پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو پاکستان میں
لڑکوں کی شرح خواندگی تقریباً70%،لڑکیوں کی 45%ہے اورپاکستان میں کم وبیش
ڈیڑھ لاکھ سکول ہیں مگرایک سروے کے مطابق میں نے دیکھا جسے دیکھ کے مجھے
نہایت دکھ ہوا کہ پاکستان میں آج بھی انیس ملین بچے آج بھی مزدوروں کے
طورپر کام کررہے ہیں اوراسی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں کوئی گھروں میں کام
کررہاہے توکسی نے دکانوں پرجھاڑولگانا شروع کردیا میں نے ایک صاحب سے پوچھا
کہ یار آپ اپنے بچے کو کڑھائی کے کام پربھیجتے ہواسے سکول کیوں نہیں پڑھاتے
تواس نے کہا یار میں ایک مزدورآدمی ہوں چنائی پلسترکے مستری کے ساتھ کام
کرکے دن کا 500سے700کمالیتاہوں جس سے گھرکا مشکل سے گزاراہوتاہے توبچے کی
کتابوں وغیرہ کا خرچ کیسے برداشت کروں گا تومیں نے کہا بھائی آپ اپنی زندگی
میں کچھ بنالیتے توآج اپنے بیٹے کو اچھی تربیت کے ساتھ اچھی تعلیم بھی دے
سکتے تھے تواس نے عجیب سا جواب دیا جسے سن کے میں حیران بھی ہوااورمیرے ذہن
میں بھی کئی سوال گردش کرنے لگے اس شخص نے کہا کہ ویسے بھی بچوں کوپڑھا کے
کیا کرنا ویسے بھی کون ساہمیں نوکری ملنی ہے؟ مگرکئی لوگوں کواپنے والدین
کو کوستے دیکھا ہے کہ کاش ہمیں پڑھاتے توہم یہ کام نہ کررہے ہوتے اگرمیں
بات کروں توپاکستان میں 25فیصدایسے بچے ہیں جوتعلیم حاصل کررہے ہیں
اور75فیصد بچے یا توکام سیکھ رہے ہیں یاآوارہ گردی کی طرف جارہے ہیں جس سے
وہ چورڈاکواورنشئی لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ہمیں چاہیے جوبچے دفتروں
دکانوں اور گھروں میں کام کررہے ہیں ان کے والدین اوران مالک کے خلاف
قانونی کاروائی کروائیں تاکہ ہمارے ملک کی خواندگی میں اضافہ ہواورہمارے
ملک کے بچے پڑھ لکھ کے ڈاکٹر،انجینئر،افسر،فوجی صحافی بن کے اپنے ملک کی
خدمت کرسکیں۔تعلیم کا فروغ ہی معاشرتی ترقی کا ضامن ہوتا ہے پاکستان ایک
ترقی پذیرملک ہونے کے ناطے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے جس کی متعدد
وجوہات ہیں اگران وجوہات کا تعین کرکے روڈ میپ بنایا جائے تو شرح تعیلم میں
اضافہ ممکن ہے مگراانتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پالیسی ساززمینی
حقائق کویکسرنظرانداز کرکے ایسی پالیسیاں مرتب کررہے ہیں جس سے نہ توہماری
شرح تعلیم میں اضافہ ہورہا ہے اورنہ ہی تعلیمی معیاربہترہورہا ہے۔تعلیم
کافروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اوراسکے سلسلہ میں حکومت کافی حد تک
سنجیدہ بھی نظرآتی ہے مگراس سلسلہ میں مزیدموثراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
جیسا کہ اب یکم اپریل سے 30اپریل تک داخلہ کے سلسلہ میں سرکاری سکولز میں
بھرپورکمپین چلائی جارہی ہے اورگزشتہ ایک دوسالوں سے سرکاری سکولز میں
بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں یہ واقعی لائق تحسین ہیں۔مگراب بھی
تعلیم کے فروغ خصوصاًبچیوں کی تعلیم کی روہ میں کئی رکاوٹیں حال ہیں جنہیں
فوری طورپرحل کرنے کیلئے حکومت کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہونگے آض بھی
سرکاری سکولز میں بنیادی سہولیات میسرنہ ہیں۔سرکاری سکولز میں کلاس رومز کی
کمی،فرنیچرکی کمی،پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت دیگربنیادی سہولیات
فراہم کردی جائیں توان سکولز کی تعدادمیں اضافہ ممکن ہے اوراسسے انرولمنٹ
کمپین کامیاب بنائی جاسکتی ہے اسی طرح گورنمنٹ پرائمری سکولزمیں اکثرسکولز
2یا3کمروں پرمشتمل ہیں اورٹیچرزکی کمی ایک علیحدہ مسئلہ ہے ان مسائل کے
علاوہ ٹیچر کا مقامی کمیونٹی سے رابطہ نہ ہونا اورغیرفعال بلکہ ڈمی ٹائپ
سکول کونسلز کو اگرمتحرک کردیا جائے توکئی مسائل حل ہوسکتے ہیں گورنمنٹ
سکولز میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گریجویٹرز کی بھرتی سے سرکاری سکولز میں جان
پڑگئی ہے مگران ایجوکیٹرز کی ٹریننگ کے اہتمام کرکے ان سے بہترنتائج لیے
جاسکتے ہیں۔ان تمام مسائل کے حل کیلئے اقوام متحدہ کاادارہ یونیسکوملک
بھرکے 19اضلاع میں کام کررہا ہے اورپنجاب کے دواضلاع مظفرگڑھ اوربہاولپور
میں کام کیا جارہا ہے۔ مظفرگڑھ میں اس عظیم مشن کیلئے سماجی تنظیم سوشل
یوتھ کونسل آف پیریاٹس (سائیکوپ)محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کرضلع مظفرگڑھ کی
تحصیل جتوئی اورعلی پورمیں اپنی خدمات پیش کررہی ہے اورداخلہ مہم کوکامیاب
بنانے کیلئے اپنا موثرکرداراداکررہی ہے سائیکوپ نے محکمہ تعلیم اورپنجاب
حکومت کے ساتھ مل کرجتوئی کے 202گرلز اوربوائز پرائمری سکولز میں8000طلباء
وطالبات کوسکولز میں داخل کرانے اورعلی پور کے 80گرلز پرائمری سکولز میں
3ہزاربچیاں داخل کرانے کاٹارگٹ بنایا ہے تاکہ شرح تعلیم کی رینکنگ میں
مظفرگڑھ کی صورتحال بہتربنائی جاسکے اورسکولز میں سہولیات کی فراہمی معیار
تعلیم کی بہتری کیلئے ٹرینگزاوراساتذہ اورکمیونٹی کے درمیان فرق کو کم کرکے
سرکاری اداروں پرعوام کااعتماد بحال کرانے کی کوشش کی جارہی ہے سائیکوپ
اوریونیسکو کی ان کاوشوں سے ضرورشرح تعلیم میں جہاں فرق پڑے گا وہاں تعلیمی
معیاربہترہوگااوررٹاسسٹم کابھی خاتمہ ہوگاجس سے پاکستان کا مستقبل روشن
اورمنورہوگااورتعلیم یافتہ سوسائٹی کی وجہ سے عدم برداشت ،دہشت گردی سمیت
جہالت اک اندھیراختم ہوگاحکومت کو بھی چاہیے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی
کرے اورسرکاری سکولز کی بہتری پرمزیدتوجہ دے۔
|