں اور تعلیمی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو کنسپٹ کے بجائے ان کو کتابی کیڑا بنانا ہے،بچوں کو اخلاقیات،بھائی چارہ،ہمدردی،انکساری،قربانی،اداب،تربیت کی جگہ برادری ازم،سیاست،گرو بندی،فرقہ پرستی،علاقائی تعصب،سیکھانا کام ہے تو یہ ادارے دنیا میں نمبر ون کی پوزیشن میر تعلیمی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو کنسپٹ کے بجائے ان کو کتابی کیڑا بنانا ہے،بچوں کو اخلاقیات،بھائی چارہ،ہمدردی،انکساری،قربانی،اداب،تربیت کی جگہ برادری ازم،سیاست،گرو بندی،فرقہ پرستی،علاقائی تعصب،سیکھانا کام ہے تو یہ ادارے دنیا میں نمبر ون کی پوزیشن میں کمال کرتے ہیں،اگر معاشرے میں سکولوں اور تعلیمی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنا اپنا سلیبس لیکر ،اپنا اپنا مشن لیکر اپنی اپنی دکان چلائیں، بچوں کو ,97.40,98.7,99.10 کے حساب سے نمبر دے کر اپنے سکول کے بورڈ،بینر،پوسٹر اور میڈیا میں اشتہار لگوانا ہے تو یہ ادارے اپن¡ کمال کرتے ہیں،اگر معاشرے میں سکولوں اور تعلیمی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنا اپنا سلیبس لیکر ،اپنا اپنا مشن لیکر اپنی اپنی دکان چلائیں، بچوں کو ,97.40,98.7,99.10 کے حساب سے نمبر دے کر اپنے سکول کے بورڈ،بینر،پوسٹر اور میڈیا میں اشتہار لگوانا ہے تو یہ ادارے اپنی ی ذمہ داریاں کمال مہارت سے پوری کرتے ہیں اور یہ ان تمام انعامات کے حقدار ہیں جو ان کو مل رہے ہیں،اور شاہد وہ ملک جو دنیا میں اس وقت ترقی کر رہے ہیں،جوسپر پاور ہیں،ان کی تعلیمی پالیسیاں بہت غلط ہیں کیوں کہ جاپان ،چین،امریکہ،برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک میں ذمہ داریاں کمال مہارت سے پوری کرتے ہیں اور یہ ان تمام انعامات کے حقدار ہیں جو ان کو مل رہے ہیں،اور شاہد وہ ملک جو دنیا میں اس وقت ترقی کر رہے ہیں،جوسپر پاور ہیں،ان کی تعلیمی پالیسیاں بہت غلط ہیں کیوں کہ جاپان ،چین،امریکہ،برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک میں سکسکولوں میں پہلے پانچ سال تو بچوں کو فیل کرنے کا تصور ہی نہیں ان کو سکولوں میں صرف اور صرف اخلاقیات سیکھائی جاتیں ہیں،جن کو ہم اسلامی روایات کہتے ہیں وہ پڑھائی نہیں جاتی بلکہ ان کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا جاتاہے،جاپان دنیا کا ایماندار ملکوں کی لسٹ میولوں میں پہلے پانچ سال تو بچوں کو فیل کرنے کا تصور ہی نہیں ان کو سکولوں میں صرف اور صرف اخلاقیات سیکھائی جاتیں ہیں،جن کو ہم اسلامی روایات کہتے ہیں وہ پڑھائی نہیں جاتی بلکہ ان کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا جاتاہے،جاپان دنیا کا ایماندار ملکوں کی لسٹ میں ں نمبر ون ہے کیوں،صرف اور صرف تعلیمی اداروں کی وجہ سے وہاں بچوں کو میٹرک کے بعد عملی یا پروفیشنل تعلیم دی جاتی ہے اس سے پہلے صرف اس کا دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد کا مطلب سمجھایا جاتا ہے،بچوں کو سکول میں سیکھایا جاتا ہے کے غریب کی مدد کیسے کرنی ہے،بڑوں نمبر ون ہے کیوں،صرف اور صرف تعلیمی اداروں کی وجہ سے وہاں بچوں کو میٹرک کے بعد عملی یا پروفیشنل تعلیم دی جاتی ہے اس