جب سے تاریخ لکھی جا رہی ہے اور تاریخ کا قلمدان خاص کر
سیرت صحابہ کے حوالے سے متعصب مزاج صفت انسانوں کے ہتھے چڑھا ہے تب سے جتنی
بے انصافی اس عظیم المرتبت, صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے
برتی گئ ہے شاید ہی کسی اور سے کی گئ ہو .
فاتح عرب و عجم، کاتب وحی، برادر نسبتی پیغمبر، ہم زلف نبی، راز دار نبوت،
امام تدبر و سیاست، خال المومنین، امیر المومنین،سیدالرسل امام الانبیاء
خاتم المعصومین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت ممتاز و جلیل
القدر صحابی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آسمان نبوت کے وہ ستارے اور
چمنستان محمدی صلی الله علیہ وسلم کے وہ پھول ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ
اعتراضات اور کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں
اہل علم ؤ دانش لکھتے ہیں تمام انسانوں میں ابنیائے کرام علیہم الصلوٰة
والسلام کے بعد فضیلت ؤ اہمیت, درجہ بلندی میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم ہی ہیں. حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر چہ معصوم نہیں ، مگر ان
سے جو بھی گناہ ( کسی حکمت کے تحت صادر ) ہوئے، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف
فرما کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا تفریق اپنی رضا کا پروانہ
عطا فرما یا ہے ،
لہٰذا اہل علم ؤ دانش اور میرا ایمان ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
کا ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں میں کرنا چاہیے۔
اسلام دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی
حیثیت کو کم کیا جائے، تاکہ ان کے ذریعے سے ہم تک پہنچنے والے دین میں نقب
زنی آسان ہوجائے.
تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ
امام حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :
مقام صحابہ کا تقاضاہے کہ ایسی تمام روایتیں لکھنے والوں کے منہ پر مار دی
جائیں۔ ( البدایہ والنہایہ ابن کثیر )
امام نافع کی یہ بات آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے،اپنے شاگردوں سے فرمایا:
”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے درمیان پردہ
ہیں، جو یہ پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی
جرات کر سکے گا۔“(دفاع معاویہ )
فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (دیوبندی)فرماتے ہیں:
”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان عظیم المرتبت صحابہ رضی اللہ عنہم
میں ہوتا ہے، جنہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت سے منفرد حصہ
پایا۔“
شیخ حضرت سید نذیر حسین دہلوی(اہل حدیث)فرماتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کفر کی حالت میں بھی کبھی اسلام کے خلاف
تلوار نہیں اٹھائی ،قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی بے مثال
خدمت کی ۔“
مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:”جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر
طعن کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے
۔“(احکام شریعت )
یہی وجہ ہے کہ مسلمان مقام صحابہ کے خلاف کسی واقعے اور روایات کو تسلیم
نہیں کرتے ، بلکہ اس کے انکار کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ سے بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے
محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا درس ملتا ہے ۔
1۔ آپ اس سمندری جہاد میں بذات خود شامل تھے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر ج سمندر میں جہاد کرے
گا، ان ( مجاہدین) کےلیے ( جنت) واجب ہے۔ ( صحیح بخاری:2799۔2800، 2924)
2۔ آپ وحی لکھتے تھے یعنی کاتبین وحی میں سے ہیں۔ ( دلائل النبوۃ للبیہقی
جلد2 ص243)
3۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین ام حبیبہ
رضی اللہ عنہا کے بھائی یعنی خال المؤمنین ( مومنوں کے ماموں ) ہیں۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! انھیں ( معاویہ کو)
ہادی مہدی بنادے اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دے۔ ( سنن ترمذی:3844
وقال حسن غریب)
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! معاویہ کو کتاب وحکمت
سکھا اور انھیں عذاب سے بچا۔ ( مسند احمد جلد4ص 127 ح18152، صحیح ابن
حزیمہ:1938 وسندہ حسن)
6۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے ( خلفائے
راشدین کے بعد) معاویہ سے زیادہ، حکومت کےلیے مناسب کوئی نہیں دیکھا۔ (
تاریخ دمشق جلد62 ص121 وسندہ صحیح)
7۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: معاویہ نے صحیح کیا ہے، وہ
فقیہ ہیں۔ (صحیح بخاری:3765)
8۔ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے دعائے
مغفرت کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد جلد1 ص208۔209 وسندہ صحیح)
9۔ ایک شخص نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہا تو عمر بن عبدالعزیز
رحمہ اللہ نے اسے کوڑے لگوائے تھے۔ (تاریخ دمشق جلد62 ص145، وسندہ صحیح)
10۔ امام معافیٰ بن عمران الموصلی رحمہ اللہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
کی بڑی تعریف فرمائی۔ تفصیل کےلیے دیکھئے فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صحیح
احادیث کی روشنی میں ص125۔130 سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت
11.اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا اورہدایت یافتہ بنا دیجیے اوراس کے
ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجیے۔ (ترمذی)
12.اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے
بچا۔(کنزالعمال)
13.معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض
رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔(تطہیرالجنان)
14.اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے ، تو ان پر نور ایمان کی
چادر ہوگی۔(تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)
15.میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبار ہیں۔(بحوالہ :سیرت امیرمعاویہ )
تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ آپ رضی اللہ تعالی صلح
حدیبیہ کے بعد ہی اسلام قبول کرچکے تھے،تاہم اس کاباقاعدہ اعلان فتح مکہ کے
موقع پرکیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سابقہ حالات
زندگی اور ان کی صلاحیت وقابلیت سے آگاہ تھے، اس لیے خا ص قرب سے نوازا ۔
فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
علماء حق کے نزدیک قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ”کتابت وحی“ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم
اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ”کاتب وحی “تھے ،ان میں
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا.
اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور
امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالة الخفا ء ازشاہ ولی اللہ)
ایک اور اعلی مقام بھی نصیب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بنا اور
وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بعثت نبوی
صلی الله علیہ وسلم سے تقریباًپانچ برس قبل پیداہوئے۔آپ رضی اللہ تعالی کا
سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل
القدر صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر
ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ،
آپ رضی الله عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی
حاصل ہے۔
آپ رضی اللہ تعالی کے والد محترم حضرت سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور
والدہ محترمہ حضرت سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہابھی شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص ، علم وفضل،
فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے
ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔(جاری
ھے ) |