پنجاب میں بنیادی تعلیم میں بہتری کے لیے میں نے
سکول کونسل سے بڑھ کر کسی پروگرام، تحریک،مشن،سرگرمی یا منصوبے کو موثر
نہیں پایا۔ حقائق اور تجربات سے یہی سیکھا ہے کہ جب تک والدین ،معاشرہ اور
اساتذہ ملکر کام نہیں کرتے نہ تو نظام تعلیم میں بہتری آسکتی ہے اور نہ ہی
بہتری کا یہ سفر جاری رہ سکتا ہے۔ویسے بھی والدین سے بڑھ کر کوئی اوراپنے
بچوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ جو درد اور تکلیف والدین کو اپنی اولاد کی
ہوتی ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوتی۔ پنجاب ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروگرام نے
انہیں نفسیاتی اور اساسی اصولوں کو بنیاد بنا کر والدین میں اپنے بچوں کے
تعلیمی معاملات میں دلچسپی کی ترغیب پیدا کی اور والدین کے ساتھ ایسے افراد
کو بھی ان کے ساتھ لا کھڑا کیا جو صاحب الرائے تھے یا جن کو ہم بااثر افراد
کہہ سکتے ہیں۔پنجاب ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروگرام ویسے تو تعلیم کی بہتری
کے لیے مسلسل اقدامات کررہا ہے لیکن اس ادارے کا جو سب سے بڑا اور مثبت
کارنامہ سکول کونسل پروگرام کے ذریعے سکولوں کی تعلیمی اور انتظامی صورت
حال کو بہترکرناہے۔کسی بھی مدرسے یا سکول کو جس احسن انداز سے مقامی لوگ
بہتر انداز سے چلاسکتے ہیں براہ راست حکم نامے سے نہیں چلایا جا سکتا ۔وہ
فیصلے جو کسی سکول کی کونسل کے ممبران کر پاتے ہیں۔ وہ محکمہ تعلیم کے
افسران یا تو کر نہیں پاتے یا پھر کونسل کے فیصلوں سے بہتر فیصلے نہیں کر
نے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ سکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اورمعاشرے
کے دیگرافراد زیادہ بہتر جانتے ہیں ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کے حصول میں
کن مشکلات کا سامنا ہے۔ 2007 میں سکول کونسل کے قیام کا یہ منصوبہ پیش کیا
گیا بعد ازاں 2008 اور پھر 2013 میں ترامیم کرکے اس میں بہتری لائی گئی۔
اسی سلسلے میں2009 میں مجھے ایک گاؤں کی سکول کونسل کے قیام اور سکول کے
معاملات میں بہتری کا موقع ملا ۔یہ گاؤں خاندانی دشمنی کی وجہ سے بہت متاثر
تھا ۔میں جب پہلی بار اس سکول کے دروازے تک پہنچا تو سامنے ڈیرے پر بیٹھے
ہوئے مسلح افراد نے مجھے بلا بھیجا ۔میں بہت خوف ز دہ ہوا ڈیرے پرجاتے ہی
وہاں کے ایک بڑے شخص نے بڑے رعب اور دھمکی آمیز انداز میں مجھے مخاطب کرتے
ہوئے کہا کہ تو کون ہے اور ہمارے گرلز سکول کے دروازے پر کھڑا ہونے کی جرأت
کیسے کی؟ان کی طبیعت اور تیوروں کو بھانپتے ہوئے میں نے جلدی سے کہ دیاکہ
مجھے محکمہ تعلیم کے افسران نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ کے گاؤں کے
بچوں کی تعلیم و تربیت میں مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں اور گاؤں
والوں کے مشورے کے مطابق کام کرنا لہٰذا میں تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا
ہوں کہ آ پ کے بوائز اور گرلز سکولوں کے جو بھی مسائل ہیں ان کے حل میں
میری خدمات حاضر ہیں۔میں تو افسران بالا کے حکم سے یہاں پہنچا ہوں آپ سکول
،عمارت اور بچوں کی تعلیم کے معاملے میں جو فیصلہ کریں گے میں اس فیصلے پر
عملدرآمد کرانے میں آپ کی رہنمائی کروں گا ۔میرے یہ الفاظ سن کر ڈیرے پر
بیٹھے ہوئے بڑوں کے بڑے نے خوش ہو کر میری حوصلہ افزائی کی اور یہ کہہ کر