سے پہلے صرف اس کا دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد کا مطلب سمجھایا جاتا ہے،بچوں کو سکول میں سیکھایا جاتا ہے کے غریب کی مدد کیسے کرنی ہے،بڑوں کا ادب کیسے کرنا ہے،مجبور لوگوں کے ساتھ کیسے سلوک کیا جاتا ہے،پڑوسی کیا ہے،راستے سے یا کسی بھی جگہ سے کوئی مال مل جائے واپس کیسے کرنا ہے،سب ایک قوم ہیں بچے کسی قوم برادری قبیلے کے نہیں ہوتے اور جب ان ملکوں کے بچے میچور لائف میں قدم رکھتے ہیں تو انسانیت،ہمدردیکا ادب کیسے کرنا ہے،مجبور لوگوں کے ساتھ کیسے سلوک کیا جاتا ہے،پڑوسی کیا ہے،راستے سے یا کسی بھی جگہ سے کوئی مال مل جائے واپس کیسے کرنا ہے،سب ایک قوم ہیں بچے کسی قوم برادری قبیلے کے نہیں ہوتے اور جب ان ملکوں کے بچے میچور لائف میں قدم رکھتے ہیں تو انسانیت،ہمدردی،سچائی،ایمانداری،دیانت داری،اپنے ملک سے وفاداری،اپنے بزرگوں اور اپنے ساتھ والوں سے اچھا رویہ،ماں باپ کی خدمت،میرٹ اور مقابلے میں صرف اپنی صلاحیت پر انحصار کرنا،ان کی فطرت بن چکی ہوتی ہے اور پھر وہ ایک قوم بن کے ملک کی معاشرے کی خدمت کرتے ہیں،جاپان میں سک،سچائی،ایمانداری،دیانت داری،اپنے ملک سے وفاداری،اپنے بزرگوں اور اپنے ساتھ والوں سے اچھا رویہ،ماں باپ کی خدمت،میرٹ اور مقابلے میں صرف اپنی صلاحیت پر انحصار کرنا،ان کی فطرت بن چکی ہوتی ہے اور پھر وہ ایک قوم بن کے ملک کی معاشرے کی خدمت کرتے ہیں،جاپان میں سکولول ٹائم میں اساتذہ آدھا گھنٹہ پہلے بچوں سے ،خود کھانا کھاتے ہیں تاکہ اگر کھانے میں کوئی مسئلہ ہو تو بچے قوم کا مستقبل ہیں ان کو نقصان نہ ہو ہمیں بے شک ہو جائے،پھر وہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہ استاد کے سائے کے اوپر سے بھی نہیں گزرتے وہ ان کا اتنا احترام ک ٹائم میں اساتذہ آدھا گھنٹہ پہلے بچوں سے ،خود کھانا کھاتے ہیں تاکہ اگر کھانے میں کوئی مسئلہ ہو تو بچے قوم کا مستقبل ہیں ان کو نقصان نہ ہو ہمیں بے شک ہو جائے،پھر وہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہ استاد کے سائے کے اوپر سے بھی نہیں گزرتے وہ ان کا اتنا احترام کرتے ہیں،پھر وہی بچے بڑے ہو کر اپنے اساتذہ کے اگے سے بھی نہیں گزرتے کہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔پھر وہ دنیا کی سپر پاور بنتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو پہلے دن سے یہی تعلیم ،یہ علم اور یہی تربیت دیتے ہیں کہ تم فلاں برادری سے ہو تم فلاں کے ساتھ نہ بیٹھنا،تم فلاں قبیلے سے رتے ہیں،پھر وہی بچے بڑے ہو کر اپنے اساتذہ کے اگے سے بھی نہیں گزرتے کہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔پھر وہ دنیا کی سپر پاور بنتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو پہلے دن سے یہی تعلیم ،یہ علم اور یہی تربیت دیتے ہیں کہ تم فلاں برادری سے ہو تم فلاں کے ساتھ نہ بیٹھنا،تم فلاں قبیلے سے ہوتم فلاں کے ساتھ دوستی نہ کرنا،تم فلاں ٹبر سے ہو تم فلاں کا کھانا نہ کھانا، تمہارا باپ فلاں عہدے پر ہے تمیں کوئی فیل نہیں کر سکتا،تمہارے باپ کا اسٹیٹس یہ ہے تمہارے لئے سب بدتمیزیاں،سب بد اخلاقیاں،سب مغروریاں جائز ہیں یہ تمہارا حق ہے ،ہمارے تعلیمی