ایک افسوسناک داستان

آج آپ کو ایک ایسی داستان سُنانا چاہتا ہوں جسے سُن کے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہمارے ملک کا قانون اور ہمارے علماء کس قِسم کے مسلمان ہیں ،آیا وہ مسلمان ہیں بھی کہ نہیں!قصہ کُچھ یوں ہے کہ کُچھ عرصہ قبل ضلع چنیوٹ میں انسانیت سے گری ہوئی حرکت کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ایک پندرہ سالہ بچی کے ساتھ درندگی کی انتہا کی گئی۔اُس بنت حوا کو کُچھ درندوں نے 12دن اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور 12دن بعد جب اُس غریب کے والد کو علم ہوا کہ اُنکی بیٹی کن درندوں کے پاس ہے وہ تو اپنی بیٹی مانگنے اُن درندوں کے پاس پہنچے تو جواب ملا کہ ایک لاکھ روپے لاﺅ اور بیٹی لے جاﺅ۔اُس معصوم بچی کے والد نے التجاء کی کہ ہم انتہائی غریب لوگ ہیں اور بمشکل گزارہ کر رہے ہیں ہم اتنے پیسوں کا بندوبست کہاں سے کریں تو جواب ملا کہ ایک لاکھ دو اور بیٹی لے جاﺅ ورنہ ہمارے پاس تمہاری بیٹی ہے ہی نہیں تم جو کر سکتے ہو کر لو۔اُس بچی کے والد نے درندوں کی سنگدلی کا جواب سُننے کے بعد کہا کہ فلاں تاریخ کو ایک لاکھ کا انتظام کر دیں گے ہمارے بیٹی ہمیں دے دو تو اس بات کا جواب کُچھ یوں مِلا کہ پھر فلاں تاریخ کو ہی اپنی بیٹی لے جانا۔ لڑکی کا والد چند دن بعد کچہری گیا تاکہ وکیل سے مشورہ کر کے کیس کرے تو وہاں دیکھا کہ وہاں ایک کونے میں اُسکی بیٹی اور اُس کے ساتھ دس سے بارہ لوگ کھڑے تھے جو اُن درندوں کے ساتھی تھے۔لڑکی نے دیکھتے ہی چلانا شروع کیا اور بھاگی اپنے والد کے پاس آگئی اس طرح اُس بچی کی جان اُن درندوں سے چھوٹ گئی۔جب اُسکے والد نے FIRدرج کروائی کہ اُسکی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو ایک عجیب بات سامنے آئی کہ ملزمان نے ایک نکاح نامہ جمع کروایا جس کے مطابق اُن میں سے ایک شخص نے لڑکی سے نکاح کیا تھا۔یہ جان کر آپ اور بھی حیران ہوں گے کہ نکاح فارم پر درج مولوی دوست محمد امام مسجد گلزار مدینہ سٹیلائیٹ ٹاﺅن کا کوئی زمین اور آسمان پر وجود ہی نہیں تھا اور نکاح کا اندراج یا رجسٹریشن بھی کہیں نہیں ہوئی تھی۔قصہ مختصر یہ کہ علاقہ کے ایس ایچ او سمیت مولوی اور انصاف دینے والے سب اس واقعے میں درندوں کا ساتھ دیتے نظر آئے۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ درندے دندناتے پھر رہے ہیں اور اُس بچی کو آج تک انصاف نہیں ملا اور ذمہ داران کو اب تک سزا نہیں ملی۔ یعنی نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اب تو ہمارے ملک میں جھوٹے نکاح اور نکاح خواں بھی چند روپوں میں مل جاتے ہیں۔ مولوی اور نکاح خواں صرف داڑھی سے پہچانے جاتے ہیں جس نے جتنی لمبی داڑھی رکھی ہو اُسے اُتنا ہی شریف اور اعلیٰ عالم سمجھا جاتا ہے۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں جب بھی حق کی بات کرتا ہوں تو مجھے منفی جوابات سُننا پڑتے ہیں ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوچکا ہے کہ کبھی کسی عالم کا ذکر کروں تو بہت سے پڑھنے والے منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی یہ بتائے کہ کیا اس واقعے میں ملوث درندے، مولوی، پولیس اور انصاف دینے والے سبھی کسی نہ کسی رنگ میں ذمہ دار نہیں؟اُس غریب شخص کی بیٹی کی جگہ اگر اِن میں سے کسی ایک کی بیٹی ہوتی تو کیا ان سب کا یہی رویہ اور طریق ہوتا؟روپیہ دیکھ کر ہمارے قانون کے محافظ، علماء اور انصاف کے ٹھیکیدار ایسے بدلتے ہیں جیسے اُنکا اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ اُن کے ناپاک وجود میں روپے کا ضمیر بستا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایسے واقعات سُننے کے بعد بھی ہماری عوام اُن علماء کے پیچھے لگی ہوئی ہے جن کے قصے اخباروں میں دندناتے نظر آتے ہیں اور وہ منہ سے امن کی بات کرتے ہیں جبکہ اُن کے اندر درندے بستے ہیں۔
Inam Ul Haq
About the Author: Inam Ul Haq Read More Articles by Inam Ul Haq: 38 Articles with 43863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.