میرا حوصلہ بڑھایا کہ آپ جو ہمارے بچوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کریں گے ہم
آپ کا بھر پور ساتھ دیں گے۔پھر میں نے دیکھا کہ جو لوگ خاندانی دشمنیوں کی
وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے وہ اپنے بچوں کی تعلیم و
تربیت کے لیے اکٹھے بیٹھنے لگے اور پھر وہ کام ہوتے دیکھے جو کافی عرصے سے
شعبہ تعلیم سے وابستہ ذمہ داران نہیں کر پا رہے تھے۔ یہاں سکول کی ایک
اورعمارت بھی تھی جو کچھ عرصہ پہلے تعمیر کی گئی۔ ایلیمنٹری سکول نئی عمارت
میں چل رہا تھا ۔ پہلی عمارت وہاں کے بااثر لوگوں کے استعمال میں تھی جسے
نواز شریف کے جمہوری لوگ اور جنرل مشرف کے وردی والے افسران بھی خالی نہ
کروا سکے ۔یہ کمال سکول کونسل کی موبلائزیشن کا تھا کہ سکول پر قابض افراد
نے سکول محکمہ تعلیم کو واپس کرنے کی پیش کش کردی ۔یہ سکول کونسل
موبلائزیشن کا کارنامہ تھا کہ لوگوں نے مقامی سطح پر اپنے سکولوں کے مسائل
حل کرنے کے حل ڈھونڈلیے۔
میں نے سکول کونسل کے ذریعے سکولوں کی چار دیواری ،اضافی استاد کی منظوری
،صاف پینے کا پانی،بجلی کی فراہمی،سکولوں میں اساتذہ کی بروقت حاضری ، بچوں
پر خصوصی توجہ اور بچوں کی صحت سے متعلق تمام تر اقدامات ہوتے دیکھے۔ایک
وقت تھا جب گاؤں کے لوگ ان کاموں کے لیے گاوں کے وڈیرے ،ایم پی اے یا ایم
این اے کے پاس جاتے تھے۔لیکن سکول کونسل کے قیام کے بعدمیں نے ۔وہ کام ہوتے
دیکھے جو ایجوکیشن مینجرز کے لیے کافی مشکل ثابت ہو رہے تھے۔ اس کے مقابلے
میں نظام تعلیم کی بہتری کے دیگر پروگرام اور منصوبے اتنے موثر نہیں
ہوئے۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دیگر منصوبوں میں والدین کی شمولیت بہت کم
ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے والدین اور معاشرے کے دیگر افراد اپنے نونہالوں کی
تعلیمی صورت حال سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے اور واقف نہ ہونے کی وجہ سے وہ
ان کی تعلیمی بہتری کے لیے کچھ کر بھی نہیں پاتے۔ جبکہ دوسری طرف سکول
کونسل ممبران کا تقرر یا انتخاب جب علاقے کے اس سکول میں زیر تعلیم بچوں کے
والدین مشاورت سے کرتے ہیں تو اس سے والدین میں سکول کے نظام ،معیار تعلیم
اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے
ہیں۔سکول کونسل ممبران کی کوششوں کے نتیجے میں حکام نظام تعلیم کی جملہ
بہتری کے لیے مجبور ہوئے ورنہ پاکستان میں حکومتیں تو قیام پاکستان کے دن
سے ہی دعوے تو کرتی چلی آرہی ہیں لیکن عملی طور پر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں
کر پائیں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ میڈٖیا کا بھی بھر پور کردار ہے ۔مان
لیتا ہوں لیکن میڈیا والوں کو سکولوں اور بچوں کے مسائل کے ایشوز اور
اطلاعات بھی تو کونسل کے ممبران یا گاوں اور شہر کے وہ لوگ دیتے ہیں جن کو
سکولوں اور بچوں کی تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے متحرک کیا جاتا ہے ۔یا
جن میں اپنی قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے جزبات موجزن ہیں۔ اس
منصوبے کا حسن یہ ہے کہ اس میں سکول کونسل کے ممبران کے فیصلے کی تمام
اسٹیک ہولڈرز توثیق کرسکتے ہیں ۔اسے مسترد نہیں کر سکتے ۔اس میں ترمیم کا
مشورہ دے سکتے ہیں۔ مگر قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتے جس سے سکول کونسل
