پیٹرول بم،نا انصافی ۔مسائل اور ان کا حل

اخبار ی اطلاعات کے مطابق حکومت نے عوام پر ایک بار پھر پیٹرول بم پھینکنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور شنید ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس تا پندرہ فیصد تک اضافے کا امکان ہے جس کے بعد پیٹرول کی قیمت میں کم از کم سات روپے تک کا اضافہ ممکن ہے۔ ایک طرف تو حکومت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ہے دوسری جانب سرمایہ دارانہ سوچ کے حامل پیٹرول پمپ مالکان نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی پیٹرول پمپس بند کردئے ہیں۔ اس طرح پیٹرول پمپس بند کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پرانے ریٹ پر خریدے گئے پیٹرول پر ناجائز منافع کمایا جائے،اور اس ناجائز منافع کے چکر میں عوام کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔

آج بروز پیر 28فروری کو بھی صبح سے یہی صورتحال تھی جس کے بعد شہریوں نے احتجاج شروع کردیا اور مظاہرے شروع کردیئے ، گلستانِ جوہر میں ایک ایسے ہی مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے ایم ایم اے کے سابق ممبر اسمبلی یونس بارائی صاحب اور دیگر لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جس کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ کئی جگہ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہمارے مسائل خواہ وہ مہنگائی کا مسئلہ ہو،ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ ہو،لینڈ مافیا، ناجائز تجاوزات ہوں ،کرپشن کا مسئلہ،دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا پولیس گردی کا مسئلہ، فراڈ اور جعلی ڈگریوں کا مسئلہ ہو یا اور کوئی مسئلہ سب کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہی اور ہمارے نزدیک ان سب مسائل کی جڑ نا انصافی (Injustice) اور قانون کا احترام نہ کرنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مفہوم ہے کہ کفر پر مبنی معاشرہ تو چل سکتا ہے لیکن ناانصافی پر نہیں چل سکتا ہے۔اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انصافی کا زہر سرایت کرچکا ہے۔قانون کا احترام ایک مذاق بن چکا ہے ،اب قانون صرف غریبوں اور بے حیثیت لوگوں کے لئے رہ گیا ہے ۔ صاحبِ ثروت اور با اثر لوگوں کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔

حال یہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے اور شہر میں ناکے لگ جاتے ہیں لیکن ان ناکوں پر ،ان چیک پوسٹس پر روکا کس کو جاتا ہے؟ موٹر سائیکل والوں کو،رکشے اور ٹیکسی کے مسافروں کو روک روک کر ان کی سر عام تلاشی لیکر ان کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے ،جبکہ انہی چیک پوسٹس کے سامنے سے بڑی بڑی عالیشان کاریں،پجیرو،اور لینڈکروزر گزرتی رہتی ہیں لیکن کسی پولیس والے کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کو روک کر ان سے کوئی سوال کرسکے۔ایک متوسط طبقے کا فرد اگر بینک سے ہزاروں روپے کا قرض لے اور اس کی قسطوں کی ادائیگی بر وقت نہ کرسکے تو بینک کے بدمعاش اہلکار جس کو ریکوری آفیسر کا نام دیا جاتا ہے وہ اس غریب انسان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اسکو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ذلیل کیا جاتا ہے،اس کے گھر والوں کے سامنے اس کو بے عزت کیا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک واقعے میں چند سال قبل ایک نوجوان نے خودکشی بھی کرلی تھی۔ لیکن یہی بینک کروڑ پتی لوگوں کو مزید کروڑوں روپے کے قرضے دیتے ہیں اور پھر وہ قرضے معاف بھی کردئے جاتے ہیں۔

اگر ایک فرد مجبوری کے باعث مسجد سے جوتا چرا لے تو وہ چور کہلاتا ہے۔ ساری سوسائٹی کے لوگ اس کو مل کر مارتے ہیں۔اس کے بعد اس کو حوالہ پولیس کیا جاتا ہے جہاں اس کی اچھی طرح دھنائی کی جاتی ہے لیکن ناجائز منافع خوری ،کرپشن اور فراڈ کے ذریعے ایک فرد لوگوں کے لاکھوں روپے ہڑپ کرجاتا ہے ،اور اس کو بزنس مین،سیاستدان، یا سرکاری افسر کہا جاتا ہے اور قانون کے لمبے ہاتھ اس کی گردن تک نہیں پہنچ سکتے۔

جب تک ہمارے معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک معاشرے میں بد امنی،انتشار،اور افراتفری رہے گی اس وقت تک ہم لوگ پریشان رہیں گے۔ لیکن جب معاشرے میں انصاف مہیا کیا جائے گا،جس فرد نے بھی ذرا سی بھی بے ایمانی،کرپشن،یا قانون شکنی کی ہوگی اس کو سزا دی جائے گی، قانون امیر غریب سب کے لئے برابر ہوگا تب ہی معاشرے کو سکون نصیب ہوگا۔اور یہ انصاف کسی سیکولر ازم میں نہیں ہے،کسی سوشل ازم میں نہیں ہے،کسی کمیونزم میں نہیں ہے ۔ انصاف اگر ہے تو وہ صرف اور صرف نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں ہے۔ اس ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرلیں انشاء اللہ تمام مشکلات کا حل اس میں ہی ملے گا۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520360 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More