ایسے مریض ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں جا بجا ملتے ہیں ۔جو
بظاہر نارمل دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد
اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شدید قسم کے زہنی عارضے میں مبتلا ہیں ۔
ماہر نفسیات کے مطابق فرد اپنی فکری اور زہنی الجھنوں کو حل کرنے کے لئے جو
طریقے استعمال کرتا ہے ۔انہیں defence mechanism دفاعی عمل کہا جاتا ہے ۔فرد
لا شعوری طور پر مختلف مواقعوں پر مختلف تحفظات استعمال کرتا ہے ۔جن میں
ایک دفاعی عمل "خود پسندی"ہے ۔خود پسندی دراصل وہ لا شعوری فراری حربہ
ہے۔جس میں فرد اپنی ذات کو اہم اور یکتا سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہی سب سے
زیادہ با صلاحیت ،طاقتور ،ذہین ، خوبصورت اور تخلیق کار سمجھتے ہوئے اپنی
ذات کی خوبیوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہے ۔
دفاعی عمل کا استعمال اگر اعتدال میں رہے تو یہ ایک نارمل اور صحت مند رویہ
ہے کیوں کے فرد وقتی طور پر اپنی فکرات سے کسی حد تک بچ جاتا ہے اور ایک
نئے سرے سے اپنے مسائل کے حل کے لئے حکمت عملی بناتا ہے لیکن اگر یہ عمل
فرد مسلسل استعمال کرتا رہے تو اس کی شخصیت کا ایک حصّہ بن جاتا ہے ۔
خود پسند شخص انتہائی درجے کا حاسد اور مغرور ہوتا ہے وہ ہر وقت لوگوں سے
اپنی قصیدہ خوانی کی خواہش رکھتا ہے تنقید اس سے برداشت نہیں ہوتی جذبہ
ہمدردی کا اس میں فقدان ہوتا ہے ۔اسے دیگر افراد کی ضروریات اور احساسات سے
کوئی غرض نہیں ہوتی ۔وہ ہر وقت دوسروں سے امیدیں وابستہ کرتا رہتا ہے اور
چاہتا ہے کے اس کے ساتھ سب لوگوں کا رویہ خاص ہو ۔لیکن وہ اپنی تمام تر
خامیوں کو دوسروں میں تلاش کرتا ہے کہ دوسرے لوگ ایسے ہیں اور اس کے بارے
میں ایسا سوچتے ہیں ۔
فرد کی یہی سوچ بلآخر ایک مرض کی صورت اختیار لیتی ہے اور ایسے لوگ ہمیں
زندگی کے ہر شعبے میں جا بجا ملتے ہیں ۔جو بظاہر نارمل دکھائی دیتے ہیں
لیکن انکے ساتھ کچھ وقت گزرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شدید قسم کے
زہنی مرض میں مبتلا ہے ۔بعض لوگ اپنے ظاہر کے متعلق "خود پسند "ہیں ۔وہ صرف
اپنے آپ کو ہی دنیا کا حسین ترین شخص تصور کرتے ہیں ۔جس سے انکے گھریلو اور
سماجی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔
جن لوگوں کے پاس دولت آجاتی ہے وہ اپنے آپ کو ہی مختار کل سمجھتے ہیں ان کو
اس بات سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ دولت کے حصول کے زرائع جائز ہیں یا نہ
جائز ،وہ اپنی دولت سے لوگوں کو زہنی ازیت پہنچانے کا حربہ استعمال کرتے
ہیں ۔اپنی دولت کی نمائش کر کے لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس
طرح با اختیار افراد اپنے اختیارات نا جائز استعمال کرتا ہے ۔اور لوگوں کو
زیر کرنے کا ہر گھٹیا سے گھٹیا حربہ استعمال کرتا ہے ۔اگر اس کے اختیارات
زیادہ بڑھ جائے تو وہ خود کو "چنگیز خان" اور "ہلا کو خان "بننے سے بھی
گریز نہیں کرتا ۔
بعض لوگوں کو اپنی ذہانت پر بھی ناز ہوتا ہے وہ اپنے سامنے ہر ایک کو بے
وقوف سمجھتے ہیں ۔دوسروں کی بات کو اور دلائل کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتے
۔لہٰذا ان کا علم ایک خاص حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پاتا ۔پھر ایسے افراد
لوگوں کی تلقین کا نشانہ بھی بنتے ہیں ۔
کچھ لوگ اپنے خاندانی پس منظر پر بڑا ناز کرتے ہیں ۔وہ خود چاہے کچھ بھی نہ
ہوں لیکن اپنے خاندان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ۔
بنیادی طور پر خود پسندی کی ابتداءبچپن سے ہی ہو جاتی ہے اس وقت اس کی
سوچوں کا مرکز اس وقت اسکی سوچوں کا مرکز اس کی اپنی ذات اور خواہشات ہوتی
ہے ۔پھر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو وہ آئینے میں اپنے خدو خال کا جائزہ لیکر
اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار اپنے رویہ اور زبان سے کرتا ہے ۔اس طرح اس
کی سب سوچیں اسکی ذات تک محدود ہو جاتی ہیں ۔
خود پسندی سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کے گھر کا ماحول سازگار ہو ،بہتر ہو ،بھائی
چارے کی فضا قائم ہو اگر بچپن کے رویوں پر نظر رکھی جاے تو کوئی وجہ نہیں
کے وہ ایک اچھا انسان نہ بن سکے ۔ |