چند دن پہلے کی بات ہے۔ ایک قومی اخبار میں ایک خبر شائع
ہوئی ہے۔راقم الحروف کو یقین ہے کہ اس خبر کو معاشرے کے تمام نمائندہ طبقات
نے آئے روز کا معمول سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہوگا۔ وہ خبر جس کے بارے میں
تھی اور اس کا تعلق معاشرے کے جس طبقہ سے ہے اس کے بارے میں معاشرے میں کیا
رائے پائی جاتی ہے اوراس کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے ۔اس کو دہرانے کی ضرورت
نہیں۔ سب اس بارے میں بخوبی جانتے ہیں۔ یہی خبر معاشرے کے کسی اور طبقہ سے
تعلق رکھنے والے کسی معمولی سے معمولی فرد کے بارے میں بھی ہوتی تو سب کو
اس کا افسوس ہوتا۔ جلوس نکالے جاتے، سڑکیں بلاک ہوتیں، ہڑتالیں کی جاتیں،
ہر طرح سے احتجاج کیا جاتا، معاشرے کے نمائندہ طبقات کے نمائندہ افراد کے
افسوس اور ہمدردی والے بیانات میڈیا پر چھائے رہتے۔ نیوز چینلز پر اس بارے
پروگرام ہوتے، اینکر حضرات اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اپنے مہمانوں
سے سوالات کرتے، کہ ایسا کیوں ہوا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے، اس کا ذمہ دار
کون ہے، ایسا کب تک ہوتا رہے گا، اس کے حقوق کے بارے باتیں کی جاتیں، جب سے
یہ خبر شائع ہوئی ہے اس کے بعد کسی بھی اخبار میں اس بارے ایک بیان بھی
پڑھنے کو نہیں ملا۔ آپ بے چین ہو رہے ہیں کہ خبر ہے کیا۔ ہم آپ کو اور بے
چین نہیں کرنا چاہتے۔ رحیم یار خان سے شائع ہونے والی خبر کچھ یوں ہے کہ
خان بیلہ کا رہائشی ایاز احمد جو کہ ٹبہ بابا غریب شاہ واقع غوثیہ مسجد میں
بطور امام ملازم تھا۔اس کو کئی ماہ سے غوثیہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے
تنخواہ ادا نہ کی تھی۔جس پر امام مسجد اور انتظامیہ کمیٹی میں توتکار بھی
ہوچکی تھی۔امام مسجد ایاز احمد نے دل برداشتہ ہو کر چھری سے اپنی شہ رگ کاٹ
کر خودکشی کی کوشش کی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا ۔ جسے فوری طور پر ریسکیو
کی مدد سے شیخ زید ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ جہاں اسے طبی امداد فراہم کی
جارہی ہے جبکہ پولیس نے اقدام خودکشی کرنے پر امام مسجد کے خلاف مقدمہ درج
کر کے کارروائی شروع کردی ہے۔ اس خبر کی تفصیل پڑھنے کے بعد آپ کسی حد تک
اس بات سے متفق ہوگئے ہیں کہ خبر سے پہلے تمہید کے طور پر جو کچھ لکھا ہے
وہ درست لکھا ہے۔یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی امام مسجد نے خودکشی
کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خودکشی حرام ہے۔جرم ہے۔ناجائز
ہے۔اس وقت معاشرے میں خودکشیوں کا تناسب بڑھ چکا ہے۔ انسان جب مجبور ہوجاتا
