عورت کا سماجی مرتبہ اور ہمارا رویہ!

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے۔ انسان کی تعریف میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں۔ کسی بھی زبان کی لغت میں عورت کو انسان کی تعریف سے جدا نہیں دکھایا گیا۔ تمام مذاہب عالم میں بھی عورت انسان کے زمرے میں ہی شمار کی جاتی ہے۔ عورت کو اللہ نے مرد کی طرح ہی انسانی حقوق دیئے ہیں قرآن میں زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دے کر دونوں کے درمیان مساوات پیدا کردی۔لباس کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ نہ صرف انسانی جسم کی ستر پوشی کرتا ہے، بلکہ وہ انسانی جسم کے عیوب بھی چھپاتا ہے۔

اس تناظر میں میاں بیوی پر لازم ٹھہرتا ہے کہ اگر وہ ایک دوسرے میں کسی قسم کی بشری کمزوریاں یا خامیاں دیکھیں تو ان نقائص یا کمزوریوں کو دنیا کے سامنے مت اچھالیں کیونکہ میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ خانگی گاڑی چلانے اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے لئے دونوں کو بہت زیادہ ایثار اور قربانیاں دینا پڑتی ہیں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرنا پڑتا ہے،مگر ہمارے معاشرے میں ابھی تک عورت کو اس کا صحیح مقام دینے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے اس کے لئے دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ ہمارا معاشرہ صدیوں تک ہندو سماج کے زیر اثر رہا ہے اس لئے ہندووانہ سماج کی برائیاں ہمارے معاشرے میں بھی در آئی ہیں۔ ہمارے سماج کی اکثریت کیونکہ دیہاتی ہے اور وہاں تعلیمی انحطاط کی وجہ سے روشن خیالی کا فقدان پایا جاتا ہے، اس لئے عورت کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے، حالانکہ ایک دیہاتی عورت شہری عورت کے مقابلے میں معاشرتی اعتبار سے زیادہ فعال ہے۔ وہ گھر داری کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں بھی مرد کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ کپاس جیسی فصلوں کی چنائی کرنی ہو یا چاول کی بوائی دیہاتی عورت مرد سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتی ہے،بھٹہ خشت تو چلتے ہی عورت مزدور کے سر پر ہیں، مگر کتنے المیے کی بات ہے کہ عورت کو پھر بھی دوسرے درجے کی مخلوق سمجھ کے اس کے ساتھ ظلم روا رکھا جا تا ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ شہروں میں بھی عورت کے ساتھ حسن سلوک میں کمی مشاہدے میں آتی ہے دور جدید میں جب عورت معاشرے میں ہر جگہ اپنا مقام بناتی نظر آرہی ہے، تعلیمی میدان میں اس کی کارکردگی نمایاں ہے، کاروبار زندگی کے تمام شعبوں میں وہ اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود سماج میں اسے وہ مقام اور مرتبہ نہیں ملتا، جس کی وہ حق دار ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد حضرات جو سماجی حلقوں میں عورتوں کے حقوق کے علم بردار بنتے ہیں اپنی ذاتی زندگیوں میں عورت کو برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ روشن خیالی کے دعوے دار مرد اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ اجڈ اور گنوار مردوں سے بھی زیادہ برے طریقے سے پیش آتے ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرے میں بچیوں کو تعلیم دلوانے کا رواج زوروںپر ہے لڑکیاں قابلیت کا مظاہرہ کرتی ہیں تو ماں باپ بڑے چاﺅ سے انہیں ڈاکٹر،انجینئر، اکاﺅنٹینٹ یا ہنر مند بنانے پر اپنا روپیہ پیسہ اور وقت خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض لڑکیاں اعلیٰ قابلیت کی بنا پر سول سروس کا امتحان بھی پاس کر لیتی ہیں ۔تعلیم یافتہ لڑکے اچھی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو شوق سے بیاہ کر لاتے ہیں، مگر جونہی شادی کا ہنی مون پیریڈ گزرتا ہے، شوہر میں سوئی ہوئی مردانگی جاگ اٹھتی ہے اور وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ،ہنر مند بیوی کو گھر گرہستن بنانے پر تل جاتا ہے یہ ہمارے سماج کا وہ تاریک پہلو ہے، جس کی طرف کسی مصلح یا رہنما کی نظر نہیں جاتی ہمارے سماجی رہنماو¿ ں کو اس اہم مسئلے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بھی اس معاشرتی کمزوری کے بارے میں لوگوں کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے آج کل عورت کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود گھروں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم میں کمی واقع نہیں ہو رہی اس میں ان پڑھ یا پڑھے لکھے کی کوئی تخصیص نہیں، مرد کی بالادستی کے زعم میں مبتلا سارے ہی مرد ایک طرح سے سوچتے ہیں ایسے لوگوں سے عورت کو برابری کا حق دلوانے کے لئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ اگر ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے برابر کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے سماج میں عورت کو اس کا اصل مقام دینا ہوگا!

Mubah Soleja
About the Author: Mubah Soleja Read More Articles by Mubah Soleja: 10 Articles with 6117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.