بزنس مین ایسے بھی ہوتے ہیں

گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس فیلڈ کو آپ ناپسند کرتے ہیں. جن لوگوں کو دیکھ کر آپ ناک بھوں چڑھاتے ہیں اسی سے آپ کا مستقبل وابستہ ہوجاتا ہے. 1983 کو اورنگی ٹاؤن بجلی نگر ملز ایریا میں آنکھ کھولنے والے شکیل شریف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. وہ بچپن میں کھیلتے ہوئے، راہ چلتے جب روئی سے اٹے لوگوں کو دھاگے کے تان اور بنڈل گاڑیوں سے اٹھاتے یا مشینوں سے الجھتے دیکھتا تو اسے ان لوگوں پہ رحم آتا کہ بے چارے کیسے اس فضا میں زندگی گزار رہے ہیں. پھر ہوا یوں کہ ایک دن ان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کو گاؤں جانا پڑگیا. جاتے ہوئے وہ شکیل شریف کو اپنی جگہ سونپ گیا. تین ماہ بعد جب واپس لوٹا تو جی ایم صاحب نے دونوں کو بلا کر صاف الفاظ میں کہاکہ مجھے اس پوسٹ پہ شکیل شریف کو ہی رکھنا ہے. کپتان صاحب کو نہیں. اب شکیل صاحب آپ کی مرضی. شکیل صاحب نے کپتان کی طرف دیکھا. کپتان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے مجھے نکالنے میں تمہارا ہاتھ نہیں بلکہ تم تو اس ماحول سے ہی دور بھاگنے والے ہو. اب آئی ہوئی روزی کو ٹھکرانا بھی کفران نعمت میں شمار ہوگا. یوں شکیل صاحب نے کپتان کی جگہ سنبھال لی اور 9 سال تک اس جانفشی سے "کپتانی" کی کہ سیاست میں مصروف فیکٹری مالک مہینوں مہینوں فیکٹری کا رخ نہ کرتا. شکیل صاحب پہ انھیں مکمل اعتماد تھا. سب کچھ شکیل صاحب ہی دیکھتے. ان کے دستخط سے ہی مال آتا اور جاتا. 9 سال کا سفر کام یابی سے طے کرنے کے بعد 2008 میں انہوں نے اپنے والد کے نام سے اپنی فیکٹری شریف انٹرپرائزز کی بنیاد رکھی. شریف انٹرپرائزز کپاس سے بنے دھاگے سے ہرقسم اور ہر ڈیزائن کا تولیہ بنانے والی فیکٹری ہے. شکیل شریف نے 17 سال ایسی محنت، لگن اور ایمان داری سے کام کیا کہ آج شریف انٹر پرائزز کا مال اندرون ملک کے علاوہ امریکا، یورپ، اٹلی اور اسپین تک جاتا ہے. حج وعمرہ کے لیے دیدہ زیب احرام بھی ان کی فیکٹری تیار کرتی ہے. وہ ٹیکسٹائل ملز کی تنظیم اسمال انڈسٹری ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں.

شکیل شریف صاحب کی ایمان داری، خوش اخلاقی، مہمان نوازی اور ادب ذوقی کے قصے بہت سن رکھے تھے. ارادہ تھا ایسی باغ وبہار شخصیت سے ملاقات اور تبدیلی بارے ان کے خیالات جاننے کا. شکیل شریف صاحب بھی تبدیلی کی ہوا سے نالاں نظر آئے. ان کا کہنا تھاکہ ترقی یافتہ ممالک میں تاجروں کو سہولیات دی جاتی ہیں. انہیں کاروبار کا سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں. ہم اس میدان میں بھی اپنے پڑوسیوں ہندوستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے ہیں. پیپلز پارٹی کے ادوار میں ٹیکسٹائل ملز کی طرف کچھ توجہ دی جاتی ہے. سہولیات سے نوازا جاتا ہے. نواز شریف کو کاروباری گردانا جاتا ہے. تاجر دوست تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ان کے دور حکومت میں بھی ہم بے توجہی کا شکار رہے. پی ٹی آئی حکومت بھی ابھی تک غفلت کی ردا اوڑھے ہوئے ہیں.

شکیل شریف صاحب نے افسردہ لہجے میں کہا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا ہے. کے الیکٹرک کراچی بھرمیں بجلی کی نئی تاریں لگارہی ہے. دعویٰ تھا کہ نئی تار لگنے کے بعد بجلی نہیں چوری کی جاسکے گی جس کا فائدہ 24 گھنٹے بجلی کی صورت میں ملے گا. جن علاقوں میں نئی تاریں لگی ہوں گی. وہ علاقہ لوڈ شیڈنگ فری ہوگا. 3 ماہ ہوگئے ہمارے علاقہ میں تار لگے ہوئے. قسم ہے جو ایک دن بھی بغیر لوڈ شیڈنگ کے گزرا ہو. میری فیکٹری میں 24 مشینیں چل رہی ہیں. بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے ماہانہ 2 لاکھ صرف جنریٹر کا خرچہ ہے. اس سردی کے موسم میں بھی دن میں کم از کم 9 گھنٹے لوڈ شینڈنگ معمول ہے. ہم شکایت کرتے ہیں کہ بھئی! اب کیوں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے. نئی تاریں لگ چکی ہیں. علاقہ لوڈشیڈنگ فری کیوں نہیں ہورہا؟ کہا جاتا ہے کہ تمہارے علاقے سے اب بھی بجلی چوری ہورہی ہے. ہم نے ثبوت مہیا کیے کہ کوئی اور نہیں صرف تمہارے لاڈلے مہینہ میں لاکھوں کی بجلی اور گیس چوری کر رہے ہیں. ان چند چوروں کی سزا پورے علاقہ کو کیوں دی جارہی ہے. کوئی غریب بجلی چوری کا مرتکب ہوتا ہے تو اگلے ہی دن اس کی گرفت ہوجاتی ہے. ہزاروں کے بل تلے اسے روند دیا جاتاہے. ان مافیاز پہ ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا. صرف اس لیے ناں کہ تم بھی اس چوری میں حصہ دار ہو.

قبل اس کے کہ شکیل صاحب مزید جوش میں آتے ہم نے گفتگو کا رخ ادب اور "فیس بک ڈائجسٹ" کی طرف موڑ دیا. شکیل صاحب پطرس بخاری اور مستنصر حسین تارڈ کے خوشہ چین ہیں. فیس بک ڈائجسٹ کے لکھاری ظفر جی، امتیاز احمد اور ریاض خٹک کے وہ مستقل قاری ہیں. عامر خاکوانی اور نعمان بخاری کی تحاریر بھی انہیں متاثر کرتی ہے. سفرنامے وہ شوق سے پڑھتے ہیں.

رات گئے میں ان کی محبتوں کا اسیر رہا. وقت گزرنے کا احساس بیگم کی چنگاڑتی کال سے ہوا. رخصت لے کر گھر روانہ ہوا. راستے میں بارش کی خبر دیتے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں خواب بُننے لگاکہ اگر تبدیلی کے نعرے سے وجود میں آئی حکومت صرف اس شعبہ کی طرف ہی توجہ مرکوز کردے، انوسٹر مافیاز کو لگام دے تو شکیل شریف اور ان جیسے ایمان دار تاجروں کی دعائیں اسے کام یابی کی راہ پہ گامزن کردیں گی.
 

Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 58240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.