ہے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا تو یا وہ کسی کی جان لے لیتا ہے اور یا
خودکشی کرلیتا ہے۔اب امام مسجد بھی خودکشی کرنے پر مجبورہونے لگے ہیں۔ٹبہ
باباغریب شاہ میں غوثیہ مسجدکے امام کومسجدکی انتظامیہ کمیٹی نے کئی ماہ سے
تنخواہ ادانہ کی۔ یہ الم ناک داستان صرف اس امام مسجدکی ہی نہیں بلکہ ملک
کے اکثرآئمۃ المساجدکی یہی یااس سے ملتی جلتی داستان ہے۔
یمن کابادشاہ ہاتھیوں کالشکرلے کرکعبہ پرحملہ آورہونے کے لیے آیا۔اس نے مکہ
والوں کے مویشی پکڑلیے۔اس میں کعبہ کے متولی حضرت عبدالمطلب کے اونٹ بھی
تھے۔ حضرت عبدالمطلب یمن کے بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اس نے آنے
کامقصدپوچھا توحضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ تیرے سپاہی میرے اونٹ لے آئے
ہیں وہ واپس کردو۔ یمن کابادشاہ کہنے لگا ۔بڑے عجیب آدمی ہوتم۔ میں کعبہ
پرحملہ کرنے آیاہوں اورتم ہوکہ تمہیں کعبہ کی نہیں اپنے اونٹوں کی فکرہے۔
حضرت عبدالمطلب نے فرمایا اونٹ میرے ہیں اس لیے مجھے اونٹوں کی فکرہے ۔کعبہ
جانے اورکعبہ والاجانے۔ مطلب یہ کہ کعبہ جس کاہے وہی خوداپنے گھرکی حفاظت
کرے گا۔ لگتاہے ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کواتناہی یقین ہے جتنا نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے داداکوتھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب کویہ یقین
کعبہ کے بارے میں تھا اورہمارے معاشرے میں لوگوں کویہ یقین محلہ کی
مسجداورامام مسجدکے بارے میں ہے۔ کعبہ بھی اللہ کاگھرہے اورمسجدبھی اللہ کا
گھر۔حضرت عبدالمطلب نے فرمایاتھا کہ کعبہ جانے اورکعبہ والاجانے۔ آسان
لفظوں میں اللہ تعالیٰ جانے اوراس کاگھرجانے۔ موجودہ دورمیں بھی لوگ سمجھتے
ہیں کہ مسجدجانے امام مسجدجانے اوراللہ تعالیٰ جانے۔حضرت عبدالمطلب نے کہا
تھا کہ اللہ تعالیٰ خوداپنے گھرکی حفاظت کرے گا۔ موجودہ دورمیں بھی لوگ
کہتے ہیں کہ اللہ خوداپنے گھرکاانتظام کرے گا۔اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ
مسجداورامام مسجدکی ضروریات کاخیال رکھناان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ حضرت
عبدالمطلب اورموجودہ دورکے لوگوں کے یقین میں زمین وآسمان کے فرق سے بھی
کہیں زیادہ فرق ہے۔ حضرت عبدالمطلب کایقین پختہ اورسچاتھا ۔موجودہ دورکے
لوگوں کا یقین اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے اورخودغرضی پرمبنی ہے۔آئمۃ
المساجدکے ساتھ اس وقت جوسلوک روارکھاجارہاہے ۔ اسے دیکھ کراورسن کرکبھی
کبھی یہ خیال آتاہے کہ مساجدکی امامت اب انسانوں کونہیں بلکہ فرشتوں کاجنوں
کوکرنی چاہیے۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی آتاہے کہ لوگ امام مسجدکوانسان نہیں
