دھوکے کی قیمت

عثمان کافی لیٹ ہو گیا تھا اس کو انٹرویو کے لیے جلدی پہنچنا تھا وہ بھاگتا ہوا باہر اسٹاپ تک پہنچا مگر بس بھی نکل چکی تھی اور وہ یہ نو کری کسی حال میں بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ لاہور شہر میں لیٹ ہونا جرم ہے اور اس کی سزا سڑکوں کی ٹریفک کی شکل میں ملتی ہے موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عثمان نے رکشہ لینا بہتر سمجھا اور ایک رکشے والے کو رکوایا۔ رکشے والے نے عثمان کے قدموں کے قریب آ کر بریک لگائی رکشے والا صحت مند ا اور چہرے کے نقوش سے عمر کا اندازہ لگایا جائے تو چالیس کے قریب قریب لگتا تھا۔ رکشے والا مسکراتے بولا۔ جی بھائی جان؟ ماڈل ٹاؤن جانا ہے، عثمان نے کہا۔

لے چلوں گا، رکشے والے نے شیشے میں بالوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ کتنے پیسے لیں گے؟ عثمان نے ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا۔ دو سو روپے ، رکشے والے نے جواب دیا۔ عثمان جلدی میں تھا اس وقت وہ پانچ سو بھی مانگتا تو شاید عثمان مان جاتا۔ اس نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور رکشے میں بیٹھ گیا۔ چلو بھائی ذرا جلدی چلنا ہے دیر ہو گئی ہے پہلے ہی، عثمان نے اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔ جناب وقت سے پہلے پہنچا دوں گا ، رکشے والے نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ موبائل پر کچھ بٹن دبائے گیر ڈالا اور رکشہ چلانا شروع کر دیا۔

رکشے کی سواری کا بھی اپنا مزا ہے لیکن جن رکشوں میں رکشے والوں نے گانا سننے کے لیے اسپیکر لگائے ہوتے ہیں۔ ان رکشوں میں سواریوں کو کمر سیدھی کرنا نصیب نہیں ہوتا پیچھے عثمان بیٹھا اپنی کمر جھکائے بار بار ٹائم دیکھ رہا تھا۔ عثمان ایک خوش سیرت اور خوش اخلاق لڑکا تھا۔ 15 منٹ باقی تھے اورلیٹ ہونے کا خوف تنگ کر رہا تھا۔ رکشے والا منہ میں گانا گنگنا رہا تھا اور بار بار عثمان کو شیشے سے پیچھے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر رنگ ہوئی اور اس نے موبائل کان کو لگالیا۔
بھائی جان السلام علیکم، رکشے والے نے اونچی آواز میں بولا۔ عثمان اپنی فائل کو سیٹ کر رہا تھا کہ اچانک چونکا۔ رکشے والا کچھ لمحے خاموش رہا اور اپنے نچلے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا، جناب بس ایک ہفتہ دے دیں میں کچھ کرتا ہوں مہربانی ہوگی، آپ کو پتا تو ہے پچھلے مہینے میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے لیٹ ہوگیا، رکشے ولا ایک دم خاموش ہوگیا اور پھر رونا شروع کردیا۔ جناب میں کہا جاؤں گا میرے پاس کوئی جگہ بھی نہیں ہے، بھائی صاحب میں کیسے مکان خالی کر دوں ہیلو ہیلو۔۔ رکشے والے نے کہتے ہوئے موبائل کو دیکھا اور موبائل ایک سائڈ پر رکھ دیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
عثمان بیٹھا پیچھے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ کر بھی بات سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے رکشے والے کو روتا دیکھا تو اس کے اندر ہمدردی پیدا ہوئی اس نے نہ نہ کرتے بھی پوچھ لیا۔ کیا ہوا بھائی جان سب خیریت تو ہے؟ عثمان نے سامنے لگے شیشے میں رکشے والے کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی جناب ! پچھلے مہینے میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ جتنا پیسہ تھا وہاں لگ گیا یہ میری ناک پر چوٹ بھی لگی ہے یہ دیکھ رہے ہیں، رکشے والے نے اْنگلی سے ناک پر لگے نشان کو دکھاتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی ’’مکان کا کرایہ نہیں دے سکا اِس مہینے بھی حالات تنگ ہے میری چار بیٹیاں ہیں، مکان مالک نے کہا ہے کل مکان خالی کر دو۔ اب آپ ہی بتاو میں کہا ں جاوں؟ اِس مہنگائی کے دور میں دو ٹائم کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی ہے اور اوپر سے مکان کے کرائے سکول کی فیسیں‘‘،رکشے والا کہتے کہتے رو پڑتا ااْس کی آواز میں لرزا تھا۔ عثمان نے سنا تو اْس کو بہت افسوس ہوا کہ لوگ کتنے ظالم ہے دوسروں کی مجبوریوں کو نہیں سمجھتے۔

’’چلیں آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا ‘‘،عثمان نے کہا اور وہ اِس وقت شاید اِس سے زیادہ کچھ کہ بھی نہیں سکتا تھا۔ رکشے والا بار بار رومال سے اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کرتا اْس کا چہرہ دنیا کی ظلم کی نمائندگی کر رہا تھا۔ عثمان کو اندر ہی اندر رکشے والے پر بہت رحم آ رہا تھا وہ اْس کی مدد کرنا چاہتا تھا اْس نے دل میں سوچا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اِس کا کرایہ بھر دیتا مگر۔ اْس نے نیت کی کہ وہ سفر ختم ہونے کے بعد اْس کی ضرور مدد کرے گا۔ رکشے والا عثمان کو اْس بلڈنگ کے باہر لے آیا جہاں عثمان کا اِنٹرویو تھا عثمان رکشے سے اْترا اور جیب میں ہاتھ ڈالا کچھ دیر جیب میں ہاتھ گھومانے کے بعد اْس کی جیب میں سے ہزار روپے نکلے تھے اور اْس کے پاس صرف یہ اکلوتا نوٹ تھا جو اْسے کل اپنی امی سے ملے تھے اْس نے سوچے سمجھے بغیر ہزار روپے رکشے والے کو پکڑا دیے رکشے والے نے ہزار روپے پکڑے اور عثمان کا شکریہ ادا کیا اور آنکھوں کو ملنے لگ گیا۔

’’بھائی یہ رکھو اور دعاوں میں یاد رکھنا‘‘، عثمان کہ کر تیز قدموں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ رکشے والا عثمان کو اندر جاتا دیکھ رہا تھا وہ ابھی بھی وہی کھڑا تھا اْس نے عثمان کے جانے کے بعد ہزار کا نوٹ نکالا اور اْس کا پورا معائنہ کیا اور بولا،’’واہ صبح صبح ہی بہت اچھی دیہاڑی لگ گئی ،چل ایک کپ چائے پیتے ہیں‘‘،رکشے والے نے رکشہ ایک طرف کھڑا کیا اور چائے والی دکان پر جا کر بیٹھ گیا۔’’ خان صاحب ایک کپ چائے لاؤ‘‘، رکشے والا کہ کر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد چائے پیش کی گئی اور وہ چائے کے مزے لینے لگا۔ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اْس نے آج صبح ہی ایک لڑکے کو بیوقوف بنا کر اپنی دیہاڑی پوری کی ہے اب وہ پورا دن آرام سے کام کر سکتا ہے اور اگر نہ بھی کرئے تو کوئی بات نہیں کیونکہ جو پیسے اْس نے تین چار سواریوں سے کمانے تھے وہ ایک لڑکے نے ہی دے دیے ۔ابھی وہ اِن خیالوں میں مگن گرم گرم چائے کے مزے لوٹ رہا تھا کہ اچانک ایک ٹھاہ کر کے زور دار آواز آئی، چائے کا گرم گھونٹ اْس کی زبان کو لگا اور اْس کی زبان سڑ گئی۔

رکشے والے نے جب دیکھا تو ایک تیز رفتار گاڑی رکشے میں آ کر زور سے لگی۔ ڈرائیور کم عمر تھا اِس لیے ڈر کر موقع واردات سے بھاگ گیا۔رکشے والے کا رکشہ جو کچھ دیر پہلے چمک رہا تھا اب وہ کباڑ کی شکل اِختیار کر گیا تھا۔ رکشے کی باڈی کی حالت اب بہت بری ہو گئی تھی۔ رکشے کا ایک پہیہ ایک طرف کو گرا ہوا تھا۔ رکشے والے نے دیکھا تو چیختا ہوا بھاگا،’’ ہائے میرا رکشہ میں لٹ گیا برباد ہو گیا‘‘۔ اْس نے رکشے کا ٹائر اْٹھایا اور رکشے کی طرف بھاگا اور رکشے کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ وہ رکشے کو دیکھ کر رو رہا تھا حتی کہ اْس کو ہچکی لگ گئی ۔کافی لوگ اْس کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ تماشائی بن گے اور کچھ تسلی دینے لگ گئے۔ تب اْس نے آنکھوں کے آنسو صاف کیے تو کچھ دیر پہلے کے لمحات اْس کے سامنے آئے ۔صبح کی گئی حرکت جو کہ اْس کے باعثِ فخر تھی اب باعثِ شرمندگی بن گئی تھی اور اْس کو اندازہ ہوا کہ دھوکے کی قیمت کیا ہوتی ہے چاہے وہ کسی انسان کے ساتھ ہو یا اپنی روزی کے ساتھ۔
عثمان بلڈنگ سے باہر نکلا اْس نے ہاتھ کی مٹھی بنائی اور ہاتھ کو ہوا میں لہرا کر زور سے کہا ’’یس‘‘اْس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اْس نے باہر نکلتے ہی اپنی جیب سے موبائل نکالا اور نمبر ڈائل کیا اور کانوں کو لگا لیا۔ وہ اِس خوشخبری کو کسی کے ساتھبانٹناچاہتا تھا’’ ہیلو امی! مجھے نوکری مل گئی ہے‘‘۔عثمان نے موبائل جیب میں ڈالا اور ایک رکشے والے کو آواز دینے لگا پھر اْس کو یاد آیا کہ میری جیب تو خالی ہے مگر جیب خالی ہونے کے باوجود اْس کے چہرئے کی مسکراہٹ پر کمی نہیں آئی تھی اْس نے راستے کی فکر کیے بغیر پیدل سفر کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ آج اْس کی خوشی انتہا پر تھی اور جب دل مطمئن اور نیت صاف ہو تو انسان اپنے ارادوں میں مضبوط ہو جاتا ہے۔

Bilal Shaikh
About the Author: Bilal Shaikh Read More Articles by Bilal Shaikh: 15 Articles with 10892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.