ریمنڈ ڈیوس امریکی جاسوس یا سفارتکار

ایک امریکی ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری کو مزنگ لاہور کے قرطبہ چوک میں دو پاکستانیوں پر فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کردیا اور ایک شخص کو اسکی مدد گار گاڑی نے کچل ڈالا امریکہ کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں وہ عرصے سے پاکستان میں یہ کررہا ہے۔ خود کش حملوں میں بھی امریکہ زور و شور سے ملوث ہے اور ڈرون حملے تو جیسے امریکہ کے فرائض میں شامل ہیں کہ کیے جاؤ اور پاکستانیوں کو مارے جاؤ یقیناً کچھ دہشت گرد بھی مرے ہونگے لیکن کیا ننھے بچے بھی دہشت گرد ہیں جو ان حملوں میں مر جا تے ہیں ۔ یہ سب تو اب معمول ہے لیکن جو کچھ ابھی تک خلاف تو قع ہوا جس کو کم از کم امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور تاحال اسکا جیل میں رہنا ہے یہ اور بات ہے کہ اطلاعات کے مطابق جیل میں بھی اس کے ساتھ خاصا وی آئی پی برتاؤ کیا جا رہا ہے اور اسے ہر قسم کی سہولت دی جا رہی ہے اور وہ جیل میں بھی سپر پاور ملک کا باشندہ ہونے کی نخوت میں مبتلا ہے تبھی تو اپنا پسندیدہ کھانا نہ ملنے کی شکایت کر رہا ہے جو مہمان خاص بھی نہیں کرتے اور امریکہ بھی اس کے لئے استثنیٰ مانگ رہا ہے بلکہ دھونس جما کر اسکی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور ویانا کنونشن کا سہارا لینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جبکہ واردات کے پہلے ہی دن سے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ ریمنڈ ڈیوس کوئی سفارتکار نہیں ہے بلکہ امریکہ کا جاسوس ہے جو خفیہ قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور یہ بھی کہ وہ لاہور میں ریکروٹنگ کی ڈیوٹی بھی کر رہا تھا ۔ اس سے مختلف قسم کی مشکوک اشیا بھی برآمد ہوئیں اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ ریمنڈ ڈیوس اسلحہ لے کر لاہور کے مصروف ترین علاقے میں کیوں گھوم رہا تھا جبکہ متعلقہ تھانے کو اس کی خبر نہ تھی جو کہ سفارتکار ہونے کی صورت میں ہونی چاہئے تھی۔ اب جبکہ امریکی میڈیا نے بھی اس راز کو طشت از بام کر دیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار نہیں بلکہ سی آئی اے کا با قاعدہ ایجنٹ تھا اور لاہور کو اپنا مرکز بناکر پاکستان مخالف سر گرمیوں میں ملوث تھا۔ جس کا ثبوت اس سے برآمد ہونے والی دینی درسگاہوں اور مدرسوں وغیرہ کی تصاویر تھیں لیکن امریکہ ڈھٹائی سے اسے سفارتکار ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا اور اب امریکی میڈیا نے جس طرح بھانڈا پھو ڑا ہے تو اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ اس شخص کیلئے امریکی وزارت خارجہ سے لے کر صدر امر یکہ تک ہر ایک کیوں بلبلا اٹھا کیا ڈیوس سے کچھ اور بھی خفیہ راز وابستہ ہیں جنہوں نے امر یکہ کو خوفزدہ کر رکھا ہے؟ یہ کہنا کہ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کیلئے کوئی بھی اقدام بے خوف کر سکتا ہے درست نہیں کیو نکہ امر یکہ کے جتنے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں وہ ان کو داؤ پر نہیں لگا سکتا اس کو پاکستان کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی کہ پاکستان کو اس کی ہے۔ امریکہ افغانستان میں جس بری طرح پھنسا ہوا ہے اور کسی قدر با عزت واپسی کے راستے کی تلاش میں ہے وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ افغا نستان میں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا تو درکنار جا ری بھی نہیں رکھ سکتا اور یہی وقت ہے کہ حکومت پاکستان ایک مضبوط مؤقف اختیار کرتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کو غیرت قومی کے مطابق برتے اور امریکہ کے دباؤ کو کسی صورت قبول نہ کرے۔ یہ حقیقت دنیا کی تاریخ کا المناک باب ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے اسکے باشندے اور کارندے جہاں اور جس وقت چاہیں اپنی کاروائیا ں کرنے سے نہیں کتراتے اور پاکستان کی بری قسمت تو یہ بھی ہے کہ اسکے حکمران امریکہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور عوام کی توقعات اور خواہشات کے با لکل برعکس امریکی کا روائیوں پر احتجاج تو درکنار ناگواری تک کا اظہار نہیں کیا جاتا اور مسلسل اپنے عوام اور سیکیورٹی فورسز کی قربانی دی جا رہی ہے۔ ایک ایسے دوست کیلئے جو ایک بہت بڑا دشمن ہے اور جس نے ہمارے معاشرے کو امن سے محروم کر رکھا ہے۔ کیونکہ اسے پوری دنیا کے امن کی کوئی فکر نہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو امن کا بہت بڑا داعی کہتا ہے۔ اسکی دو رخی کا یہ عالم ہے کہ جہاں جمہوریت ہے وہاں اسکو عام آدمی خطرے میں نظر آتا ہے اور جہاں آمریت ہے وہاں جمہوریت خطرے میں محسوس ہوتی ہے یوں وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں مداخلت کا بھونڈا سہی جواز ڈھونڈتا ہے اور وہ خود کو اس کا حقدار سمجھتا ہے اس نے اپنے کارندے پوری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کو چھوڑ رکھے ہیں جو جس وقت چاہیں وہاں کے امن پر دھاوا بول دیتے ہیں اور امن کی بحالی کے بہانے اس ملک میں گھس جاتے ہیں لیکن امن کی بحالی تو ایک طرف خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں پاکستان میں امریکہ نے جس طرح دہشت گردی پھیلا رکھی ہے وہ اس کا ثبوت ہے اور اس وقت اس نے اپنے ایک قاتل شہری کو ہر صورت چھڑانے کے لئے جس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور جس استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے وہ در اصل ایک ریمنڈ ڈیوس کے لئے نہیں بلکہ وہ اسے اپنے ہر شہری کا حق سمجھتا ہے۔ ڈیوس نے قتل کے جرم کا ارتکاب کیا اور اسے صرف اس لئے معا فی یا استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے کہ وہ امریکی باشندہ ہے اور پاکستانی عدالتوں کو آزادی سے کسی خوف کے بغیر فیصلہ کرتے ہوئے امریکہ کو یہ احساس دلا دینا چاہیے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور کسی امریکی کو مزید یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلے اور ساتھ ہی امریکہ کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح دیگر جاسوسوں اور قاتلوں کو واپس امریکہ بلا لینا چاہیے۔ اس نے اپنے ہی رچا ئے ہوئے ڈرامے یعنی ٹوئن ٹاور میں مارے جانے والے چند ہزار امریکیوں اور یہودیوں کے بدلے بے شمار مسلمانوں کا خون بہا دیا ہے بلکہ اس کی طرف واجب الادا خون کا اگر حساب لیا جائے تو مزید کئی ٹوئن ٹاورز گرانے ہونگے پھر بھی مشکل ہے کہ خون کے بدلے خون پورا ہوسکے۔ اس موقعے پر ہماری حکومت کو شدت سے امریکہ کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ اب پاکستان مزید امریکی مفادات کے تحفظ کا متحمل نہیں ہو سکتا اس عمل کیلئے عوام تو تیار ہیں لیکن حکومت کو انتہائی ثابت قدمی کا ثبوت دینا ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.