فرشتہ یاجن سمجھتے ہیں۔ مجھے اپنی اس سوچ کی درستگی کرناپڑے گی ۔لوگ امام
مسجدکوفرشتہ سمجھتے تواس کے بارے میں منفی بات نہ کرتے۔ اس کے کرداربارے
منفی باتیں نہ کرتے۔لوگ امام مسجدکوفرشتہ نہیں جن سمجھتے ہیں۔ جس کی
انسانوں کی طرح ضروریات نہیں ہوتیں۔ جس کی انسانوں جیسی رشتہ داریاں
اورتعلق داریاں نہیں ہوتیں ۔جس کومکان کاکرایہ ادانہیں کرناپڑتا۔ جس کوبچوں
کی فیس ، ٹیوشن فیس، دودھ کے پیسے نہیں دینے پڑتے۔جس کوکسی کی شادی یاغمی
میں بھی نہیں جاناپڑتا۔ جس کوسفرکرنے کے لیے کرائے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
جس کوتنخواہ اوررہائش کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ امام مسجدکوانسان سمجھاجاتا
تواس کی ضروریات کابھی خیال رکھاجاتا۔ اس کی عزت نفس پرحملے نہ کیے جاتے۔
امام مسجدکوانسان ہی سمجھ لیاجاتا توخان بیلہ میں ٹبہ باباغریب شاہ میں
غوثیہ مسجدکاامام خودکشی کرنے پر مجبور نہ ہوتا۔ راقم الحروف اپنے شہرکے
ایک مدرسہ میں گیا۔ قاری صاحب سے آئمۃ المساجدکے مسائل پربات ہورہی تھی
توقاری صاحب نے بتایا کہ ان کاایک شاگرد شہرکی ایک مسجدمیں امامت کے فرائض
اداکرتاتھا۔ ایک دن اسے چندنمازیوں نے کہا کہ انہوں نے سیرکرنے جاناہوتاہے
اس لیے نمازفجرکے بعد مختصر دعا مانگا کرو۔ ہمارے شاگردنے دوسرے دن
دعامختصرمانگی تودوسرے نمازیوں نے کہا حافظ صاحب خیریت توہے آج اتنی
مختصردعامانگی ہے۔میرے ہی شہرمیں ایک مسجدمیں امام مسجدنمازیوں کے
انتظارمیں اپنے مصلے پربیٹھاتھا۔ نمازباجماعت کاوقت گزرچکاتھا جب کہ
نمازاداکرنے کاوقت ابھی باقی تھا۔ مسجدمیں ایک بھی نمازی نہیں تھا۔ ایک
نمازی آیا اورآتے ہی اس نے امام مسجدسے تفتیش شروع کردی کہ اتنی دیرہوگئی
ہے ابھی تک نمازنہیں پڑھائی۔ حالانکہ اس نے دیکھ لیاتھا کہ مسجدمیں کوئی
نمازی نہیں ہے۔ وہ امام مسجدکیافرشتوں یاجنوں کونمازپڑھاتا۔راقم الحروف نے
امام مسجدکے اقدام خودکشی کرنے پرعوام کے تاثرات جاننے کی کوشش کی توایک
شخص نے کہا کہ امام مسجدکوتنخواہ نہیں مل رہی تھی تواسے چاہیے تھا کہ وہ
مسجدچھوڑدیتا اورکوئی اورمسجد تلاش کرتا۔ کوئی اورکام کرلیتا ۔ مزدوری
کرلیتا۔ کسی دکان میں سیلزمین کی نوکری کرلیتا۔اس نے یہ بھی کہا کہ میرانام
بھی لکھ دینا کہ میں نے یہ سب کہا ہے۔
علامہ پروفیسراحمدرضااعظمی سے امام مسجدکے اقدام خودکشی پربات چیت کرتے
ہوئے راقم الحروف نے انہیں اس شخص کے تاثرات بارے بتایا
توپروفیسراحمدرضااعظمی نے کہا کہ امام مسجدجاتاتوکہاں جاتا۔ کیااسے تلاش
کرنے سے وہ مسجدمل جاتی جہاں اسے ان مسائل کاسامنانہ کرناپڑتا جن مسائل
کاسامنااسے اس مسجدمیں ہے۔ امام مسجداپنی فریادلے کرکہاں جاتا۔ کون سا
