دوست انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے
کہ جس کے بغیر اسکی زندگی ادھوری ہے اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر
کسی شے کو دو اکائیوں میں تقسیم کردیا جائے تو دوسری اکائی اسکا دوست ہے
یعنی دوست کے بغیر اسکا وجود آدھا ہے اور آدھا بذات خود کسی تعریف میں نہیں
آتا جب تک کہ اسکا دوسرا حصہ بھی اسکے ساتھ نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ دوست کے
بغیر جینے کا لطف نہیں آتا ہر سو تنہائی اور ویرانی کا احساس ہوتا ہے یوں
لگتا ہے جیسے کوئی قیمتی چیز کھو گئی ہے اسی لئے انسان فطری طور پر ایک
ایسے دوست کی تلاش میں رہتا ہے جو مخلص ہو، با وفا ہو،غمگسار ہو ،جسکی محبت
بے لوث ہو، جس میں اپنائیت و چاہت ہو اور جو دوست کی خوشی کی خاطر اپنا سب
کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہو۔ اور اگر خوش قسمتی سے کوئی ایسا دوست
مل جائے تو پھر زندگی کے چمن میں اک بہار آجاتی ہے کلیاں چٹکتی ہیں، پھول
کھلتے ہیں اور ہر سو ہریالی اور رنگینی کا احساس ہو تا ہے گویا قوس و قزح
کے رنگ فضاﺅں میں بکھر گئے ہیں اور دنیا جہان کی نعمتیں ہاتھ آ گئی
ہیں۔مشہور صوفی شاعر میاں محمد بخش کا ایک شعر ہے.........
توں بیلی تے سب جگ بیلی ہر بیلی وی بیلی
سجناں باجھ محمد بخشا سنجی پئی حویلی
یعنی اے خدا اگر تو دوست ہے تو پھر سارا جہان ہی دوست ہے اور اے محمد
بخش!دوست کے بغیر تو گھر بار ویران ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس گئے گزرے دور
میں ایک سچے اور مخلص دوست کا ملنا ممکن ہے؟ کیونکہ فی زمانہ ایسے مخلص یار
دوست نہیں ملتے بلکہ یار مار ہی ملتے ہیں جو دوستی کے پردے میں دوست کی
جڑیں کاٹتے اور اپنا مطلب نکالتے ہیں مگر اس نفسا نفسی اور خود غرضی کے
عالم میں انسان کا ایک سچا دوست بھی ہے جو ہر گھڑی اس کے ساتھ رہتا ہے جو
نظر تو نہیں آتا مگر اپنے دوستوں کی مدد کرتا اور ان کی خیر خواہی میں
مصروف رہتا ہے، جو طاقتور ہے، با اختیار ہے،اپنے حکم کو نافذ کرنا خوب
جانتا ہے اور اس میں ایک مخلص اور با وفا دوست کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم
موجود ہیں جنہیں بیان کرنے کی طاقت قلم میں نہیں اس انتہائی سچے اور مہربان
دوست کو خدا کہتے ہیں جی ہاں! خدا واقعی انسان کا دوست ہے۔چنانچہ ارشاد
فرمایا(ترجمہ) خدا دوست ہے مسلمانوں کا جو انہیں(کفر کے) اندھیروں سے نور (ہدائیت)
کی طرف لاتا ہے(الانفال پ۹)ایک اور جگہ فرمایا(ترجمہ) کیا ان لوگوں نے اللہ
تعالیٰ کے سوا اور کار ساز بنائے ہیں؟ (در حقیقت تو ) اللہ تعالیٰ ہی دوست
ہے وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز پر قادر ہے(الشورٰی پ۲۵)
ان آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ انسان کا حقیقی دوست ہے۔
سوال یہ ہے کہ دوست کسے کہتے اور دوستی کی حد کہاں تک ہے؟ تو عرض ہے کہ
دوست وہ ہے جو یہ کہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ میرے دوست کا ہے
اور دوستی کی حد عقل اور شریعت کے دائرے کے اندر ہے لہٰذا دوستی ان معنوں
میں شمار ہوتی ہے کہ دوست کی ملکیت میں جو جو چیزیں ہیں ان میں سے کوئی ایک
چیز یا ساری چیزیں اگر اسکا دوست طلب کرے تو دوسرا دوست فوراً بلا کم و
کاست وہ چیزیں اپنے دوست کے حوالے کر دے اور اپنے دل میں اسکا کوئی ملال یا
خیال تک نہ لائے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں اس کی
مثال خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ہے کہ جب ان سے انکے دوست حضرت محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ خندق کے موقعہ پر کچھ طلب کیا تو وہ
گھر کا سارا سازو سامان اٹھا لائے۔ جب سرور عالمﷺ نے ان سے پوچھا کہ میاں!
گھر کی ضروریات کیلئے بھی کچھ بچا کے رکھا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب
دیا کہ گھر میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کو چھوڑ آیا ہوں۔ یہ تو صحابہ کرام کی
مثا ل ہے سوال یہ ہے کہ جب خدا انسان کا دوست ہے تو ایک عام شخص بحثیت خدا
کا دوست اسے کیا دے سکتا ہے اور خدا انسان کا دوست ہونے کے ناطے اسے کیا دے
سکتا ہے؟
اسکا جواب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو جو کچھ دیا ہے اور جو کچھ دے سکتا ہے
اسے شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس نے خود ہی فرمایا ہے ”اگر تم خدا کی
نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ہرگز شمار نہ کر سکو گے“(القرآن) یعنی اسکے
لطف وکرم اور جود و عطا کے خزانے لامتناہی ولا محدود ہیں مگر اس نے ”کچھ لو
اور کچھ دو ” کی بنیاد پر انسان سے ایک سودا بھی کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے
کہ جو کچھ تمھاری ملکیت میں سب سے پیاری چیز ہے وہ مجھے دے دو اور جو کچھ
میرے پاس تمھارے لئے اچھی چیز ہے وہ میں تمھیں دیتا ہوں مگر اس سودے میں
ایک خاص بات جو عام تجارتی اصولوں سے ہٹ کر ہے وہ یہ ہے کہ جیسے تجارتی
منڈی میں مال کے مطابق قیمت لگتی ہے کہ جیسا مال ویسا بھاﺅ! مگر اس میں
ایسا نہیں ایک تو یہ کہ" مال " بھی سوداگر نے پہلے سے دے رکھا ہے اور پھر
خود ہی اسکا خریدار بھی ہے اور دوسرے یہ کہ مال کی قیمت بھی بہت زیادہ
لگائی گئی ہے جو کہ بیچنے والے کی توقع سے بہت بڑھ کر ہے ہے چنانچہ فرمایا
” بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو
اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ انھیں جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں
لڑتے ہیں جس میں وہ قتل کرتے ہیں اور شہید کئے جاتے ہیں اس پر اللہ کا سچا
وعدہ کیا گیا ہے توراة میں انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے
عہد کو کو ن پورا کرے والا ہے، تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ
ٹھہرایا ہے خوشی مناﺅ اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے“(التوبہ پ ۱۱)
اس سودے کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جان و مال کے بدلہ میں جنت!! گویا......
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
لہٰذا اس عظیم دوست کو حاصل کرنے کیلئے پہلے کچھ دینا پڑتا ہے جو دوستی کے
اسی اصو ل کی بنیاد پر ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ میرے دوست
کا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جسے اچھا دوست نہ ملنے کی شکایت ہے وہ خود ہی
اچھا دوست نہیں۔سوال یہ ہے کہ اس عظیم دوست سے کیسے رابطہ قائم کیا جاسکتا
ہے اور کیسے اس سے ملاقات ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ نظر تو آتا نہیں اور نہ ہی
اسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ تو اس نے خود ہی قرآن پاک میں اسکا طریقہ بتلا
دیا ہے چنانچہ فرمایا(ترجمہ) اے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم! جب آپ سے
میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ(میں کہاں ہوں) تو میں تو ان کے قریب
ہوں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارے۔ پس انہیں
بھی چاہئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ فلاح
پائیں۔(البقرہ)
یعنی اس دوست سے ملاقات کرنے کیلئے صرف ایک بار اسے دل کی گہرائیوں سے
پکارنا ضروری ہے پھر جواب دینا اور مدد کرنا اس کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
اس دوست کے علاوہ دنیا میں نہ کہیں اور جائے پناہ ہے اور نہ کہیں امان مل
سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان سب جگہ سے منہ موڑ کر صرف اسی
ایک دوست سے دوستی لگا لے اور اسی کا ہو جائے بقول اقبال........
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں |