پاکستانی معاشرے میں عورت ہمیشہ سے نقصان میں رہی ہے
سماجی رسم و رواج سے متاثرہ معاشی استحصال میں جکڑی ہوئی اپنے حقوق سے
محروم تعلیم سے دور اور گھریلو تشدد کا شکار عورت ان تمام مسائل کو جھیلتی
ہے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں عورتوں کی انجمن حکومتی ادارے اب ان
مسائل پر آواز اٹھا رہے ہیں خود دار خواتین میں اپنی حقوق کے متعلق بیدار
ہو رہا ہے بلدیاتی اداروں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کا منتخب ہو کر آنا
اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نشستوں میں واضح اضافہ ہونا
عورتوں کے مسائل کے حل کی طرف ایک احسن اقدام ہے .
ان تمام معاملات میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عورتوں میں ان کے حقوق کی
بازیابی کے لیے ان کے مقام کی بلندی کے لئے اور اپنے مسائل کے متعلق آگاہ
کرنے کے لیے جتنے پروگرام یا پروجیکٹ ترتیب دیے جاتے ہیں جتنی موہمیں چلائی
جاتی ہیں ان میں عورت کو ہی مخاطب کیا جاتا ہے اس سے انفرادی اور اجتماعی
طور پر بات کی جاتی ہے ان کو اپنے مسائل کی خاطر حوصلہ ہمت شعوراور احساس
دلایا جاتا ہے.
مگر ہمارے معاشرے میں اب بھی عورت کی باگ دوڑ مرد کے ہاتھ میں ہے کہیں شوہر
کی شکل میں کہیں باپ کی شکل میں ایک ہی خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے عورت اب
بھی اپنے فیصلے میں آزاد نہیں ہے لہذا ضرورت ہے کہ ترقی کے لیے عورت کو با
اختیار کیا جائے حقوق کی بحالی کی جائے اور تشدد کے خاتمے کی خاطر مردوں کو
مخاطب کیا جائے مردوں کو اس معاملے میں حساس بنایا جائے عورتوں کے مسائل سے
عورتوں کو آگاہ کرنے کے بجائے مردوں کو بتایا جائے کہ خواتین کی مصیبتوں کو
جھیل رہی ہیں اور ان کو با اختیار کرنے میں مردوں کا کسی قدر اہم کردار ہے
عورتوں کی ترقی و خوشحالی اور تشدد کے خاتمے کی کنجی اب بھی مردوں کے
ہاتھوں میں ہے. |