ادارے ہوتم فلاں کے ساتھ دوستی نہ کرنا،تم فلاں ٹبر سے ہو تم فلاں کا کھانا نہ کھانا، تمہارا باپ فلاں عہدے پر ہے تمیں کوئی فیل نہیں کر سکتا،تمہارے باپ کا اسٹیٹس یہ ہے تمہارے لئے سب بدتمیزیاں،سب بد اخلاقیاں،سب مغروریاں جائز ہیں یہ تمہارا حق ہے ،ہمارے تعلیمی ادارے رٹا لگوانے کا مقابلہ کرواتے ہیں،ہم سکولوں میں بچوں کو بیگ اور کتابوں کا بوجھ اٹھوانے کا مقابلہ کرواتے ہیں،اسٹیٹس،عہدے،دولت،برادری،علاقہ،پیسہ کے نام پر ان کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں ،کتاب کے اندر فل سٹاپ کہاں ہے،قامہ کہاں لگتا ہے،ایک مضمون میں کتنی لائینیں ہیں رٹا لگوانے کا مقابلہ کرواتے ہیں،ہم سکولوں میں بچوں کو بیگ اور کتابوں کا بوجھ اٹھوانے کا مقابلہ کرواتے ہیں، اسٹیٹس، عہدے، دولت، برادری، علاقہ،پیسہ کے نام پر ان کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں ،کتاب کے اندر فل سٹاپ کہاں ہے،قامہ کہاں لگتا ہے،ایک مضمون میں کتنی لائینیں ہیں یہ سب سیکھا دیتے ہیں بچہ جب میٹر ک میں پہنچتا ہے تو اس کے بعد عملی زندگی میں عہدے،سٹیٹس،پیسے،برادریوں والے بچے تو خود کو دوسری دنیا کی مخلوق سمجھ کر سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے اوروہی مغروری پھر اگلی نسل میں منتقل کرتے جاتے ہیں،وہ بچے جن کا نہ کوئی آگے نہیہ سب سیکھا دیتے ہیں بچہ جب میٹر ک میں پہنچتا ہے تو اس کے بعد عملی زندگی میں عہدے،سٹیٹس،پیسے،برادریوں والے بچے تو خود کو دوسری دنیا کی مخلوق سمجھ کر سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے اوروہی مغروری پھر اگلی نسل میں منتقل کرتے جاتے ہیں،وہ بچے جن کا نہ کوئی آگے نہ پیچھے ،نہ پیسہ،نہ برادری،نہ اسٹیٹس وہ جب میچور لائف میں داخل ہوتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کے ہماری کامیابی یا ملک سے باہر ہے یا پھر بے حد محنت جس سے وہ کسی پرائیویٹ سیکٹر میں جا کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اور پھر وہی اساس کمتری اپنی آنے والی نسل میں منتقل کرتے ہیں،یوں ہمارے ملک میں ،ہمارے معاشرے میں ایک ہی وقت میں دو نسلیں تیار ہو رہی ہوتیں ہیں ایک مغرور،تعصبی،اپنے آپ کو سپیرئر سمجھنے والی،دینا کی ہر چیز سفارش، قانون،ادارے ،نوکریاں،بزنس،بے ایمانی،کرپشن،لوٹ مار،یہاں تک کے جس کو چاہو عزت دو جس کو چاہو بے ع پیچھے ،نہ پیسہ،نہ برادری،نہ اسٹیٹس وہ جب میچور لائف میں داخل ہوتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کے ہماری کامیابی یا ملک سے باہر ہے یا پھر بے حد محنت جس سے وہ کسی پرائیویٹ سیکٹر میں جا کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اور پھر وہی اساس کمتری اپنی آنے والی نسل میں منتقل کرتے ہیں،یوں ہمارے ملک میں ،ہمارے معاشرے میں ایک ہی وقت میں دو نسلیں تیار ہو رہی ہوتیں ہیں ایک مغرور،تعصبی،اپنے آپ کو سپیرئر سمجھنے والی،دینا کی ہر چیز سفارش، قانون،ادارے ،نوکریاں،بزنس،بے ایمانی،کرپشن،لوٹ مار،یہاں تک کے جس کو چاہو عزت دو جس کو چاہو بے عزت کرو کو اپنا حق سمجھتی ہے،اور اسی وقت اس کے ساتھ دوسری نسل کمزور،مجبور،بے بس،اسا س کمتری کو اپنا نصیب سمجھ کر محنت،محنت