ایسافورم ہے جہاں امام مسجدکی فریادسنی جائے اوراسے انصاف مل سکے۔یہ ہمارے
معاشرے کاالمیہ ہے۔ اگرکوئی امام مسجدیامحنت مزدوری کرنے والایہ شکایت کرے
کہ اس تنخواہ سے اس کاگزارانہیں ہوتا۔ تواسے کہا جاتا ہے کہ اس تنخواہ سے
گزارانہیں ہوتا توچھوڑدوکوئی اورکام کرلو۔ مسجدکی انتظامیہ یا جہاں وہ
مزدورکام کرتاہے ان کوکوئی نہیں کہتا کہ آخریہ بھی توانسان ہے اس کی بھی
ضروریات ہیں ۔ اس کی تنخواہ بڑھادو۔ سرکاری ملازمین جوتنخواہیں بھی وصول
کرتے ہیں، طرح طرح کے الاؤنسز بھی ان کوملتے ہیں۔ وہ بھی سڑکوں پرنکل آتے
ہیں کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ ٹرانسپورٹر پہیہ جام کردیتے ہیں کہ
کرائے بڑھائے جائیں ۔ ممبران اسمبلی بھی جب چاہیں اپنی تنخواہیں اورمراعات
بڑھادیتے ہیں۔ ان کوتوکوئی نہیں کہتا کہ اگرتمہاراگزارااس تنخواہ پرنہیں
ہوتا توچھوڑدوکوئی اورکام کرلو۔ اس وقت آئمۃ المساجدکی تنخواہیں بہت کم ہیں۔
کئی مساجدمیں امام مسجدکی تنخواہیں اتنی بھی نہیں کہ وہ کسی چھپرہوٹل سے
دووقت کاکھاناکھاسکیں۔ کئی مساجدکے امام اسی وجہ سے امامت چھوڑ چکے ہیں۔
سروے کراکے دیکھ لیں کئی مساجدایسی ہیں جہاں امام مسجدکوچندہزارروپے تنخواہ
تودی جاتی ہے مگرنہ توخوراک کاانتظام ہوتا ہے اورنہ رہائش کا۔کئی مساجدایسی
ہیں جہاں رہائش کاانتظام توہے مگرنہ خوراک کاانتظام ہے اورنہ ہی تنخواہ دی
جاتی ہے۔جس شخص نے یہ کہا کہ امام مسجدکوکوئی اورکام کرلیناچاہیے تھا۔ اس
کاایک جواب یہ بھی ہے کہ راقم الحروف خودایک مسجدمیں امام ہے۔ اس نے شہرکی
کئی مساجدمیں امامت کے فرائض اداکئے ہیں۔ راقم الحروف نے کئی بارکوشش کی کہ
وہ اپنے ذاتی اخراجات اپنی محنت سے پورے کرے۔ اسی مقصدکے لیے اس نے کئی جگہ
کام کرنے کی کوشش کی۔ کام شروع کرنے سے پہلے راقم الحروف صاف اورشفاف الفاظ
میں بتادیتاتھا کہ اس نے امامت کے فرائض بھی اداکرنے ہیں۔ اس لیے نمازکے
اوقات میں وہ ڈیوٹی نہیں کرسکے گا۔ تواسے کہاجاتا کوئی بات نہیں آپ نمازکے
وقت چلے جایاکریں۔ یقین کریں ایک یادومہینے بعدہی کام کرانے والوں
کاصبرجواب دے جاتا اوروہ امام مسجد کو کہہ دیتے کہ دوکشتیوں پرسواری نہ کرو۔
مطلب اس کایہ ہوتا کہ یامسجدچھوڑدویاہمیں۔راقم الحروف جس مسجدمیں اس وقت
امامت کے فرائض اداکررہاہے ۔ اس مسجدسے اس کوتنخواہ نہیں ملتی۔ مسجدکے بجلی
کابل اوردیگرمتفرق اخراجات بھی وہی اداکرتاہے۔ اس کی اوربھی کوئی مستقل
آمدنی نہیں ہے۔اس کے مزاج کے مطابق کوئی کام مل جائے توکرلیتاہے ۔ اس کے
دوست اس کی مددکردیتے ہیں۔اس کی خوراک کے اخراجات اس کے بھائی برداشت کرتے
ہیں ۔رہائش مسجدکی طرف سے ملی ہوئی ہے۔خبرکے مطابق امام مسجدکے خلاف اقدام