ممبران کو اپنے فیصلوں کی اہمیت کا بہت زیادہ اندازہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ
پہلے سے بہتر انداز سے تعلیم کی بہتری کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔سکول کونسلوں
کی استعداد کار بڑھانے کے دوران ایک بڑا دلچسپ چیزیں سامنے آئیں۔مثلاّجب
سکول کونسلوں کے قیام کے بعد جب ہیڈ ٹیچرز کی بجائے سکول میں زیر تعلیم کسی
بچے کی ماں یا باپ کو چیئرمین بنایا گیا اور ہیڈ ٹیچرز کو شریک چیئر مین
بنا گیا اور سکول کونسل پالیسی 2007 کے مطابق تربیتی ورکشاپ کا آغاز ہوا
سکول کونسل کی مجوزہ ورکشاب کرائی جارہی تھیں تو ہیڈ ٹیچرز کی اکثریت کو
PESRP کا یہ طرزعمل ناگوار گزرا کیونکہ اس ورکشاپ میں سکول کونسل ممبران کو
سکول کے بینک اکاونٹ ،دیگر فنڈز ،کیش بک ،سکول اساتذہ کی حاضری سمیت دیگر
اہم معاملات سے آگاہی دی گئی اور ان جملہ امور کو چیک کرنے اور ان کی توثیق
یا تنسیخ کے اختیارات دیئے گئے ۔ہیڈ ٹیچرز کو یہ بات اس لیے پسند نہ تھی
کیونکہ اس سے سکول کونسل ممبران سکول کونسل کی تربیت لینے کے بعدجملہ امور
پر نظر رکھنے اور فیصلہ سازی میں قابل ہوگئے تھے اور سکول کونسل ممبران کی
ان پر نظر رہتی تھی ۔اس عمل نے اساتذہ کو پابند کردیا تھا اور آزادی کے بعد
پابندی کی بڑی تکلیف ہوتی ہے اور یہ بات ہیڈ ٹیچرز کو اچھی نہ لگتی تھی اس
لیے اکثروبیشتر ہیڈ ٹیچرز سکول کونسل ممبران کو سکول معاملات سے متعلق
معلومات ،آگاہی اور اختیارات کے مخالف تھے اور دبے دبے لفظوں اور جملوں میں
سکول کونسل ممبران کو ٹریننگ دینے کے حق میں نہ تھے۔بہر کیف یہ پروگرام بہت
کارگر ثابت ہوا اور سکولوں کے معاملات مقامی سطح پر ہی حل ہونے لگے۔تجربات
اور حقائق کے بعد میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہو ں کہ نظام تعلیم ،میعار
تعلیم اور سکولوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے اس منصوبے کو باقاعدہ نصاب کے
طور پر پیش کیا جائے۔اس منصوبے کو مزید کارگر بنانے کے لیے سکول کونسل
ممبران سے مشاورت،ان کو متحرک رکھنے اور سکولوں کے مسائل کو مقامی سطح پر
حل کرنے کے لیے باقاعدہ یعنی مستقل طورہر تحصیل کی سطح پر فیلڈ کوارڈینیٹر
تعینات کیے جائیں جو اپنی تحصیل کی سکول کونسلوں اور ممبران کو متحرک رکھے
اور تحصیل ،ضلع یا صوبے کی حکومتی اداروں کے تعاون سے حل کرنے میں مدد کریں
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ممبران میں اعتماد پیدا ہو گا ۔مسائل
مقامی سطح پر حل ہوں گے اور جو وقت اور توانائی ہیڈ ٹیچرز یا دوسرے اساتذہ
کو یہ مسائل حل کرنے کے لیے خر چ کرنا پڑتی ہے وہ بچ جائیں گے ۔اساتذہ کا
وقت بچے گا ۔ذہنی دباؤ سے محفوظ رہیں گے تو یہ وقت اور خوش طبعی سکول میں
زیر تعلیم بچوں کے کام آئے گی ۔بچوں کو پڑھانے کے لیے وقت میسر ہو گا۔ یہ
کوارڈینیٹر سکول ،اے ای او،ڈپٹی ڈی ای او ،ڈی ای او ،ڈی سی او سیکرٹری
تعلیم اور وزارت تعلیم کے مجموعی کام سے زیادہ موثر ثابت ہوں گے اور
ایجوکیشن مینجرز پر بوجھ بھی کم ہو جائے گا ۔اس کے برعکس اگر سیاسی مداخلت
یا براہ راست مداخلت کی جاتی ہے تو پھر ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر پی ٹی سی
ٹیچر ہوتا ہے ۔پھرہائی سکول کے پی ٹی سی ہیڈ ماسٹر کو عہدے سے ہٹانے کے لے
پنجاب اسمبلی میں قرار داد پیش کرنے کا سہارا لینا پڑتا ہے پھر پڑھے لکھے
پنجاب کا نعرہ اور خواب ادھورے کا ادھورا ہی رہ جائے گا ۔
|