اور بس محنت پر بھی اپنا حق نہ ملنا،بس اﷲ مالک ہے کے سبق پر صبر کرکے سہاری زندگی گزارتے ہیں،کسی بھی ملک معاشرے کے اندر دونظریے ہونازت کرو کو اپنا حق سمجھتی ہے،اور اسی وقت اس کے ساتھ دوسری نسل کمزور،مجبور،بے بس،اسا س کمتری کو اپنا نصیب سمجھ کر محنت،محنت اور بس محنت پر بھی اپنا حق نہ ملنا،بس اﷲ مالک ہے کے سبق پر صبر کرکے سہاری زندگی گزارتے ہیں،کسی بھی ملک معاشرے کے اندر دونظریے ہونا،د،دو سوچیں ہوناوہ بھی مسلم اور غیر مسلم کی ،ہندو اور سیکھ کی ،یہودی عیسائی کی اتنی نقصان دے نہیں کیونکہ مذہبی بنیادوں پر یہ سب ہوتا ہے اور پھر اپنے اپنے نظریے پر آزادی سے قومیں چلتی بھی ہیں،مگر ایک ملک میں ایک معاشرے میں ایک ہی وقت میں،ایک ہی مذہب،ایک ہی گو سوچیں ہوناوہ بھی مسلم اور غیر مسلم کی ،ہندو اور سیکھ کی ،یہودی عیسائی کی اتنی نقصان دے نہیں کیونکہ مذہبی بنیادوں پر یہ سب ہوتا ہے اور پھر اپنے اپنے نظریے پر آزادی سے قومیں چلتی بھی ہیں،مگر ایک ملک میں ایک معاشرے میں ایک ہی وقت میں،ایک ہی مذہب،ایک ہی گھر ،ایک ہی ماحول ،ایک ہی ادارے سے دو نسلیں برابر تیار ہوتی رہیں تو وہ ملک وہ معاشرہ بھی ایک نہیں ہو سکتا اس میں کبھی ترقی نہیں ہو سکتی اس میں کبھی انصاف نہیں ہو سکتا،اس میں کبھی حق اور سچ کا بول بالا نہیں ہو سکتا اس میں کبھی بچے قوم نہیں بن سکتے،پھر وہی گروپھر ،ایک ہی ماحول ،ایک ہی ادارے سے دو نسلیں برابر تیار ہوتی رہیں تو وہ ملک وہ معاشرہ بھی ایک نہیں ہو سکتا اس میں کبھی ترقی نہیں ہو سکتی اس میں کبھی انصاف نہیں ہو سکتا،اس میں کبھی حق اور سچ کا بول بالا نہیں ہو سکتا اس میں کبھی بچے قوم نہیں بن سکتے،پھر وہی گر،وہی امیر غریب، وہی طاقت ور اور کمزور کا فرق اپنی اپنی دوڑ میں دوڑتا رہے گا،وہ عمر جو بچے کو عملی دنیا میں داخل کرتی ہے اس وقت سب کچھ ان کی عادت،فطرت بنا ہوتا ہے،اور یہی بچے پھر جب باہر کی دنیا میں جاتے ہیں اپنے معاشرے سے نکلتے ہیں تو ان کو سمجھ آتی ہے کہوپ،وہی امیر غریب، وہی طاقت ور اور کمزور کا فرق اپنی اپنی دوڑ میں دوڑتا رہے گا،وہ عمر جو بچے کو عملی دنیا میں داخل کرتی ہے اس وقت سب کچھ ان کی عادت،فطرت بنا ہوتا ہے،اور یہی بچے پھر جب باہر کی دنیا میں جاتے ہیں اپنے معاشرے سے نکلتے ہیں تو ان کو سمجھ آتی ہے کہ ہم نے تو جو کچھ پڑھا جو سیکھا وہ سب بے کار ہے،دنیا کے ملکوں میں میٹرک کے بعد پروفیشنل تعلیم دی جاتی ہے ہمارے ملک معاشرے میں میٹرک کے بعد اخلاقیات سیکھائی جاتی ہے جو پھر کبھی سمجھ نہیں آتی،ہمارے ملک،معاشر ے میں اس کے علاوہ اگر سکولوں اور تعلیمی اداروں ک ہم نے تو جو کچھ پڑھا جو سیکھا وہ سب بے کار ہے،دنیا کے ملکوں میں میٹرک کے بعد پروفیشنل تعلیم دی جاتی ہے ہمارے ملک معاشرے میں میٹرک کے بعد اخلاقیات سیکھائی جاتی ہے جو پھر کبھی سمجھ نہیں آتی،ہمارے ملک،معاشر ے میں اس کے علاوہ اگر سکولوں اور تعلیمی اداروں کا ا کوئی کردار ہے تو وہ مجھے بتا کر میرے علم میں اضافہ کر سکتا ہے۔

Iqbal Janjua
About the Author: Iqbal Janjua Read More Articles by Iqbal Janjua: 42 Articles with 43567 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.