خودکشی کامقدمہ بھی درج کرلیاگیا ہے۔ یہ مقدمہ امام مسجدکے خلاف نہیں جس
مسجدمیں اسے کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اس مسجدکی انتظامیہ کے خلاف اقدام
قتل کامقدمہ درج کرناچاہیے۔ ایک راہ گیرکوپیاس لگی۔ اس نے کئی لوگوں سے
پانی مانگا مگراسے کسی نے بھی پانی نہیں دیا۔ وہ راہ گیرپیاس کی شدت برداشت
نہ کرسکا اورجاں بحق ہوگیا۔ خلیفہ وقت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کومعلوم
ہواتوآپ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے خون بہاوصول کیاجن لوگوں سے اس راہ
گیرنے پانی مانگاتھا۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکو خان بیلہ میں ٹبہ باباغریب شاہ کی غوثیہ
مسجدکے امام ایاز احمدکے اقدام خودکشی کانوٹس لیناچاہیے اورایک تحقیقاتی
کمیٹی قائم کرکے اس امام مسجدکوتنخواہ نہ دیے جانے کی تحقیقات کراکے ذمہ
داروں کے خلاف ایسی کارروائی کرنی چاہیے کہ آئندہ کوئی بھی کسی بھی امام
مسجدکی تنخواہ اداکرنے میں دیرکرنے کاسوچ بھی نہ سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب
کومساجدکاسروے بھی کراناچاہیے کہ مساجد اورآئمۃ المساجدکے مسائل کیا ہیں
پھران مسائل کوحل کرنے کے اقدامات بھی کرنے چاہییں۔ ہمارے معاشرے میں امام
مسجدکوکیاحیثیت حاصل ہے اس کی یاددہانی کے لیے یہ تحریرپڑھیے اورسوچیے ۔
ضرورت برائے باورچی ،تنخواہ بیس ہزار، فیملی رہائش فری، میڈیکل فری،
کھانافری، فارغ وقت میں کوئی بھی کام کر سکتاہے۔ضرورت برائے چوکیدارتنخواہ
اٹھارہ ہزار،ڈیوٹی صرف چارگھنٹے، فارغ وقت میں کوئی بھی بزنس کرنے کامجازہے،
اوورٹائم لگانے پراضافی پیسے بھی ملیں گے، ضرورت برائے امام مسجد، ضروری
کوائف، درس نظامی مکمل کورس، قرآن قاری عبدالباسط کی طرزپرپڑھتاہو، داڑھی
لمبی ہو، لباس سادہ ہو، روٹی کم کھاتا ہو ، کھاناصرف دووقت، نیک ،متقی ،پرہیزگارہو،اللہ
پرتوکل کرتاہو،یعنی ختم وغیرہ اورنکاح کے پیسے نہ لے،وقت کاپابندہو،چوبیس
گھنٹے مسجدمیں معلوم ہو، جنازے بھی پڑھائے، بچے کے کان میں اذان بھی
دے،دووقت بچوں کوقرآن پڑھائے، کوئی بیمارہوتواس کی تیمارداری کرے،کسی
اورجگہ کوئی کاروبارنہ کرے اورٹیوشن بھی نہ پڑھائے،مسجدکی صفائی کاخاص خیال
رکھے،پاجامے کے پائینچے ٹخنوں سے اوپررکھے،سرپرعمامہ باندھے رکھے، کسی بچے
کوسزانہ دے، ہرنمازکے مقررہ وقت کاپابندہو، لوگوں کی گھٹیاباتیں بھی
سنے،نئے آنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کومسجدمیں آنے کاعادی بنانے کے لیے اپنے
خرچ پرٹافیاں بھی دے،جمعہ میں ولولہ انگیزشاندارخطاب کرے،اپنی جائزضروریات
کے لیے بھی ٹرسٹیان محترم سے اجازت ضرورلے، تمام اہلیان محلہ کی سنے
مگرانہیں کوئی بات نہ سنائے،کسی کی بات کاکوئی جواب نہ دے،سب کوخوش
رکھے،اپناساراکام خودکرتاہو،ساراالزام بھی سہتاہو،ایک بلاوے پررات کی
نیندچھوڑ کرآجاتاہو،ضرورت کے وقت بھی چھٹی نہ لیتاہو۔ پرکشش تنخواہ چھ
ہزارروپے۔ علامہ نعمان مصطفائی لکھتے ہیں کہ ایک مسجدکی کمیٹی نے مفتی صاحب
سے امام مسجدکی فرمائش کی تومفتی صاحب نے پوچھا پہلے امام صاحب کہاں ہیں ،مسجدکمیٹی۔
انہیں فارغ کردیاہے، مفتی صاحب،کیوں، مسجدکمیٹی ، ٹائم نہیں دیتے تھے، مفتی
صاحب،کیامطلب۔ مسجدکمیٹی، جی وہ نمازکے لیے ٹائم پرنہیں آتے تھے،اورچھٹیاں
بھی بہت کرتے تھے۔مفتی صاحب، ٹائم پرکیوں نہیں آتے تھے۔ مسجدکمیٹی، جی وہ
ادھرادھرٹیوشن پڑھانے نکل جاتے تھے،روزکسی نہ کسی نمازکی چھٹی کرلیتے
تھے۔مفتی صاحب، وظیفہ کیادیتے ہیں۔مسجدکمیٹی ،جی ان کوآٹھ ہزارروپے دیتے
تھے آپ کے امام صاحب کودس ہزارروپے دیں گے۔مفتی صاحب ،امام صاحب فیملی کے
ساتھ رہتے تھے۔مسجدکمیٹی،ہمارے پاس فیملی رہائش کی سہولت نہیں ہے، اب کوشش
کررہے ہیں۔یہ کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے کی بات ہے۔ راقم الحروف ایک مسجدمیں
امامت کے فرائض اداکرتاتھا۔ اس مسجدکے نمازی سالانہ محفل میلادکراتے ہیں۔
اس وقت وہ محفل میلادپرکم سے کم تین لاکھ روپے خرچ کرتے تھے اورامام
مسجدکوبارہ سوروپے ماہانہ دیتے تھے۔ ایک امام مسجدپانچ سے چھ افرادکی ڈیوٹی
کرتاہے اوراس کوتنخواہ ایک کام کی بھی نہیں ملتی۔ معاشرے میں امام مسجدکواس
کاجائزحق اوراحترام دیناچاہیے۔ اس کی رہائش اورخوراک کاانتظام کرناچاہیے۔
اس کی تنخواہ ایک کلرک کے برابرنہیں تووفاقی اداروں میں نائب قاصدکے
برابرتوہونی چاہیے۔مساجدکے ساتھ امام مسجدکے لیے فیملی رہائش کاانتظام
ضروری قراردیاجائے۔ معاشرے میں ایسے افرادبھی ہیں جوآئمۃ المساجدکی ضروریات
کاخیال رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ایسے افرادہزاروں میں چندایک
ہی ہیں۔تنظیم آئمۃ المساجد جماعت اہل سنت کے صدرقاری محمدبنیامین چشتی ،جنرل
سیکرٹری مولانامظفرحسین باروی، علماء کرام علامہ عابدرضااعظمی، علامہ
سعیداحمدباروی، حافظ بشیراحمد، حافظ اعجازاحمد، حافظ محمدربانی، علامہ
ممتازاحمدباروی، حافظ احمدحسن سمیت کثیرتعدادمیں علماء کرام ،حفاظ عظام نے
ٹبہ باباغریب شاہ رحیم یارخان میں امام مسجدکے اقدام خودکشی پرگہرے افسوس
کااظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ امام مسجدکوکئی ماہ کی تنخواہ نہ دیناظلم
ہے۔علماء کرام نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیاہے کہ واقعہ کی تحقیقات کرکے
امام مسجدکوخودکشی پرمجبورکرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ |