تیرہ سالہ آمنہ کی رخصتی

اسے پڑھا لکھا کر اتنا قابل بنادیں گے کہ کسی کی یہ محتاج ہی نہ رہی گی اس طرح ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کی ملازمت اختیار کرے گی -

اگر آپ کراچی میں بستے ہیں اور آپ کی بچی روز صبح پڑھنے جاتی ہیں تو بچی کو گھر سے لے کر سکول جانے تک کتنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑں یہ ہم کو معلوم نہیں.!

ایسی ہی ایک عام اور غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی جو کہ خوبصورت اور دماغ سے ذہین گھر سے کمزور , امیدوں کا سمندر , لباس سے بے چاری , خیالات اور زبان پر آسمان کے ستارے اور سکول بیگ میں دوسروں کی استعمال شدہ پُرانے کتابیں , اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ آمنہ کو زندگی میں آگے بڑھنے کی فکر مندی اور احساس ایک دن اسکو آسمان تک پہنچائے گی لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا.

روزانہ معمول کے مطابق آمنہ اس دن بھی سکول کی طرف گھر سے اکیلی نکلی , نہ مزدور باپ کے پاس وقت تھا نہ دوسروں کے گھر پر کام کرنے والی ماں کے پاس کہ اپنی بیٹی آمنہ کو سکول تک چھوڑ آتے ,

آمنہ کے گھر سے تھوڑی ہی دُور میں راستے پر ایک ایسی جگہ سے آمنہ کا گزر ہوتا تھا جو کہ محلے کے سب کے سب گندے اور علا بداخلاق و بدتمیز قِسم کےلوگوں کا ٹھکانہ تھا اور راستے پر ہر آنے جانے والوں خاص طور پر عورت پر بے حیا نظریں ٹکے رہتی تھی ایسی پیاسی آنکھوں سے دیکھتے تھے جیسے کہ ان سب کے گھر میں ماں بہن نہیں ہوں.

آمنہ جب راستے کے اس جگہ سے گزرتی تو اس جگہ پر کھڑے لڑکے ایسے گندے اور بُرے الفاظوں سے منُتخب کرتے جو کہ کوئی بھائی اپنی بہن کے لیے اور کوئی باپ اپنی بیٹی کیلئے ہرگز سُننا پسند نہیں کرتا , لیکن آمنہ بے چاری سُن کر آنکھیں نیچے کر کے چلی جاتی, وہ کرتی بھی تو کیا کرتی کیوں کہ یہ صرف آمنہ کا مسئلہ نہیں تھا یہ شہر کے ہر محلے, گلی, کوچے میں ہر لڑکی کا مسئلہ تھا جب آمنہ سکول میں نویں کلاس کے امتحان فزکس کا پیپر دے کر آرہی تھی گلی کے کُونے میں چُھپا ہوا کامران نے آمنہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ساتھ بہت بُری حرکت کرنے لگا آمنہ چیخی اور شور مچانا شروع کرا لیکن بد قسمت آمنہ کی وہاں پر آواز سُننے والا کوئی نہیں تھا پھر وہ حد پار ہوگئی جو کہ ایک شریف اور باعزت دار خاندان کیلئے گالی باعث بننے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا , اگر آمنہ کو گھر میں ماں , باپ یہ پوچھتے کہ بیٹی جب تم سکول جاتی ہو راستے میں کوئی تنگ اور پریشان تو نہیں کرتا , یا جب تم سکول جاتی ہو تو تمھیں کیسے مشکلات اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے . ماں , باپ تو وہ ہستی ہیں جو بچوں کے بتائے بغیر ہی سب کچھ سمجھ جاتے ہیے لیکن آج کل کے لا پرواہ اور مصرف ماں باپ اُن کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کو وقت دے سکیں , نظر رکھ سکیں بچوں کی پریشانی اور مشکلات حل کر سکیں, یہی بات اگر آمنہ کے ساتھ گھر سے کوئی بھی ماں ,باپ یابھائی کوئی بھی جاتا تو ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی آمنہ پر لوگوں کی گندی نظریں اور نہ تشدُد کا شکار ہوتی بس خیر اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے.

گھر میں ماں انتظار کر رہی کہ رات ہونے کو آرہی ہیے لیکن آمنہ کا ابھی تک کچھ آتا پتہ نہیں آمنہ کے ابا کو بولا جا کر ڈھونڈو کہی ویسے عام دنوں میں تو خیر لیٹ آتی ہے لیکن ابھی تو امتحان چل رہے ہیں اور پیپر کی وجہ سے آمنہ کو تو سکول سے جلدی آجانا چاہیے تھا ساری رات ڈھونڈا لیکن آمنہ کہیں نہ ملی جیسے صبح ہونے کو آئی کہ دو بندوں نے دروازہ کھٹ کھٹایا تو آمنہ کا باپ جلدی جلدی دروازہ کی طرف دوڑا جیسے دروازہ کُھول کہ تو دونوں بندوں نے آمنہ کا لاش اُٹھایا ہوا تھا اور یہ کہنے لگے کہ آمنہ کے ابا آمنہ اس گھر سے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئی.
شعیب احمد سہیل
اُردو یونیورسٹی عبدالحق کمپس

Shoaib Ahmed
About the Author: Shoaib Ahmed Read More Articles by Shoaib Ahmed: 5 Articles with 3945 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.