بھیک ایک کاروبار

 آج کل بھیک مانگنے والوں کی تعداد ویسے ہی بہت بڑھ گئی ہے اور اگر ہم بات کریں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تو ہمیں کراچی میں جگہ جگہ بڑی تعداد میں بھکاری نظر آئینگے اور پورے ملک میں بھی۔ ہمیں کوئی بازار کوئی سڑک یہاں تک کے کوئی سگنل بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جو بھیک مانگنے والوں سے خالی ہو ۔ ہسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کے باہر بھی ہم کو کافی بڑی تعداد میں بھیک مانگنے والے نظر آئنگے۔ جیسے ہی لوگ ہسپتال یا کہیں سے بھی باہر نکلتے ہیں ویسے ہی فورا یہ لوگ ہم سے بھیک مانگنے آجاتے ہیں اور ان سے کوئی کتنی ہی بار جانے کا بول دے وہ نہیں جاتے یہاں تک کہ بولنے والا ہی آخر کو شرمندہ ہوکر انکو بھیک دے ہی دیتا ہے۔ اگر انکو کوئی بھیک نہ دے تو یہ اس شخص کے پیچھے پیھچے جانے لگتے ہیں۔ اور ہم کو کتنے ہی ایسے لوگ بیھک مانگتے نظر آئیں گے جو بلکل تندرست ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح کی معذوری کا شکار بھی نہیں ہوتے ہیں۔

بھیک مانگنے والے مافیا کہ پانچ گروپ سرگرم ہیں۔ اور تین سال کے عرصے میں ان کی تعداد میں 50% اضافہ ہوا ہے۔ شہر کی تمام چورنگیوں پر فقیروں کا غیر عیلانیہ قبضہ ہے۔ اور یہ اپنے گروہ کے لوگوں کے علاوہ کسی اور کو وہاں بھیک مانگنے نہیں دیتے۔ ایک سگنل پر ہمیں 5 سے 8 فقیر موجود ملیں گے۔

یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بھیک مانگئیں۔ یہ لوگ تپتی دھوپ میں شیرخوار بچوں کا استعمال بھی اسی لیے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کہ دل میں رحم آئے اور ان کو بھیک دیں۔ یہ ان چھوٹے بچوں کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ وہ بھی بھیک مانگنے میں ایکسپرٹ ہو جاتے ہیں اور ان کو بھی بھیک مانگنا کوئی برا کام نہیں لگتا۔ ان کے ماں باپ ان کو پڑھانے لکھانے کے بجائے انکو بھی بھیک مانگنے پر لگا دیتے ہیں۔اور اپنے بچوں کو علم جیسی نعمت سے محروم رکھتے ہیں۔

ایسے لوگ معاشرے میں موجود دوسرے افراد کو بھی بھیک مانگنے جیسے برے کاموں کے لیے بڑھاوا دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی آسان طریقہ ہے کمائی کا اور آج کے دور میں تو یہ لوگوں نے اپنا کاروبار بنایا ہوا ہے۔اور ان جیسے لوگوں کی وجہ سے جو واقعی صدقے اور خیرات کے مستحک لوگ ہوتے ہیں وہ اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بھیک مانگنے والے افراد اکثر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کے درمیان چور اور اسٹریٹ کرمینلز بھی سرگرم ہوتے ہیں۔ یہ ہی افراد بچوں کو پارکوں اور بازاروں سے اغوا کرتے ہیں اور پھر ان بچوں سے بھی ایسے غیر کانونی اور مجرمانہ کاروائیاں کرواتے ہیں۔ یہ لوگ چیزیں بھی چراتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں ڈکیتیاں بھی ڈالتے ہیں۔ اور ایسے افراد ہی بازاروں میں آنے والے خریداروں کی جیبیں بھی کاٹتے ہیں۔ ان کے بہت سارے گروہ جو ہوتے ہیں وہ ان سے یہ سارے کام کرواتے ہیں۔ کیا گدا گروں کے بھیس میں سب فقیر ہی ہوتے ہیں؟ اس بھیس میں کوئی امن دشمن تو نہیں۔

بھیک مانگنے والی خواتین بھی اکثر ایسی مجرمانہ کاروائیوں میں شامل ہوتی ہیں۔ یہ لوگوں کے گھروں میں جلدی سے داخل ہو جاتی ہیں اور ان کو لوٹتی ہیں اور ان کا سارا کیمتی سامان لے جاتی ہیں۔ بھیکاری کچی آبادیوں میں بھی قبضہ کرلیتے ہیں۔اکثر بھیکاری تو پلوں کے نیچے بھی اپنی جھوپڑیاں لگا لیتے ہیں۔ بچے اغوا کرنے والے گروہ ان معصوم بچوں کے اعضاء کاٹ کر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ اگر وہ ہی بچے پڑھیں لکھیں تو ہمارا ملک ترقی بھی کرے گا اور ہمارے ملک کا مستقبل بھی روشن ہوگا۔

Maryam Abbas
About the Author: Maryam Abbas Read More Articles by Maryam Abbas: 3 Articles with 4828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.